لاہور میں غریب افراد کو قسطوں پر راشن فراہم کرنے کی دکان چلانے والی خاتون کو اس سروس کا خیال کیسے آیا؟


کھانے پینے کی اشیا
’بھوک بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے چاہتی ہوں کہ کوئی بھی بھوکا نہ سوئے‘، اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے لاہور کی رہائشی شبانہ جمشید نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اپنے گھر میں ایسے افراد کے لیے دکان بنا کھولی جو ایک ساتھ پورے مہینے کا راشن نہیں خرید سکتے ہیں۔ شبانہ انھیں قسطوں پر راشن فراہم کرتی ہیں۔

لاہور کے دو مختلف علاقوں میں فائن لیونگ کے نام سے موجود دکان میں روز مرہ کی ضرورت کی تمام اشیا باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو گرتے ہوئے شبانہ نے اپنے اس بزنس ماڈل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے اس کام کا آغاز کیا تو میرے ساتھ اس آئیڈیا پر مزید کام کرنے کے لیے بیٹھنے والے سرمایہ کار مجھ سے ایک ہی بات کرتے تھے کہ منافع کیسے ہو گا اس کاروبار میں؟ اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی بڑا سرمایہ کار اس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگانے پر راضی نہیں ہوا کیونکہ وہ منافع کی بات کرتے تھے اور میں بھوک کی بات کرتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سبسڈی: غریب کی مدد یا کرسی بچاؤ مہم؟

’روبینہ کی موت کے بعد گاؤں میں راشن آ گیا‘

کورونا وائرس: غریب طبقے کو امدادی رقم کب اور کیسے ملے گی

کھانے پینے کی اشیا

ہم دوپہر میں کھانا کھاتے تھے تو رات کو بھوکے سوتے تھے

’ہم آٹھ بہنیں ہیں اور آٹھ بچوں کا خرچہ اٹھانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔‘ شبانہ نے اپنے گزرے ہوئے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والد ریلوے میں ڈرائیور تھے۔ ان کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ ہمارا گزارا با آسانی ہو پائے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہم اگر دوپہر میں کھانا کھا لیتے تھے تو رات کے کھانے میں ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر ہم بہنیں بھوکی سو جاتی تھیں۔‘

وہ بتاتی ہیں ’میں اپنی بہنوں میں سب سے بڑی ہوں۔ ہمیں سب کو ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے ہم سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ جب باقی بہنیں بھی بڑی ہونے لگیں تو والد نے مجھ سے کہا کہ اب میٹرک کر لیا ہے اس لیے میں مزید پڑھائی کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا ہوں۔ میں جانتی تھی کہ ان کے لیے ہم سب کا خرچہ بہت مشکل تھا۔ کیونکہ آٹھ بچوں کو کھلانا اور پھر پڑھانا دونوں کام ایک ساتھ ممکن نہیں تھے۔‘

کھانے پینے کی اشیا

’مجھ سے جب یہ بات کی گئی تھی تو میری عمر سولہ یا سترہ برس تھی۔ اس دن میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب اپنی ذمہ داری خود پوری کرنی ہے۔ میں ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ہم بہنیں خود ان حالات کو ٹھیک کریں گیں۔ جس کے بعد میں نے سب سے پہلے دوپٹوں پر کڑھائی کرکے انھیں بیچنا شروع کیا تاکہ چند پیسے کما سکوں۔ جب مجھے اس کام سے آمدن آنا شروع ہوئی تو میں آگے پڑھائی شروع کی۔ اس بعد کالج میں داخلہ لیا تو دوپٹوں کے کام کے ساتھ میں چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانی بھی شروع کر دی۔ جس سے آمدنی میں اضافہ ہوا اور ہم بہنوں نے پڑھائی کی اور گھر کے معاملات بھی بہتر ہونے لگے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ یہ سلسلہ رکا نہیں۔ ’کالج مکمل کرنے کے بعد میں نے پرائیوٹ بی اے کیا۔ اس وقت تک میری بہنیں بھی میری ساتھ ٹیوشن پڑھانے میں مدد کرنے لگیں۔ میں ایک قدم اور آگے بڑھی اور مختلف اکیڈمیز میں بھی جا کر پڑھانا شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد میں نے ایک نجی بینک کے سیلز ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کر لی۔‘

’زندگی کے ان لمحوں میں ہم بہنیں اکثر بیٹھ کر گپ شپ کے دوران یہ عہد کیا کرتی تھیں کہ زندگی میں کچھ نہ کچھ تو ایسا کر ہے کہ ہم جیسے سفید پوش لوگوں کی کسی طرح مدد ہو سکے۔‘

قسطوں پر راشن دینے کا خیال کیسے آیا؟

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو ہم دکاندار سے ادھار کر راشن لینے جاتے تھے تو وہ ایک حد تک ہی ادھار پر چیز دیتے تھے۔ کبھی دیتے تھے اور کبھی انکار کر دیتے تھے۔ اس احساس نے ہی مجھے فائن لیونگ کے آئیڈیا تک پہنچایا۔ میں سوچ رکھا تھا کہ زندگی میں جب بھی وسائل ہوئے تو غریب، مزدور، دہاڑی دار، کم آمد والے سفید پوش افراد کو ایسی سہولت دوں گی کہ اگر ان کے پاس کبھی راش خریدنے کے پیسے نہ بھی ہوئے تو انھیں ضرورت کے وقت کسی سے انکار نہ سننا پڑے اور مانگنا پڑے۔‘

جب میری شادی ہوئی تو اس وقت میرے حالات میں کافی بہتری آچکی تھی۔ جس کے بعد میں نے بی ایڈ کیا اور ساتھ ہی اپنے شوہر کی مدد سے قسطوں پر الیکٹرانک مشنری فروخت کرنی شروع کر دی۔ اس سے مجھے کافی تجربہ ملا۔ پھر مجھے لاہور کی ہی ایک نجی یونیورسٹی میں قائم انکوبیشن سنٹر کا علم ہوا۔ جہاں میں نے کم آمدن والے افراد کو قسطوں پر راشن دینے کا آئیڈیا دیا۔‘

شبانہ کا کہنا ہے کہ’مجھے پہلے تو یہ کہا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہو گا۔ اس میں دھوکا ہو سکتا ہے، لوگ چیزیں لے جائیں گے بعد میں پیسے نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت میں اپنے آئیڈیا کا دفاع کیا اور انھیں اس بات پر قائل کیا دھوکا تو کسی بھی کاروبار میں ہو سکتا ہے آپ مجھے موقع تو دیں۔ جس کے بعد انھوں نے مجھے فائن لیونگ سیٹ اپ شروع کرنے میں مدد کی۔‘

قسطوں پر راشن کیسے اور کون لوگ خرید سکتے ہیں؟

کھانے پینے کی اشیا

شبانہ کے مطابق ان کی دکان سے راشن خریدنے کا طریقہ کار انتہائی آسان ہے۔ جس کے تحت کوئی بھی شخص ان سے تین سے چار ہزار تک کا راشن خرید کر لیجا سکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے اسے ہمارے پاس اپنے قومی شناختی کارڈ اور ساتھ میں گھر کے کسی بھی بل کی کاپی لانی ہو گی جس سے ہمیں کم از کم یہ اندازہ ہو جائے کہ وہ کہاں کا رہائشی ہے۔ اگر کوئی شخص کرائے کے گھر میں رہتا ہے تو اس کے لیے ہم مالک مکان کی ضمانت لیتے ہیں۔

یہ عمل مکمل کرنے کے بعد ہمارا نمائندہ ان کے گھر کے ارد گرد لوگوں اور محلے داروں سے اس کے بارے میں معلوم کرتے ہیں، معلومات حاصل کرنے بعد وہ ہمارا کسٹمر بن جاتا ہے اور ہم سے خریداری شروع کر دیتا ہے۔

یہی نہیں انھیں یہ سہولت بھی دیتے ہیں کہ آپ کو جو چیز چاہیے ہے وہ ہمیں بتا دیں تاکہ ہم آپ کے گھر پہنچا دیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ہر شخص کا الگ سے اکاونٹ بنایا جاتا ہے اور جتنے پیسوں کی وہ خریداری کرتا جاتا ہے وہ اس کے اکاونٹ میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔

تاہم مہینے بھر کا راشن ایک ساتھ خریدنے کے لیے خریدار کو ایڈوانس میں کچھ چند سو روپے دینے ہوں گے جس کے بعد وہ مہینے کے اندر اندر جب مرضی باقی کی رقم ادا کر سکتا ہے۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اکثر ایسا ہوتا کہ دہاڑی دار مزدور کو روزانہ کام نہیں ملتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم وہ اور اس کے بچے بھوکے نہ سوئیں۔

آپ اپنی دکان کے خرچے کیسے پورے کرتی ہیں؟

ویسے تو آرام سے خرچے پورے ہو جاتے ہیں لیکن کورونا کے دنوں میں لوگوں کے حالات کافی خراب ہو گئے تھے کیونکہ ہر قسم کا کام بند تھا۔ جس کی وجہ سے ہمارے بیشتر کسٹمر کما نہیں پا رہے تھے۔ اس کے لیے ہم نے اپنی جیب سے پیسے ڈال کر ان کا مشکل وقت گزارنے میں مدد دی۔ اب حالات معمول پر واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

شبانہ نے بتایا کہ وہ سارا سامان تھوک کے حساب سے خریدتی ہیں۔ جس کے لیے وہ منڈیوں کے بجائے سیدھا فیکڑیوں سے سامان خرید لیتی ہیں جس سے مڈل مین اور ریٹیلر کا خرچہ بچتا ہے اور انھیں ہول سیل قیمت پر سامان مل جاتا ہے۔ جس سے وہ اپنے خرچے پورے کرتی ہیں۔

’ہم اپنے خریداروں کو دو قسم کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو خریدار ہم سے فوری پیسے دے کر چیز خریدتا ہے تو ہم انھیں ہول سیل کی قیمت پر دے دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری صورت میں ہم قسطوں پر خریداری کرنے والوں کو مارکیٹ پرائز پر چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ ہم قسطوں پر خریداری کرنے والوں سے کسی قسم کی اضافی قیمت وصول نہیں کرتے۔‘

میری دوکان میں زیادہ تر ملازم خواتین ہیں

کھانے پینے کی اشیا

شبانہ نے اپنے پاس زیادہ تر خواتین ملازم کو ہی رکھا ہوا ہے جو سامان کی پیکنگ کرنے سے لے کر پیسوں اور دیگر معاملات کو سنبھالتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ میرے پاس زیادہ تر ایسی خواتین کام کر رہی ہیں جن کو کوئی نوکری پر باآسانی نہیں رکھتا ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو یا تو بیوہ ہیں یا ان کا کو سہارا نہیں ہے یا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسی خواتین کو اپنے پاس نوکری دینے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنا روزگار کمائیں اور کام کو سیکھ سکیں۔

ان کے مطابق اس وقت بھی ان کے پاس ایک ایسی خواتین کام کرتی ہیں جن میں سے ایک کو اس کے شوہر نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور طلاق دے کر گھر سے نکال دیا۔ جس کے بعد وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہی لیکن کسٹمرز کے ساتھ بات چیت کر کے اب اس کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایک بیوہ اور میتوں کو غسل دینے والی خاتون جس کے گھر کوئی کمانے والا نہیں وہ بھی میرے پاس کام کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp