بنگلہ دیش میں مظاہرین کا فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کا مطالبہ


Protest calling for the boycott of French products and to denounce French President Emmanuel Macron in Dhaka, Bangladesh, October 27, 2020
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہزاروں لوگوں نے شڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے ہیں جن میں ان کا مطالبہ ہے کہ فرانس کی جانب سے سخت گیر اسلامی عناصر کے خلاف موقف اپنانے پر فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔

مظاہرین نے صدر میکخواں کی جانب سے حال ہی میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کے دفاع کے تناظر میں ان کا پتلہ بھی جلایا۔

مقامی پولیس نے مظاہرین کو فرانسیسی سفارتخانے تک پہنچنے نہیں دیا۔

صدر میکخواں کے فرانسیسی سیکیولر ازم کے دفاع کے بعد متعدد مسلم اکثریتی ممالک کے نشانے پر ہیں۔

انھوں نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا تھا جب فرانس میں ایک استاد نے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔ صدر میکخواں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کارٹون نہیں چھوڑیں گے۔

پیر کے روز ترک صدر طیب اردوغان نے بھی فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔

ٹی وی پر ایک تقریر کے دوران صدر اردوغان نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اب ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جو کہ دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کے خلاف یورپ میں چلائی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ فرانسیسی رہنمائوں کو فرانسیسی صدر کو بتایا چاہیے کہ وہ اپنی نفرت پرستانہ مہم بند کریں۔

تاہم یورپی حکومتوں نے صدر میکخواں کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور صدر اردوغان کے فرانسیسی صدر کے بارے میں بیان کی مذمت کی ہے۔ صدر اردوغان نے کہا تھا کہ ان کے فرانسیسی ہم منصب نے سنیچر کو سخت گیر اسلام کے خلاف جو بیان دیا ہے انھیں اس حوالے سے ذہنی علاج کی ضرورت ہے جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔

ڈھاکہ میں کیا ہو رہا ہے؟

پولیس کے اندازوں کے مطابق تقریباً 40000 افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا ہے جو کہ بنگلہ دیش کی بڑی ترین اسلام پسند سیاسی جماعتوں میں سے ایک اسلامی اندولان بنگلہ دیش نے منعقد کیے تھے۔

مظاہرین نے فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ اور فرانسیسی صدر کو سزا دینے کے حق میں نعرے بازی کی۔

اسلامی اندولان بنگلہ دیش کے رہنما عطا الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ فرانسیسی ان چند رہنمائوں میں سے ایک ہیں جو شیطان کی عبادت کرتے ہیں۔

Protest calling for the boycott of French products and to denounce French President Emmanuel Macron in Dhaka, Bangladesh, October 27, 2020

انھوں نے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیں۔

ایک اور رہنما نصار الدین نے کہا کہ „فرانس مسلمانوں کا دشمن ملک ہے۔ جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں۔‘

پولیس نے فرانسیسی سفارتخانے سے تقریباً 5 کلومیٹر دور تک خاردار تار سے رکاوٹیں کھڑی کر دیں تھیں۔ فرانسیسی حکومت نے اپنے شہریوں کو انڈونشیا، بنگلہ دیش، عراق اور موراتانیہ جانے کے حوالے سے تنبیہ کی ہے۔ ان تمام ممالک میں اس حوالے سے مظاہرے ہوئے ہیں۔

فرانسیسی حکومت کی جانب سے ایک بیان میں بائیکاٹ کی اپیلوں کی بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ فرانس میں آزادیِ اظہارِ رائے اور صدر کے بیان کو سیاسی مقاصد کے لیے موڑ توڑ کر پیش کرتی ہیں۔

اس سب کی وجہ کیا ہے؟

رواں ماہ میکخواں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں ‘بحران کا مذہب’ بن گیا ہے اور ان کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔

اس سے قبل سیموئل پیٹی نامی ٹیچر نے اپنے طالب علموں کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد فرانس کی حکومت نے پیرس میں اس مسجد کو بند کر نے کا حکم دیا ہے جہاں سے جمعے کو ہلاک کیے جانے والے استاد سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

سیموئل پیٹی کے قتل کے لرزہ خیز واقعے نے فرانس میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتوار کو لاکھوں لوگوں نے آزادیِ اظہار اور ٹیچر کے حق میں اور خلاف ریلیاں نکالیں۔

انسداد دہشت گردی کے حکومتی وکیل ژان فراسو رچرڈ نے کہا ہے کہ پیٹی کو اس وقت سے دھمکیاں مل رہی تھیں جب انہوں نے آزادی اظہار کے بارے میں اپنی کلاس میں متنازع خاکے دکھائے تھے۔

پیٹی تاریخ اور جغرافیہ کے استاد تھے۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں کئی کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ خاکے دکھائے اور مسلمان طالب علموں سے وہ یہ ہی کہتے تھے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاکے ان کے لیے ناقابل برداشت یا اشتعال انگیز ہیں تو وہ انھیں نہ دیکھیں اور اپنے نظریں پھیر لیں۔

مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبر اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔

فرانس میں یہ معاملہ طنزیہ جریدے چارلی ایبڈو میں خاکے شائع کیے جانے کے بعد انتہائی سنگین صورت حال اختیار کر گیا تھا۔

ملک میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں دو افراد کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا ہے۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

فرانس میں مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسلمان آبادی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت سیکیولر ازم کو ہتھیار بنا کر انھیں نشانہ بناتی ہے۔

پیر کے روز ایک ٹوئیٹ میں فرانسیسی صدر نے کہا فرانس اس حوالے سے کبھی ہار نہیں مانے گا مگر امن کے لیے وہ تمام مذاہب کے مختلف خیالات کی عزت کرتے ہیں۔

https://twitter.com/EmmanuelMacron/status/1320419059016617985

دیگر ممالک میں کیا ہو رہا ہے؟

حالیہ دنوں میں چند ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کی گئی ہیں جن میں کویت، اُردن اور قطر سمیت دیگر ممالک کے کاروباری حضرات کو اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹاتے اور ان مصنوعات کو دوبارہ فروخت نہ کرنے کا عزم کرتے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ 48 گھنٹوں سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔

اس کے علاوہ فرانس کے صدر کے بیانات کے بعد لیبیا، شام اور غزہ کی پٹی پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔

ترکی اور پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے صدر میکخواں پر کڑی تنقید کی گئی ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ‘مذہبی آزادی’ کی عزت نہیں کرتے اور ان کے باعث فرانس کے لاکھوں مسلمان پسماندگی کا شکار ہو گئے ہیں۔

اتوار تک اردن، قطر اور کویت میں کچھ سپر مارکیٹس سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا دیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر فرانس میں بننے والی بالوں اور خوبصورتی سے متعلق مصنوعات گذشتہ روز وہاں موجود نہیں تھیں۔

کویت میں ایک بڑی تجارتی یونین کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

غیرسرکاری یونین آف کنزیومر کوآپریٹو سوسائٹیز کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ احکامات پیغمبرِ اسلام کی ‘مسلسل توہین’ کے بعد دیے ہیں۔

عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب میں فرانسیسی سپرمارکیٹ چین کیریفور کے بائیکاٹ سے متعلق ہیش ٹیگ دوسرے نمبر پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ دریں اثنا لیبیا، غزہ اور شمالی شام میں فرانس مخالف مظاہروں کا انعقاد بھی ہوا۔ ان تمام ممالک میں ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیا بااثر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp