فرانس کے مسلمانوں کی طاقت


’’مسلم لابی اینڈ مسلم ووٹ ان فرانس‘‘ یہ موضوع ہے ایمنے اجلا کی تحقیق کا جسے یونیورسٹی آف وولانگ گونگ آسٹریلیا نے شائع کیا۔ اس تحقیق میں فرانس کے مسلمانوں کی سیاسی زندگی کے کچھ گوشے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ خاص طور پر خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے مسلم لابی کا جو ہوا کھڑا کیا گیا ہے اس کی حقیقت کو جاننے کی سعی دکھائی دیتی ہے۔

فرانس کی سیاسی جماعتیں خیالی مسلم لابی کو ایک ووٹنگ بلاک تصور کرتی ہیں‘ ان کے خیال میں مسلمان ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی وجہ سے ایک ہی انداز اور ایک ہی طرح کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیںجس کا فائدہ فرانس کی بائیں بازو کی جماعتوں کو ہوتا ہے۔ مسلمان اپنا سیاسی رویہ ظاہر کرتے ہوئے مذہب کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بتایا گیا کہ مسلمان امہ کے تصور کو اہمیت دیتے ہیں اس لیے خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کو اپنے بعض ریاستی مفادات سے مقدم جانتے ہیں۔

امریکہ کی بات کی جائے تو نسلی گروہوں اور خارجہ پالیسی کے درمیان تعلق ایک وسیع موضوع قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ یورپ میں اس تعلق کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سکالر فرانسس فوکویاما نے اس سلسلے میں اپنا تھیسز پیش کرتے ہوئے دلیل دی کہ فرانس نے مسلم ووٹرز کی وجہ سے 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی تھی۔ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کا کہنا ہے کہ یورپی سماج میں مسلمانوں کے ساتھ جاری سماجی اور سیاسی کشیدگی یورپی پالیسی میکرز کو مشرق وسطیٰ کے متعلق پالیسی تشکیل دیتے وقت متاثر کرتی ہے۔

وہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ان کی پالیسی داخلی سطح پر مسلم برادری کو کس طرح دکھائی دے گی۔ یورپ اور فرانس میں مسلم لابی کے تصور کو امریکہ کے کچھ نیو کنزرویٹوز نے تشکیل دیا ہے‘ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کو بین الاقوامی سطح پر ایک سیاسی خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔ مسلمان تارکین وطن جب مغربی ریاستوں میں سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں تو اسے مقامی جماعتیں اور قوم پرست گروہ اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔

2005ء میں لندن میں جو حملے ہوئے ان میں وہ لوگ شریک تھے جو اسی ملک اور معاشرے میں پیدا ہوئے‘ وہ باہر سے نہیں آئے تھے۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کہ نیوزی لینڈ میں جو واقعہ پیش آیا کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی تاہم اس رپورٹ کے دیگر کئی حصوں کی تائید کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے فرانس میں ایک سکول ٹیچر کا اس کے 18 سالہ چیچن نژاد مسلمان طالب علم نے سر کاٹ دیا۔ ٹیچر نے کلاس میں اظہار رائے پر بات کرتے ہوئے حضرت محمدؐ کے خاکوں کی حمایت کی تھی۔

ہو سکتا ہے کہ طالب علم اس حد تک نہ جاتا اگر اسے اطمینان ہوتا کہ قانون سب کے لیے مساوی ہے اور ہولوکاسٹ کی طرح اس کے عقاید اور مقدس شخصیات کے احترام کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ اظہار رائے کی بحث ہر سماج میں الگ نوعیت رکھتی ہے۔ چین اور روس میں اس سے مراد ان تصور ات پر رائے دینا ہے جو ریاست نے عوام کے لیے آزاد چھوڑ رکھے ہیں۔ کچھ ستم ظریف کہتے ہیں کہ ان ملکوں میں موسم‘ کھانے اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر سب سے زیادہ آزادانہ بات ہو سکتی ہے۔

سعودی عرب میں اظہار رائے کی آزادی کا مطلب کچھ مختلف ہوگا۔ یورپ اور امریکہ میں اگرچہ ہر بات پر رائے دینے کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے تاہم عملی طور پر کئی معاملات اس آزادی کے دائرے میں نہیں آتے۔ آزادی انہیں چھو نہیں پائی‘ اسی لیے ان ملکوں میں غلط اور گمراہ کن رپورٹیں تیار کر کے عراق پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو مذہب کے سامنے کھڑا ہونے کی اجازت نہیں ہے ،دیگر معاملات پر بات کی جا سکتی ہے۔

اس فرق کو مغربی سماج ابھی تک عزت نہیں دے پایا۔ پاکستانی سیاستدان پچھلے چند سال سے خاکوں‘ توہین آمیز خیالات اور بیانات کے متعلق ایک مجرمانہ طرز عمل دکھانے لگے ہیں۔ پہلی بار خاکے شائع ہوئے تو جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ یاد ہے لاہور میں ایک مظاہرہ ہوا جس میں خواجہ سعد رفیق بھی شریک ہوئے۔ شاید سیاسی گھٹن میں یہ کسی طرح کا پہلا مظاہرہ تھا جو بے قابو ہوگیا۔ درجنوں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں جلا دی گئیں۔ 2013ء سے 2018ء تک رہنے والی ن لیگی حکومت کو گلہ رہا کہ کچھ طاقتیں اس کے خلاف مذہبی طبقات کو ابھار رہی ہیں۔

مولانا خادم رضوی کے دھرنوں اور جلسوں کا خصوصی حوالہ دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں ختم نبوتؐ قانون کی کچھ عبارات کو تبدیل کرنے پر یہ دھرنے شروع ہوئے تھے۔ دنیا کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے سو ذرائع ہیں۔ مسلم ممالک بین الاقوامی تعلقات کی سائنس میں پسماندہ سے بھی دو درجے نیچے ہیں۔ انہیں بلاک بنانا آتے ہیں نہ ریاستی مفادات کو بین الریاستی مفادات کی شکل دینا۔ اس پسماندگی کا فائدہ دشمن اٹھا لیتا ہے۔

فرانس بھارت کا حلیف ہے‘ کشمیر پر بھارت کی حمایت کر رہا ہے‘ بھارت کو جدید اسلحہ دے رہا ہے۔ بھارت اس مہم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتا ہے لیکن پہلے ہمیں خود طے کرنا ہے کہ ہم نے اپنی گاڑیاں اور املاک جلا کر احتجاج کرنا ہے یا حکومت کے ذریعے عالمی سطح پر اس ناپاک جسارت کے انسداد کا بندوبست کرنا ہے۔ رہے فرانس کے مسلمان تو صدر میکغوں کی انتہا پسندی مسلمانوں کو مزید متحد اور سیاسی لحاظ سے اکٹھا کرسکتی ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں خود فرانس کے اندر اصلاحات کا مطالبہ سامنے آیا چاہتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).