محمود خان اچکزئی کا بیانیہ


کہا تو یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومتیں اسٹبلشمنٹ کی منشا کے خلاف بن ہی نہیں سکتی۔ یہاں جو بھی حکومت آتی ہے اس میں اسٹبلشمنٹ کی مرضی ناگزیر ہے۔ اور دوسری طرف اگر کوئی حکومت اسٹبلشمنٹ کھنچے ہوئے دائرہ سے ذرا بھی باہر نکلے تو اس حکومت کا حکومت سے نکل جانا اٹل ہے۔ ان اٹل فیصلوں کے شکار ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو شہید، نواز شریف، ظفراللہ خان جمالی، یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہے ہیں۔

لیکن ان معاملات کی باوجود ملک کی بڑی پارٹیوں سمیت چھوٹی پارٹیوں نے اسٹبلشمنٹ سے اپنے تعلقات کو مصلحتاً بہتر رکھا۔ ان تعلقات کی نوعیت بھی مختلف ہے یہ قومی، صوبائی اور علاقائی سطح پر ہوتے ہیں۔ اگر کہیں پر معاملات بن نہیں پائے تو ملک میں مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ قاف اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسے پارٹیاں یک دم وجود میں آجاتی ہیں اور وہ کم وقت میں کنگز پارٹی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اگر پھر بھی کسر باقی رہے تو دوسروں پارٹیوں کے بندوں کو توڑ دیا جاتا ہے۔ انہیں راتوں رات دوسری پارٹی میں شامل کر کے اسے ٹکٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر ایوان میں حکومت بنانے کے لئے ووٹ کم پڑے پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے طرز پر دھڑے بنا دیے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا باتیں نئی نہیں ہے اور نہ سیاسی جماعتیں ان باتوں سے غافل ہے اور انھیں اس بابت کوئی علم نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں کو اس بات کا علم ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے اور حکومتیں بنتی کہاں ہے۔ اور اس کے ٹوٹنے کی فرمان کہاں سے جاری ہوتے ہیں۔ اب بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خاموش کیوں تھیں؟ یقیناً مصلحت اور ان کی کوتاہیاں ان کی خاموشی کا سبب رہی ہیں۔

لیکن ایک شخص جس نے ہمیشہ ببانگ دہل سادہ زبان میں ان ساری باتوں کی نشاندہی قومی اسمبلی کے فورم، آل پارٹی کانفرنسز، پریس کانفرنس اور جلسوں میں قوم کو کروائی کہ اس ملک میں جمہوریت ہائی جیک ہے۔ آئین پاکستان کی تقدس کی پامالی ہو رہی ہے۔ خارجہ پالیسی اسمبلی بجائے کہی اور بن رہی ہے۔ محکوم قوموں کے حقوق غضب ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی پارٹی کی مشترکہ حکومت ختم کردی گئی تو سادہ منش سیاستدان نے قومی اسمبلی کے فورم پر کھڑے ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے حاضر سروس افسر کا نام لے کر کہا کہ یہ حکومت اسٹبلشمنٹ نے ختم کی۔ اور اس کی ایماء پر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت لائی گئی ہے۔ اور عمل 2018 کے انتخابات چوری کے لئے کیا گیا۔ اور ہوا بھی وہی انتخابات سے تین مہینے قبل بنائی گئی پارٹی برسراقتدار آئی۔

اسی طرح جب 2014 میں ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے ڈی چوک پر امپائر کے انگلی کا انتظار کر رہا تھا تو اس وقت بھی یہی شخص اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بغل میں کھڑے ہو کر یہی کہہ رہا تھا کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر سب کچھ کر رہا ہے۔

مذکورہ سیاستدان محمود خان اچکزئی جس کی چادر کا مذاق عمران خان دھرنوں میں اڑایا کرتا تھا۔ اور آج وہ جلسوں میں کھڑے ہو کر یہی کہتے ہیں کہ ہمارے بدترین دشمن کی بہن ہماری بہن ہے اور ہم کسی کو گالی دینے کے لئے اسٹیج پر نہیں آتے۔ آج ان کی باتیں اور بیانیہ نہ صرف ملک کے ہر شہری کے منہ پر ہے بلکہ ملک کے چھوٹی جماعتیں ان کی بیانیے کو لے کر چل رہی ہیں۔ ان جماعتوں کو خوف سے آزاد کرنے اور حقائق سے روشناس کروانے والا واحد شخص محمود خان اچکزئی ہی ہے، جو کبھی بھی اپنے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹا۔

محمود خان اچکزئی نے وہی کہا جو سچ تھا اور سچ پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، حالانکہ ان پر پر مختلف الزامات لگے، ان کے جلوسوں پر فائرنگ ہوئے، وہ خودساختہ جلاوطن رہے اور ان کی گزرگاہ پر بم نصب کیے گئے۔ گھر پر راکٹ داغے گئے لیکن پھر بھی وہ نہیں جھکے اور کھڑے رہے۔ محمود خان اچکزئی کے استقامت کا پھل آج تمام جمہور پسند لوگ کھا رہے ہیں۔ اور ان کا بیانیہ آج نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری، اختر جان مینگل، مالک بلوچ، ساجد میر، اویس نورانی، اور افتاب شیر پاؤ کا بیانیہ بن چکا ہے۔ اور اسی بیانیے پر آج ملک میں سیاست ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).