جامعہ ملیہ اسلامیہ کا جشن صد سالہ


معجزاتی طور پر معرض وجود میں آئی جامعہ ملیہ آج اپنے قیام کی سوویں سالگر ہ منا رہی ہے۔ 29 اکتوبر 1920 ء کو جب علی گڑھ کی جامع مسجد میں جامعہ کی علامتی سنگ بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اس وقت بہت کم لوگوں کو یہ یقین تھا کہ جامعہ اپنے قیا م کے سو دن بھی مکمل کر پائے گی۔ لیکن جامعہ کا قیام تو جیسے کسی آسمانی منصوبے کا حصہ تھا۔ تاریخ کے ہر نازک مرحلے پر جب ایسا محسوس ہوتا کہ بس اب جامعہ کی بساط لپیٹی جانے والی ہے تو غیب سے کوئی مدد آجاتی اور جامعہ کو سنبھالا مل جاتا۔ ان تمام مراحل پر بانیان جامعہ اور اس کے ہمدردان و بہی خواہان نے ایثار وقربانی کی جو مثالیں پیش کیں اور جس حوصلے اور ثابت قدمی کا مظاہر ہ کیا، تاریخ ایسی کوئی دوسری نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جامعہ کا قیام ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح منصوبہ بند طریقے سے کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے مہم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے قیام کے سیاسی اور اصولی محرکات تھے جو علی گڑھ کالج کے سیاسی اور نظریاتی موقف سے اختلاف کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ جامعہ تحریک کا سب سے خوبصورت اور امید افزا پیغام یہ تھا کہ اختلاف رائے اور روایت شکنی سے نئی مثبت راہیں نکالی جا سکتی ہیں اور اس کے خوشگوار نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔

یہ انفرادیت بھی محض جامعہ کو ہی حاصل اس کے قیام کے لیے دو یکسر مختلف الخیال اور متضاد نظریات کی حامل فکر گاندھی جی کی ایما پر متحد ہو گئی تھیں۔ ایک طرف سامراج مخالف اسلامی قوتیں تھیں جو خلافت تحریک کی قیادت کر رہی تھیں تو دوسری جانب مغربی تعلیم یافتہ سیکولر دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو تحریک عدم تعاون کی نمائندگی کرتا تھا۔ ایک نے مسجد اور مدرسوں کی چٹائیوں پر ذانوئے تلمذ تہہ کیا تھا تو دوسرا مغرب کے جدید اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ اتحصیل ہوا تھا۔ اسلامی فکر اور سیکولر نظریات کا اتناحسین امتزاج تاریخ نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔ ترقی پسندی اور سیکولر ازم میں اسلامی فکر کی آمیزش جامعہ کے بنیاد کی اساس تھی۔

سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین جو جامعہ کے بانیان میں سے تھے، جامعہ کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”جامعہ کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ“ یہ ہندستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایک ایسا نقشہ تیار کرے جس کا مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھپ جائے ”۔

جن مقدس ہستیوں نے جامعہ کے قیام میں نمایاں کر دار ادا کیا ان میں مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار انصاری، ڈاکٹر ذاکر حسین اور عبدالمجید خواجہ کا نام سرفہرست ہے، جنھوں نے برطانوی حکومت کے مالی تعاو ن سے چل رہے تعلیمی ادارے کے بائیکاٹ کے کال پر لبیک کہتے ہوئے علی گڑھ سے اپنا ناتہ توڑ لیا اور جامعہ کی بنیاد ڈالی۔ تقریباً پانچ سالوں تک کرائے کی کوٹھیوں اور عارضی خیموں میں انتہائی تنگ دستی اور بے سروسامانی کے عالم 1925 میں جامعہ دہلی منتقل کردی گئی۔

جامعہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ تاریخ کے ہر نازک موڑ پر جامعہ کو ایسے جانثاروں کی خدمات حاصل ہوتی رہیں جنھوں نے جامعہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا۔ جن کے بارے میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے تھے کہ ”جامعہ میں اگر کوئی تعریف کا مستحق ہے تو وہ میں بالکل نہیں ہوں، میرے وہ ساتھی ہیں جو اپنا نام کسی کو نہیں بتاتے اور دن رات اس ادارے کی خدمت میں اپنی جانیں کھپاتے ہیں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ ان جیسے کارکن مشکل سے کسی ادارے کو نصیب ہوں گے۔ یہ قوم کے بچوں کے لیے اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور خود ان کے بچے اچھی غذا اور اچھے لباس کے لیے ترستے ہیں۔ انھیں مہینوں ان کے حقیر معاوضے نہیں ملتے اور پھر کہیں سے روپیہ آ جاتا ہے تو یہ پہلے جامعہ کے لیے زمین خریدواتے ہیں اور اپنے مطالبات کو موخر کردیتے ہیں“ ۔

