چائے کی ٹرالی اور رشتہ ماسی



\"sana-batool\" سماج ایک ہی ہے لیکن دو مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی دنیایں بالکل مختلف ہیں۔ مرد اور عورت کا امتیاز پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بیٹے کی ولادت پہ آج تک میں نے اچھے نصیب کی دعا کا نہیں سنا ہاں یہ ضرور سنا ہے کہ صحت اور زندگی والا ہو۔ بیٹی کی پیدائش پہ ایک ہی دعا کی جاتی ہے وہ ہے اچھے نصیب کی۔ اب نصیب کیا ہے؟ یہ براہ راست سسرال سے جڑا ہے جس کے بارے میں پیدائش کے وقت تعین کرنا ایک عجیب بات ہے لیکن لڑکی خواہ کتنی ہی پڑھی لکھی باہنر اور مشہور شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی کامیابی کا پیمانہ ایک اچھا بر، گھر اور اولاد ہے۔ اگر وہ ان سب چیزوں کی مالک ہے تو وہ خوش نصیب ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو قابلیت اور شہرت کسی کام کی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ثانیہ مرزا سے راج دیپ سر ڈیسائی نے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ وہ کب تک باقاعدہ خاندان میں سٹیل ڈاون ہوں گی اور اپنا خاندان بڑھائیں گی۔ ثانیہ کا جواب تھا کہ یہ وہ سوال ہے جسے وہ بحثیت عورت کے ہمیشہ سنتی آئی ہیں پہلے شادی کے متعلق پھر بچوں کے متعلق سوال اس بات سے قطع نظر کہ وہ کتنے ومبلڈن جیتتی ہیں یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنا گھر کیسے بساتی ہیں۔ پروگرام کے آخر میں سر ڈیسائی نے ان سے معذرت کی اور اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ سوال کبھی کسی مرد اتھلیٹ سے نہ پوچھا جاتا۔ یہ بات ہمارے سماج کی ذہینت کی عکاس ہے۔

ہمارے معاشرے میں رشتہ ڈھونڈنا اور اس کے لیے مخصوص رسوم اختیار کرنا عام سی بات ہے۔ رشتہ پریڈ کے تکلیف دہ عمل سے تقریباً ہر لڑکی کو ہی گزرنا پڑتا ہے۔ ہر خاندان میں رشتے بنانے والی کوئی آنٹی ضرور ہوتی ہیں جو نوجوان نسل پہ نہ صرف نظر رکھتی ہیں بلکہ اپنے طور پہ انہیں ایک دوسرے سے جوڑتی بھی رہتی ہیں پھر اس کے بعد معاشرے میں ایسے پیشہ ور افراد بھی پائے جاتے ہیں جو معاوضہ لے کے یہ کام کرتے ہیں۔ جس میں خاندان اور لڑکی کو دیکھنا ایک اہم رسم ہے۔ رشتہ کے لیے آنے والے افراد لڑکی کو نظروں ہی نظروں میں خوب جانچتے تولتے ہیں۔ اس سے ابتدائی زندگی سے لے کر ہر موضوع پہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ پھر چائے اور کھانے کا طویل دور چلتا ہے۔ جس میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کھانے کی کوئی نعمت ایسی نہ ہو جو ان کے معدے میں نہ انڈیلی جائے۔ اس میں وہ لڑکی اور اس کے خاندان کا کتنا وقت برباد کرتے ہیں یہ کوئی ایسی بات قطعاً نہیں سمجھی جاتی کہ اس پہ سوچا جائے یا شرمندگی محسوس کی جائے۔ لڑکی کو ایسے جانچا جاتا ہے جیسے قربانی کے لیے کسی جانور کو۔ بس اتنی رعایت برتی جاتی ہے کہ منہ کھول کے اس کے دانت نہیں گنے جاتے۔ اس کے بعد اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ بات آگے بڑھے گی بھی یا وہیں دم توڑ جائے گی۔ اس بات کا اثر نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے گھر والوں پہ بھی بہت منفی پڑتا ہے۔ میں ایسی لڑکیوں کو جانتی ہوں جو اس روایت سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ پڑھ لکھ کر اور خود کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد سمجھنے کے بعد خود کو پلیٹ میں سجا کے رشتے کے لیے پیش کرنا کس قدر تکلیف دہ عمل ہے اس کا اندازہ وہی لڑکی کر سکتی ہے جو اس عمل سے گزری ہو۔

وقت نے چیزوں کو بدلا ہے روایات کو نہیں۔ انٹرنیٹ پہ رشتے کی سائٹس عام دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں کوئی جدیدیت ہے سب کچھ پرانا ہی ہے بس طریقہ واردات مختلف ہے۔ کچھ دن پہلے نظر سے ایک تقریب کا انویٹیشن گزرا جو رشتہ ڈھونڈنے کے حوالے سے تھی۔ اسلام آباد میں 10 دسمبر کو منعقد ہونے والی اس تقریب مین بزنس کلاس اور پڑھے لکھے لوگوں کو موقع دیا گیا ہے۔ کہا گر وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے رشتہ نہیں ڈھونڈ سکتے تو وہاں رجسٹریشن کروا کے تشریف لائیں اور موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ظاہر ہے جیسا معاشرہ ہوتا ہے اس کے ویسے ہی مطالبات ہوتے ہیں اور مارکیٹ طلب سے مشروط ہے تو وہی بکے گا جو معاشرے کو چاہیے۔ یہ تقریب اسی سوچ کی عکاس ہے۔ اس بات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ہی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ اسے ماڈرن ازم کا نام دے لیں کہ آزادی سے چناؤ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں اپنی پسند کا معیار کیا ہو گا؟ کچھ دیر کی ملاقات میں وہی ہو سکتا ہے جو عام رشتہ ماسی کرتی ہے۔ ظاہری خال وخد، تھوڑی دیر کے لیے اپنایا گیا مصنوعی انداز، اور ظاہری شکل و شباہت کیا یہی وہ باتیں ہیں جو ہم لوگوں سے تعلق بناتے ہوئے اپنے دوستی کے حلقے میں شامل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے لوگ ایسا کرتے ہیں؟ اگر کرتے ہیں تو کتنے لوگ ایسے تعلق کو نبھا پاتے ہیں؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوتا جب ہم اپنے حلقہ احباب کو ان بنیادوں پہ نہ بناتے ہیں نہ ہی وسیع کرتے ہیں تو معاشرے کی اکائی خاندان بنانے کے لیے یہ معیار کیوں اختیار کرتےہیں؟ ایسی توقع بھی کیونکر کی جا سکتی ہے کہ دو انجان لوگوں کو ایسی ڈور میں باندھ کے ایک اچھی سمجھ بوجھ والا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اس تخیلاتی اور حقیقت سے کوسوں پرے سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جہاں معاشرہ بدل رہا ہے وہاں ایسی روایات کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو ذہنی اذیت کا باعث ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments