‎آرزو راجہ سے آرزو فاطمہ تک کی کہانی


تیرہ برس کا سن، تبدیلئ مذہب اور عقد! گزشتہ کچھ دنوں میں اس پہیلی کو اگر حل کرنے کا سوچا جائے تو ایک ہی نام فٹ بیٹھتا ہے، اور وہ ہے آرزو راجہ!

خبر ہے، کراچی سے تعلق رکھنے والی تیرہ سالہ مسیحی بچی آرزو راجہ کو تیرہ اکتوبر کو اغوا کے بعد جبراً مسلمان کیا گیا اور چھیالیس برس کے اظہر علی سے نکاح پڑھوا کے رخصت کر دیا گیا۔ اظہر علی بدقسمت لڑکی آرزو راجہ کے ہمسائے ہوا کرتے تھے۔

اب ماں باپ ہیں کہ سر پہ ہاتھ رکھے آہ وزاری میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، گریہ کرتے ہیں کہ ویران ہوئے جاتے ہیں شہر۔۔۔ مظلوم کی آہ سینے میں گھٹ رہی ہے کہ زمین سخت ہے اور آسمان دور۔ شنوائی ہو بھی تو کیسے، شنوائی کرنے والوں کا ترجمان وہ شخص مقرر ہوا ہے جس کے باپ نے لکھا تھا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

ستم یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا ورد کرنے والوں کے پاس وقت نہیں، ایک غریب مسیحی گھرانے کی دادرسی میں اداروں کا کچھ مفاد نہیں، سو آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا۔

چڑیا سی بچی کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قصور یہ نکلا کہ وہ اقلیتی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ نہیں معلوم ان صاحب کو اس کار خیر کے ذریعے ثواب کی پوٹلی بھاری کر کے جنت کمانا تھی یا اپنی ہوس کی بھوک مذہب کی آڑ میں چھپا کے کھل کھیلنا تھا۔

کیا واقعی ہم اکیسویں صدی کی جدید دنیا میں زندہ ہیں؟ کیا ہم مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟ مسلمان بھی رہنے دیجیے، کیا ہم پر انسان ہونے کی تہمت بھی رکھی جا سکتی ہے۔ بچوں پہ تو جنگلی درندے بھی رحم کھایا کرتے ہیں، سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔

سوچیے تو کیا فرق ہوا ہم میں اور سرحد پار بسنے والے ہندوؤں میں جو آرزو راجہ کی طرح تیرہ برس کی سکینہ کو اٹھائیں، مندر لے جا کے اشنان کروا کے رام پیاری بنائیں اور چھیالیس برس کے نتھو لال کے ساتھ پھیرے لگوا دیے جائیں۔

ہم سب کو یہ خبر سن کے کیسا محسوس ہو گا؟ اگر مغرب میں بسنے والی تیرہ برس کی خدیجہ اٹھائی جائے، چرچ لے جا کے بپتسمہ کروایا جائے، گلے میں کراس پہنا کے مارگریٹ قرار دے دی جائے اور پھر ادھیڑ عمر مائیکل کے ہمراہ رخصت کر دی جائے۔

ویسے یہ سب تو پاکستان میں بھی ممکن ہے کہ کسی بھی زینب یا کسی بھی راشدہ، ماجدہ کو حسب توفیق اور حسب ضرورت جے شری یا روینا بنا کے رام لال یا ڈیوڈ کے حوالے کر دیا جائے اور ماں باپ ہاتھ ملتے رہ جائیں!

دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے، دھچکا لگا نا!

اگر کبھی ایسا ہو جائے تو کون نہیں جانتا اور سمجھتا کہ ایک بپھرا ہوا ہجوم گھیراؤ جلاؤ کرتا ہوا چرچ اور مندر کو مکینوں سمیت صفحہ ہستی سے ہی مٹا ڈالے گا۔

سوال یہ ہے کہ ہمیں غیر مذہب کے افراد کو کو جبراً حلقہ اسلام میں داخل کرنے پہ اتنا اصرار کیوں ہے؟ دین اسلام تو کھلے عام اعلان کر رہا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ پھر ہم مذہب کو کسی کی بھی ذات کا حصہ سمجھنے کے لئے تیار کیوں نہیں؟ کیوں نہیں جان لیتے کہ جیسے کسی مسلمان کو اپنا دین عزیز ہے بالکل ایسے ہی کسی اور کو اپنا مذہب جان سے پیارا ہو سکتا ہے۔ باقی سب دنیا بھی ویسے ہی اتفاق اور جبروقدر کے کھیل میں عیسائی، یہودی اور ہندو ہے جیسے کہ ہم مسلمان۔

اگلا سوال یہ ہے کہ ایک نوعمر، ناسمچھ اور بے شعور لڑکی سے اس کا گھر، والدین اور مذہب چھین لینا اور ایک دوسری زندگی میں جبراً دھکیل دینا کس اخلاق کی رو سے جائز ہے ؟

جذبات کا جوار بھاٹا، ان کہی کو جاننے کا تجسس، مذہب اور قانون کو چیلنج کرنے کی خواہش، معاشرے سے جنگ کرنے کی ضد، لا ابالی پن ، ناپختہ ذہن، خام خیالی، ان سب کا نام ہے تیرہ برس کی آرزو راجہ!

یہ عمر نام ہے بچپن اور لڑکپن کے سنگم پہ بے سمت کھڑے ہونے کا، اپنی پہچان اور شناخت کی الجھن میں سرگرداں ہونے کا، تبدیلیوں کے طوفان سے نبرد آزمائی اور اپنے جسم کی بڑھوتری سے کشمکش کا شکار ہونے کا۔ ایسی بےچارگی میں تبدیلئ مذہب اور عقد کر کے ماں باپ کی گود، گھر کا آنگن اور اپنا الہڑ پن قربان کرنے کا خیال کسی باشعور کا نہیں ہو سکتا۔

چلیے فرض کیجیے کہ کم سن بچی کسی دوراہے پہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کے کچھ مقفل کواڑوں کے عقب جھانکنا چاہتی ہے۔ بہت سے ان کہے سوالوں کے جواب تلاشنا اور مختلف مذاہب کے گورکھ دھندے کے رمز سمجھنے کی خواہاں ہے۔ کسی بھی صورت میں بھی کیا کسی غیر شخص کو یہ حق پہنچتا ہے کہ نوعمر بچی کی نا سمجھی اور الجھاؤ کا فائدہ اٹھائے اور والدین سے برگشتہ کرتے ہوئے تیرہ برس کی بچی کو اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کرے۔

اگلا سوال تیرہ برس کی معصوم بچی اور چھالیس برس کے سن سے اترے ہوئے گرگ باراں دیدہ مرد کا عقد ہے۔ وہ بچی جس پہ ابھی بچپن کے دروازے بند نہیں ہوئے، جسم کی نشوونما مکمل نہیں ہوئی، سمجھ سے باہر ہے کہ وہ ایک ادھیڑ عمر تجربہ کار مرد کی خلوت و جلوت کا بوجھ کیسے سہار سکتی ہے؟ کیا یہ ایسا ہی نہیں کہ کوہ قاف کا دیو ہیکل، گرانڈیل جن کسی ننھی پری کو روندتا ہوا گزر جائے۔

موصوف علی اظہر کو اگر آرزو راجہ سے اتنی ہی ہمدردی تھی تو بیوی بنا کے بستر پہ لانے کی بجائے بیٹی بنا کے بہتر مستقبل کا بھی سوچا جا سکتا تھا۔

ارے ہم بھی کیا الٹا سیدھا سوچ کے کیا واہی تباہی بکتے ہیں صاحب!  پدرسری مزاج، ثواب کمانے کی اندھی دھن، نفسانی خواہشات کا تڑکا کچھ اور سوچنے ہی کہاں دیتا ہے جناب!

جنم دے کے لوری دینے والی ماں اور کندھے پہ بٹھا کے گھمانے والے باپ کا کیا ہے، رو دھو کے ایک دو روز میں خود ہی چپ سادھ لیں گے کیونکہ قانون اندھا ہے اور لڑکی ذات تو ویسے بھی پرائی ہوتی ہے!

چلتے چلتے اگر مزید خون کے گھونٹ بھرنا ہوں تو عدالتی مچلکوں پہ ایک نظر ڈال لیجیے جس میں حکومت پاکستان کے اجرا کرده برتھ سرٹیفکیٹ کا مذاق اڑا کے آرزو کی عمر تیرہ سے اٹھارہ برس کر دی گئی ہے اور آرزو راجہ کو آرزو فاطمہ بنا دیا گیا ہے! آئیے مل کے ماتم کرتے ہیں!

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے

شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).