تاریخ کے پر آشوب اور صبر آزما دور سے گزرتی ہوئی جامعہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہی۔ چنانچہ آزادی کے بعد حکومت ہند نے اسے ’قومی اہمیت کا حامل ادارہ‘ تسلیم کر لیا اور 1962 میں اسے ’ڈیمڈ یونیورسٹی‘ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ 1988 میں پارلیامنٹ میں جامعہ بل پیش کیا گیا جس کی رو سے جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہو گیا۔ لیکن جامعہ کی تاریخ میں سب سے اہم اور خوش آئند موڑ اس وقت آیا جب 22 فروری 2011 کے NCMEI کے ایک تاریخی فیصلے کے نتیجے میں جامعہ کا اقلیتی کردار جو جامعہ ایکٹ کی زد میں آ کر معطل ہو گیا تھا، بحال کر دیا گیا اور اس طرح جامعہ کو ملک کی پہلی مرکزی اقلیتی یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔

اب جب کہ جامعہ اپنے قیام کی ایک صدی مکمل کرچکی ہے تو یقیناً جامعہ برادری کے لیے ایک جشن کا موقع ہے۔ جشن کا موقع اس لیے بھی ہے کہ اسی سال حکومت ہند کی فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے جامعہ کو ملک کی بہترین مرکزی یونیورسٹی قرار دیا ہے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ جامعہ کی ترقی تیز رفتار رہی ہے۔ آج جامعہ میں تعلیم کے تمام اہم شعبے موجود ہیں۔ بعض شعبے اپنی کارکردگی اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے پورے ملک میں سرفہرست ہیں۔

کیمپس میں درس و تدریس کا ماحول بھی غیر تشفی بخش نہیں کہا جاسکتا گو کہ بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ جامعہ کے ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمی نے ایک مختصر مدت میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ جشن کا موقع اس لیے بھی ہے کہ ایک صدی گزرجانے کے بعد بھی جامعہ اپنے بانیان کے انھیں نظریات پر قائم ہے۔ ترقی پسندی، سیکولر ازم، رواداری اور اسلامی اقدار کا حسین امتزاج آج بھی جامعہ کا خاصہ ہے۔

یہاں کے طلبا و طالبات میں اب بھی بغاوت کی وہی چنگاری موجود ہے، وہ اب بھی تعصب اور تنگ نظری کے خلاف سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ یہاں کی مٹی آ ج بھی عصبیت ا ور انسانی غلامی کو قبول کر نے کو تیا ر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کی آڑ میں ملک کے آئین سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی تو نہ صر ف یہ کہ پوری جامعہ برادری اس کے خلاف سرا پا احتجاج بن گئی بلکہ اس نے پورے ملک میں اس متعصبانہ قانون کے خلاف جمہوری اور پرامن مزاحمت کی ایسی فضاء قائم کردی جس کو قابو کر پانا مشکل ہو گیا۔

یہ جامعہ کے طلبا کی ہی فہم و فراست تھی کہ حکومت کے خطرناک منصوبے کا ادرا ک سب سے پہلے یہا ں کے طلبا و طالبات کو ہوا۔ تمام خدشات اور تحفظات کے باوجود اگر کسی چیز نے انھیں حکومت وقت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نے کا حوصلہ دیا تھا تو وہ جامعہ کی آزاد اور انقلابی فضا کا ہی کمال تھا۔ یہ اسی ’مکتب کی کرامت‘ تھی جس نے اپنے طلبا و طالبات کو فکر و نظر کی آزادی فراہم کی تھی۔ جامعہ کے طالب علموں نے جرائت اور سرفروشی کی ایسی تاریخ رقم کی جس نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔

خصوصاً جامعہ کی طالبات نے جس غیر معمولی شجاعت اور غیر ت کا مظاہرہ کیا اس میں ملک کی دبی کچلی صنف ناذک کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغا م تھا۔ پیغام تھا فرسودہ معاشرے کے لیے بھی جس نے نصف آبادی کو گھر کی چہار دیواریوں میں قید کر بے ضرر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ’ناقص العقل‘ قرار دی جانے والیوں نے اچھے اچھوں کی عقل ٹھکانے لگا دی اور راتوں رات دنیا بھر میں حقوق نسواں اور ویمن امپاورمنٹ کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان کے لیے یہ رول موڈل بن گئیں۔

مظاہروں کی صف اول سے قیادت کرتی، فلک شگا ف نعرے لگاتی، پولیس کے جوانوں کو للکارتی اور پولیس کے وحشیانہ حملوں کے شکار طلبا کے ارد گیر گھیرا بنا کر ان پر شیرنیوں کی طرح جھپٹتی ا ن کی تصاویر اور وڈیوز جب وائرل ہوئیں تو ان سے حوصلہ پاکر پورے ملک میں بڑی تعداد میں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔ شاید یہ قدرت کا ایک اور امتحان ہی تھا کہ جامعہ کو یہ قیامت خیز مناظر تب دیکھنے پڑے جب جامعہ اپنی صدی کے سال میں داخل ہو رہی تھی۔ حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے کہ جامعہ ہمیشہ کی طرح اس امتحان سے بھی سرخرو نکلی۔

لیکن آج جامعہ کی سویں یوم تاسیس کے موقع پر جشن کے ساتھ ساتھ احتساب بھی ضروری ہے کہ جس کے بغیرپائیدار ترقی کی بنیاد نہیں ڈالی جا سکتی۔ بلاشبہ جامعہ نے ترقی کے منازل تیزی سے طے کیے ہیں اور اس کا شمار آج ملک کے چند بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ لیکن بعض مسائل ایسے بھی ہیں جس سے پہلو تہی ادارے کے مشن اور مقاصد کے برخلاف ہوگا۔ سب سے اہم مسئلہ جامعہ اسکول اور جامعہ کے زیر انتظام چل رہے اسکولوں کا ہے جس میں وہ معیار آج تک قائم نہیں ہوسکا جو دہلی کے دیگر معیاری اسکولوں کا ہے۔

جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے آگے چل کر ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہو پاتے اور مجبوراً انھیں جامعہ کے ہی ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورسز پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ ایک طویل عرصہ سے ہماری خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ دوسرا مسئلہ طلبا و طالبات میں ہندی زبان کے بڑھتے اثرات اور اردو اور انگریزی پر کمزور پڑتی ان کی گرفت ہے۔ آج جامعہ کے طلبا کی اکثریت اردو اور انگریزی زبان سے نابلد ہے۔

ہندی زبان کو تدریس کا اہم ذریعہ بنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے طلبا تمام تر علمی لیاقتوں اور اپنے شعبوں میں امتیاز حاصل کرنے کے باوجود عملی زندگی میں ان حریفوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی دسترس ہوتی ہے۔ جامعہ کا ایک اہم مسئلہ ایک طویل عرصے سے طلبا یونین کی معطلی بھی ہے۔ یہ طلبا کا جمہوری حق ہے۔ اسے کسی بھی حالت میں دبایا نہیں جاسکتا۔ ذاکر صاحب کے زمانے میں طلبا یونین کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور طلبا کی ذہنی نشو و نما اور جمہوری تربیت طلبا یونین کے زیر سایہ ہو ا کرتی تھی۔ جامعہ کی طلبا یونین کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے انتقال کے بعد علامہ اقبال پر پہلا خصوصی مجلہ شائع کرنے کا شرف حاصل ہے۔

ٓآج جامعہ پر فرقہ پرست او رمتعصب عناصر کی میلی نظر ہے۔ جامعہ کی اقلیتی حیثیت انھیں قابل قبول نہیں۔ ان کی یہ دلیل آئین کی بنیادی روح سے متصادم ہے کہ پارلیامنٹ کے ایکٹ کے تحت قائم مرکزی یونیورسٹی جس کی مالی معاونت حکومت ہند کرتی ہے وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ جب کہ آئین میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کی نہ صرف آزادی ہے بلکہ آئین ہی کی ر و سے حکومت کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے کہ وہ اقلیتی تعلیمی اداروں کی مالی ضرورتوں کو پورا کرے۔

اقلیتی تعلیمی اداروں کو حکومت کی جانب سے گرانٹ کوئی امداد نہیں بلکہ یہ ان کا حق ہے جسے ملک کے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کیا جاتا ہے اور ملک کی اقلیتوں کا بھی ملک کے وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا ملک کے اکثریتی طبقے کا ۔ جامعہ اور علی گڑھ ہندستانی مسلمانوں کی شہ رگ ہیں اور مسلمانوں کے عزم وا ستقلال سے تعمیر اور خون جگر سے سینچی گئی ان دانش گاہوں کے تحفظ کے لیے قوم کو ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).