فرانس میں مسلمانوں کی تاریخ اور قومی شناخت کا تحفظ کرنے والا نظریہ ’لئی ستے‘ کیا ہے؟


Anti-Islamophobia rally in Paris, 27 Oct 20
فرانس میں مسلمانوں نے ’اسلاموفوبیا‘ کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں
فرانس میں اسلام کے حوالے سے عوامی بحث کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن چند روز قبل پیرس میں ایک تاریخ کے استاد کو ہلاک کر دینے والے واقعہ کے بعد فرانس میں اسلام، انتہا پسندی اور مسلمانوں کے معاشرتی انضمام کے بارے میں سوالات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور چند ماہرین کے نزدیک اب مسلمانوں اور باقی دنیا کے مابین ہونے والے اختلافات اور تصادم کا نیا مرکز فرانس ہو گا۔

لیکن ایسا کیوں ہے اور اس کے سدباب کے لیے کیا کرنا ہو گا؟ ان سوالوں کے جوابات کے لیے فرانس کی سامراجی تاریخ، معاشی تفریق اور بالخصوص فرانس کے اہم ترین قومی نظریہ ’لئی ستے‘ (laïcité) یعنی سیکولرازم کی تاریخ اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

فرانس میں مسلمان تارکین وطن کب آئے؟

دیگر یورپی طاقتوں جیسے بیلجیئم، برطانیہ، پرتگال وغیرہ کی طرح فرانس بھی 19ویں اور 20ویں صدی میں ایک بڑی سامراجی طاقت تھا جس نے مشرق وسطیٰ اور بالخصوص مسلمان اکثریتی شمالی افریقی ممالک پر حکمرانی کی تھی۔

ان میں سے زیادہ تر ممالک تو بطور استعمار کے زیر اثر ریاست کے طور پر جانے گئے مگر الجزائر پر سنہ 1830 میں حملے اور سنہ 1848 میں اسے فرانس کی مملکت کا باضابطہ طور پر حصہ بنا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

اردوغان: ترک شہری فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کریں!

کیا مسلمانوں کا فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کام کرے گا؟

فرانس کی حکومت کا ’اسلامی انتہا پسندی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن

اس کے باوجود الجزائر کے شہریوں کو فرانسیسی شہریت بہت مشکلوں سے دی جاتی تھی اور فرانسیسی افواج اور الجزائر کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے مابین سنہ 1830 کے بعد متعدد بار سخت جھڑپیں ہوتی رہی۔

مختلف تاریخی اندازوں کے مطابق اس قبضے کے لیے ہونے والی جنگ میں پانچ سے دس لاکھ الجزائری شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

فرانس کے زیر انتظام ممالک کے شہریوں نے، جن کی واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی، نے پہلی جنگ عظیم سے کافی پہلے ہی فرانس منتقل ہونا شروع کر دیا تھا، تاہم ان کی بڑی تعداد 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں منتقل ہونا شروع ہوئی۔

فرانس

جب الجزائر نے بلآخر سنہ 1962 میں آزادی حاصل کر لی تو ’ہارکیز‘ کے نام سے معروف وہ الجزائری جو فرانس کی جانب سے لڑ رہے تھے، انھیں فرانسیسی حکومت نے پناہ دے دی جن کی تعداد لگ بھگ 90 ہزار بتائی جاتی ہے۔

دوسری جانب فرانس میں مسلمان تارکین وطن میں اضافے کی ایک اور وجہ بنی تھی فرانس کی معاشی ترقی، جس کی وجہ سے حکومت نے سنہ 1960 میں ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعتوں کو دیکھتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے نوکری پیشہ افراد کے لیے دروازے کھول دیے۔

اگلی ایک دہائی تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس معاشی ترقی کی رفتار بتدریج کم ہوئی تو یہ پتہ چلا کہ بڑی تعداد میں مسلمان تارکین وطن کی موجودگی کی بعد فرانسیسی معاشرے کی ساخت اور ہئیت میں تبدیلی کا عنصر آ گیا ہے۔

فرانسیسی معاشرے میں مسلمانوں کا کردار اور ’لئی ستے‘ کا تصور

فرانس کے قوانین کے تحت ملک میں مردم شماری کے دوران لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا اور اس کی مذہب کی بنیاد پر گنتی نہیں کی جاتی۔

تاہم رائے شماری کرنے والی تنظیمیں اور غیر سرکاری ادارے جیسے بروکنگز انسٹٹیوٹ اور پیئو ریسرچ کے مطابق فرانس میں 57 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جن میں سے 30 سے 35 لاکھ افراد الجزائر یا مراکش نژاد شہری ہیں۔

چھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں اس اعتبار سے مسلمان ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔

سنہ 2014 میں ایک غیر سرکاری ادارے سوشل ریسرچ انسٹٹیوٹ نے مختلف یورپی ممالک میں اپنے سروے میں ایک سوال کیا کہ ’آپ کے خیال میں آپ کے ملک میں کتنے مسلمان رہتے ہیں۔‘

اس کے جواب میں فرانس سے جواب دینے والوں نے کہا کہ وہاں 31 فیصد مسلمان رہتے ہیں جبکہ پیئو ریسرچ کے مطابق فرانس میں نو فیصد سے کم مسلمان رہتے ہیں۔

اسی طرح جرمنی میں جواب دینے والوں نے کہا کہ ملک میں 19 فیصد مسلمان رہتے ہیں جبکہ حقیقی تعداد چھ فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن ان حقائق کے باوجود فرانس میں مسلمانوں کو مسلسل تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فرانس کے ایک معتبر تحقیقی اور رائے شماری کے ادارے ’فرنچ انسٹٹیوٹ فار پبلک ریسرچ‘ یعنی آئی ایف او پی نے گذشتہ سال ایک سروے کیا جس کے مطابق فرانس میں رہنے والے 42 فیصد مسلمانوں نے کہا کہ کم از کم زندگی میں ایک بار انھیں مذہبی منافرت کا سامنا کرنا پڑا۔

فرانس

اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ فرانس میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت سے بہت جڑے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ ’لئی ستے‘ یعنی سیکولرازم (فرانس کا اہم ترین نظریہ جس میں مذہب اور سیاست کو علیحدہ رکھا جاتا ہے) سے خود کو جوڑ نہیں پاتے۔

فرانس کا قومی مقولہ ’آزادی، برابری اور اخوت‘ ہے جو کہ انقلاب فرانس کے موقع پر پہلی بار سامنے آیا اور سنہ 1848 کے انقلاب کے موقع پر اسے باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا۔

یہ مقولہ یا ماٹو فرانسیسی سیکولرازم کا اہم جزو تھا اور اسی پر چلتے ہوئے سنہ 1905 میں ملک میں لئی ستے کا تصور ایک نئے قانون کے ذریعے پیش کیا گیا جس کے تحت ریاست کو مذہب سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا۔

لئی ستے کے ذریعے فرانس کی قومی شناخت کے تشخص کا تحفظ کیا جاتا ہے

بروکنگز انسٹٹیوٹ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس قانون کا مقصد تھا کہ ملک میں برابری ہو اور کوئی بھی شخص اپنی مذہبی تشخص کو برقرار رکھے اور اس پر عمل پیرا ہو، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون کو مسلمانوں کے اظہار مذہب کی آزادی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

چار سال قبل امریکی تھنک ٹینک اور جریدے ’فارن پالیسی ان فوکس‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تجزیہ کیا گیا کہ فرانس میں لئی ستے کے تصور کو اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے پیچھے حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے فرانس کی قومی شناخت اور اس کے تشخص، ان کی ماضی میں سامراجی طرز حکمرانی، سفید فام بالادستی اور سب سے بڑھ کر مسیحیت کی شناخت کا دفاع کیا جاتا ہے۔

اس مضمون میں مزید کہا گیا کہ فرانس میں تصور یہ ہے کہ اس قومی شناخت کی ہئیت تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے اور یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ پورے ملک میں مسلمان تارکین وطن پھیل جائیں گے۔

اس حوالے سے سنہ 2015 میں لکھے گئے ایک مضمون میں سٹمسن سینٹر سے منسلک اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر گورڈن ایڈمز لکھتے ہیں کہ ’فرانس نے 50 لاکھ مسلمانوں کو اپنی آبادی میں مکمل طور پر شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں تناؤ کی کیفیت، شدت پسندی اور انتہا پسندی اتنی موجود ہے۔‘

پروفیسر گورڈن ایڈمز نے مزید لکھا کہ فرانس میں مسلمان اب شدید احساس کمتری کا شکار ہیں اور انھیں معاشرے میں عزت نہیں دی جاتی۔

’آج فرانس کے معاشرے میں مسلمان خاندان معاشی طور پر الگ تھلگ کر دیے گئے ہیں۔ حکام اور پیرس کے شمال میں موجود علاقوں میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کے حکام سے مسلسل جھگڑا ہوتا ہے۔ فرانس کے مسلمان اور سیکولر مسیحی آپس میں نہیں ملتے اور جب ملتے ہیں تو بڑا ہنگامہ ہو جاتا ہے۔‘

پروفیسر گورڈن ایڈمز نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے تاکہ ملک میں موجود مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو علیحدہ کرنے سے روکا جا سکے، ورنہ ’یہ مسلمان جن کو عزت نہیں ملتی، وہ کم پڑھے لکھے ہیں، بے روز گار ہیں، تو شدت پسند گروہوں میں ان کو شامل کرنا بہت آسان ہے۔‘

بیلجئیم کی کیتھولک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر بچارا خادر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ فرانس میں ایک نوجوان تارکِ وطن کو سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ فرانسیسی معاشرے میں اس کو برابری نہیں ملتی اور اسے حقیر اور کم درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔

’تین نسلوں سے فرانس میں رہنے کے بعد بھی ایک الجزائری نژاد فرانسیسی شہری، جو نہ اسلام پر یقین رکھتا ہو نہ کبھی الجزائر گیا ہو، اس کو بھی مسلمان الجزائری سمجھا جاتا ہے۔‘

اس حوالے سے نسلی تعصب کے خلاف کام کرنے والے سماجی کارکن پئیر ٹوانین کہتے ہیں: ’آپ کی شناخت برابری کا پیمانہ بن گئی ہے۔ اگر آپ یکساں ہیں تو آپ برابر ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp