ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے محبت بھرا مکالمہ



ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا کالم۔ دولے شاہ کی چوہیا پڑھا تو آنکھوں کے سامنے دولے شاہ کی چوہیوں کے ساتھ دولے شاہ کے چوہے بھی رقص کرنے لگے آخر مرد اور عورت کا ساتھ ازل سے ہے اور رہے گا تو دولے شاہ کی غلامی میں علیحدگی کیسے ممکن۔ پیر تو سب کا سانجھا ہے۔

غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ دولے شاہ کی یہ نسل برصغیر پاک وہند میں ہی جنم لیتی ہے باقی دنیا میں انسان جنم لیتے ہیں کیونکہ ان معاشروں میں دولے شاہ جنم نہیں لیتے۔ اس معاشرے میں دولے شاہ کے چوہوں کی تاریخ سینکڑوں نہیں, ہزاروں سال پرانی ہے جن پر حکومت کرنے کے لیے بیرونی دنیا سے انسانی لشکر یہاں ٹوٹے پڑ رہے ہیں اور ان چوہوں پر پرانے فاتحین سے لے کر آج کی جدید کمپنیوں کی حکومت جاری ہے۔ اس علاقے میں دولے شاہ سے محبت اتنی شدید ہے کہ کوئی انسان نما چیز یہاں جنم لیتے ہوئے گھبراتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جب کسی دولے شاہ کے چوہے کے گھر دولے شاہ کی چوہیاجنم لیتی ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کے سر پر کئی آہنی کنٹوپ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ باپ کی عزت، بھائی سے نابرابری، شوہر کی اطاعت اور بیٹے کی اہمیت کے آہنی خود اسے گردن ہلا کر اردگرد دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے اور عمر بھر پہ چوہیا اپنے چھوٹے سر اور چھوٹے پیروں کی ساتھ رینگتی رہتی ہے۔ آخرچھوٹے پیر بھی تو خوبصورتی میں شمار ہوتے ہیں اور عورت کو خوبصورتی سے ہٹ کر دیکھنا ہمیں گوارا نہیں اس لیے سر پر آہنی کنٹوپ اور پاؤں کی ٹوٹی انگلیوں کو نصیب کا لکھا سمجھ کر یہ چوہیا سر تا پا چھوٹے پن کا شکار رہتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چوہیا بڑھنے لگتی ہے تو معاشرے کی اندھی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ اس کا آسان حل اسے کسی دوسرے دولے شاہ کے چوہے کی غلامی میں دے کر نکالا جاتا ہے جہاں وہ اپنے جیسی کئی اور دولے شاہ کی چوہیوں کے ساتھ گزر بسر کرتی ہے۔ یہاں اسے کئی جنگیں لڑنی ہیں۔ اپنے اردگرد موجود چوہیاں اسے اور کئی چوہیوں کو وہ خود کھٹکنے لگتی ہے۔ سسرال تو آخر سسرال ہے شوہر پر بھی اندھا اعتماد اس کے فرائض کا لازمی جزو ہے آخر چوہوں میں بھی تو مجازی خدا اور پاؤں کی جوتی ہوتے ہیں بائیولوجیکلی انسان اور چوہے جانور ہی شمار ہوتے ہیں نا۔

ایک جملہ جو ہمیشہ کانوں میں پڑتا رہا کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے اس چوہیا کو ڈراتا اور تڑپایا ہے کیونکہ اب اسے اپنی راج دھانی کا ڈر ہے جس کی وہ کنیز نما ملکہ ہے معاشی طور پر انتہائی کمزور چوہیا کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ کوئی اور چوہیا آ کر اس کے سر کی چھت اور دو وقت کی روٹی ہتھیا لے۔ وہ بھول جاتی ہے کہ اسی کمزور معیشت میں کئی اس جیسی دولے شاہ کی چوہیاں ہیں انہیں بھی سر پر چھت اور پیٹ کا جہنم سرد کرنے کے لئے کچھ تو چاہیے۔

اسی کھینچا تانی میں دولے شاہ کا چوہا مچان پر بیٹھا آنکھیں مچمچاتا دلی سکون اور روحانی تسکین لیے اپنی انا کے جہنم کو جنت سمجھ کر خوش ہوتا ہے۔ ارے عورت کیوں عورت کی دشمن ہے۔ اسے تم مردوں نے, ایک دوسرے کا دشمن بنایا ہے تاکہ تمہاری انا ساتویں آسمان پر رہ سکے جو شاید جنت اور حوروں سے زیادہ قریب ہے۔ تم مجازی خدا کہلانے کی حرص میں خدا بن جاتے ہو، خود کو کسی کا رازق کسی کا پالن ہار سمجھ کر۔ مگر مرد بھی کیا کرے ہے تو وہ بھی اسی معاشرے میں دولے شاہ کاچوہا۔

پیدا ہوتے ہی اس کے سر پر بھی کئی آہنی کنٹوپ چڑھآ دیے گئے تھے تم ماں باپ کا سہارا ہو, ان کی نسل تم سے آگے بڑھنی ہے, بہنوں کا سائبان ہو۔ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ مرد کو یہ باتیں احساس تفاخر کا شکار کر دیتی ہیں اور یہی احساس اسے زندگی کے میدان میں اندھا دھند بھگائے رکھتا ہے اور جب بھاگ بھاگ کر تھک جاتا ہے تو پھر کسی دولے شاہ کی چوہیا کے آنچل میں سستانا چاہتا ہے۔ جب دونوں انسانی سطح سے نیچے بھی جانور ہیں اور اس سطح سے اوپر بھی تو مل بیٹھ کر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخر دولے شاہ کے چوہے اور چوہیا بننے کے عمل سے باہر آ کر انسانی سطح پر زندگی بسر کریں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی اس بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے کہ مرد معاشرے میں بااختیار ہے وہ چاہے تو معاشرے میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے اور اس معاشرے میں انسان جنم لے سکتے ہیں مگر اس کے لیے اسے اپنی خود ساختہ اور جہاں ساختہ انا کو ایک طرف رکھنا ہو گا ورنہ اس کی اپنی نسل میں دولے شاہ کے چوہے اور چوہیاں پیدا ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).