اردوغان یا محمد بن سلمان: کیا پاکستان سعودی عرب کو چھوڑ کر ترکی سے قربتیں بڑھا رہا ہے؟


سفارتی حلقوں میں کئی مہینوں سے یہ بازگشت جاری ہے کہ پاکستان کے خارجہ تعلقات میں ایک ’پالیسی شفٹ‘ آیا ہے، اسلام آباد کا جھکاؤ اب ترکی کی جانب ہے اور یہ کہ پاکستان سعودی عرب کے مقابلے میں اب ترکی کو فوقیت دے رہا ہے۔

اس تاثر کو ان خبروں اور ٹرینڈز نے ہوا دی ہے جو گذشتہ کچھ ہفتوں سے سوشل میڈیا کی زینت بنے رہے ہیں۔ ان میں بعض تو جعلی خبروں پر مبنی تھے جن کی تردید کے لیے خود پاکستان کے دفتر خارجہ کو آگے آنا پڑا۔

انہی میں ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے دن یہ خبر تھی کہ سعودی عرب نے پاکستان کی مخالت کی ہے یا ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جب اس ٹرینڈ نے زیادہ زور پکڑا اور بحث و مباحثے کا آغاز ہوا تو دفتر خارجہ کو بیان کے ذریعے وضاحت کرنی پڑی۔

اس کے بعد کشمیر ڈے کے موقعے پر سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس وقت سعودی عرب ٹرینڈ کرنے لگا جب یہ خبر سامنے آئی کہ ریاض میں پاکستان کے سفارتخانے کو کشمیر ڈے کے حوالے سے تقریب کے انعقاد سے منع کیا گیا ہے اور اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ سعودی کرنسی کا معاملہ اٹھ گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ایف اے ٹی ایف: سعودی عرب کے پاکستان کے خلاف ووٹ دینے کی خبروں کی تردید

سعودی عرب کی جانب سے ترکی کے معاشی بائیکاٹ کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں

اقوام متحدہ میں ترک صدر اردوغان کی تقریر پر انڈیا برہم کیوں ہوا؟

سعودی عرب نے گذشتہ روز بیس ریال کا نیا کرنسی نوٹ جاری کیا جس میں ملک کی جی 20 کی صدارت کو نمایاں کیا گیا۔

اسی نوٹ کی دوسری جانب دنیا کا نقشہ چھاپہ گیا ہے جس نقشے میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو انڈیا کا حصہ نہیں دکھایا گیا جس پر پاکستانی خوش تھے۔

مگر جلد ہی کئی انڈین نیوز چینلز اور سوشل میڈیا اکاونٹس نے یہ بتایا کہ نقشے میں ان علاقوں کو پاکستان کا حصہ بھی نہیں دکھایا گیا۔

یہ اقدام دونوں ہی ملکوں میں انڈیا کی کشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملے پر ان کے سرکاری موقف کو ظاہر کرتا ہے۔ اسے انڈین میڈیا پر تو سراہا گیا مگر پاکستان میں اس عمل کو زیادہ گرمجوشی کے ساتھ نہیں لیا گیا۔

ان ممالک کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں، ممکن ہے کہ ترکی یا سعودی عرب کے لیے یہ بہت بڑی بات نہ ہو، مگر خود پاکستان کے لیے یہ تعلقات نہایت اہم ہیں۔

ماضی میں متعدد بار سعودی عرب پاکستان کی معاشی مدد کے لیے آگے بڑھا ہےتاہم ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے بدلے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی ترجیحات میں سعودی عرب کو نہ صرف سرفہرست رکھنا پڑا بلکہ بعض مواقع پر اس خارجہ پالیسی کی ’مائیکرو مینیجمنٹ‘ میں سعودی دخل نظر آنا شروع ہوا جو بظاہر اب پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

تاہم مبصرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں بظاہر سردمہری کی وجہ پاکستان کے ترکی، ایران یا کسی دیگر ملک کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں بلکہ وہ ’ایشوز‘ ہیں جن پر پاکستان کو سعودی حمایت کی توقع تھی۔

بی بی سی نے اس حوالے سے سابق سفیر اور خارجہ أمور کے ماہرین سے بات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش ک کہ آیا انقرہ کی جانب جھکاؤ کوئی منفرد چیز ہے یا خارجہ پالیسی میں ارتقائی پیش رفت ہے۔

سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد کےمطابق پاکستانی عوام پہلے سے ہی سعودی عرب کے بعض فیصلوں کے باعث اس کے خلاف ہے، جیسا کہ کشمیر کے معاملے پر انڈیا کا ساتھ دینا یا پاکستان کے موقف کی اس طرح حمایت نہ کرنا جیسا کہ توقع تھی۔ دوسری جانب وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی حمایت کے اشارے بھی پاکستانی عوام کا سعودی عرب پر اعتماد ختم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

سینیر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کے مطابق کہ ایسا نہیں کہ پاکستان نے ایک جھٹکے کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی لائی ہے بلکہ ملک کی پوری کوشش ہوگی کہ جو بنیادی تعلقات ہیں وہ ہرگز متاثر نہ ہوں۔ اور جہاں تک فوجی تعلقات کی بات ہے تو ان میں فی الوقت کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں آئے گی۔

وہ سمجھتی ہیں کہ ترکی کے ساتھ تعلقات ایک قدرتی انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کا سعودی عرب کے ساتھ کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی تعلق ہونا چاہیے۔

’پاکستان کے ترکی کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات۔۔۔ کی شاید مذہبی، تاریخی، ثقافتی، سیاحتی سمیت اور دیگر کئی وجوہات ہیں، اس لیے یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ان تمام عوامل کی موجودگی میں ترکی کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں۔ یہ کہنا کہ ترکی کے ساتھ مضبوط تعلق کے باعث سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں، غلط ہے۔‘

نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات تبدیل ہو نے کی وجہ کچھ اور ہے۔

’ہر ملک کے مفادات الگ ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کا حق بنتا ہے کہ وہ انڈیا کو یا خطے کے کسی بھی ملک کو ترجیح دے۔ یہی حق پاکستان کا بھی ہے۔‘

ان کے مطابق ’پہلی بار ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن استعمال کرتے ہوئے اپنی معیشت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ ایک سال کی بات نہیں، پاکستان کی گذشتہ کچھ سالوں سے یہ روش ہے۔ اس میں افغانستان میں حالات میں بہتری اور خطے میں مجموعی طور پر تبدیلی اس کا باعث بنی ہے۔‘

اس سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار راشد حسین نے کہا تھا کہ تعلقات میں تبدیلی اچانک نہیں ہوئی بلکہ ’دباؤ گذشتہ کئی برسوں سے بڑھ رہا تھا۔‘

وہ اس دباؤ کی کڑیاں 2002 سے جوڑتے ہیں جب اس وقت کے انڈین وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔

اس وقت ‘اقتصادی سفارت کاری کو استعمال کرتے ہوئے وہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان خصوصی تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘

راشد حسین کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے اس خطے کے معاملات کو پاکستان کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے ایک نئے زاویے سے دیکھنا شروع کر دیا اور یوں سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا ’جن میں پاکستان کے مفادات اور تعلقات کا ذکر تک نہیں تھا۔‘

اس کے بعد گذشتہ برس متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں انڈیا کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو دعوت دی جس کی وجہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی! متحدہ عرب امارات نے انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا شاندار استقبال کیا اور پھر سعودی عرب نے بھی نریندر مودی کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی اور اعلیٰ ترین اعزازات دے کر انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات کو بہت مضبوط بنائے جانے کا برملا اظہار کیا۔

اس کے بعد تعلقات میں کشیدگی کا سبب اسلامی ممالک کی تنظیم یعنی او آئی سی کا رویہ بنا جب پاکستان کے مطالبے کے خلاف تنظیم نے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیا۔

اور یہ کشیدگی اس وقت شدت کے ساتھ منظر عام پر آئی جب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے معاملے پر اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بحث کرنے کے لیے اجلاس نہ بلانے پر سعودی عرب کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسی بیان کے بعد سعودی عرب کی جانب سے اعلان ہوا کہ اس نے پاکستان کو سنہ 2018 میں جو تین ارب ڈالر سے زیادہ قرضہ دیا تھا، پاکستان اُسے مقررہ وقت سے پہلے واپس کرے۔

اس ردعمل کے بعد تلخی اس قدر بڑھی کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب بات چیت کے لیے بھیجا گیا۔

پھر سعودی عرب کے پاکستان میں سابق سفیر ڈاکٹر علی عواض عسیری نے عرب نیوز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ‘پاکستان کے سعودی عرب سے جس طرح کے باہمی محبت، مذہب، ثقافت اور سماجی اقدار پر مبنی تعلقات ہیں ان کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ یہ تعلقات دونوں ممالک میں شخصیات اور حکومتوں کی تبدیلی سے بالاتر ہیں۔‘

تاہم سابق سعودی سفیر نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے اس بیان کو ایک خطرناک تجویز قرار دیا کہ اگر سعودی عرب اسلامی ممالک کی تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کمیٹی کا کشمیر کے لیے اجلاس طلب نہیں کرتا ہے تو پاکستان اس تنظیم کے متوازی ایک اور تنظیم کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔

عسیری نے عرب نیوز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ اگر وزیر خارجہ قریشی کی اس تجویز سے مراد اگر کوالالمپور جیسا ایک اور اجلاس منعقد کرنا ہے تو ‘یہ ایک خطرناک خیال ہے جس کی ایک برادر ملک سے توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔’

سابق سفیر شمشاد احمد سمجھتے ہیں کہ سعودی پالیسیوں کی خود شاہی خاندان کے اندر بھی مخالفت ہے اور پاکستان ان پالیسیوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اور ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔

’ماضی میں جب ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کی حمایت میں قائل کرنے کی کوشش کرتے تو سعودی فرمانروا اس سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ مگر پاکستان ماضی میں بھی سعودی عرب کو خاصی فوقیت دیتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایران کے معاملے پر اس وقت کے صدر ایوب کو ایرانی شاہ نے پوچھا تھا کہ آخر سعودی عرب آپ کو کیا دیتا ہے؟۔ پاکستان وہی کرے گا جو پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔‘

ٹرمپ اور ایم بی ایس

سینئیر صحافی عامر ضیا کے خیال میں سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں صرف سعودی مخالف بیانیہ ہی نہیں سامنے آیا، ’بلکہ ہمارے یہاں ایک تواتر سے لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر بھی غلط یا گمراہ کن مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے مسائل کو بہت بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ’پولرائزڈ (یعنی بٹا ہوا) معاشرہ ہے۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو سعودی عرب کے خلاف جذبات رکھتا ہے اور دوسری جانب وہ طبقہ بھی موجود ہے جو ہمارے پڑوسی اسلامی ملک (یعنی ایران) سے متعلق عناد رکھتے ہیں، یہ طبقات اصل پاکستان کی یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ یہ فرقہ وارانہ عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔‘

عامر ضیا نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ماضی میں بھی ایک یا دو بار تلخی آئی ’مگر یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔‘

عامر ضیا کے مطابق پاکستان کے لیے ترکی اور سعودی عرب دونوں ہی پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں۔

’سفارتکاری کا کمال یہ ہونا چاہییے کہ دونوں ممالک سے اچھے تعلقات ہوں۔ سعودی عرب کے لیے بھی پاکستان سے تعلقات اہم ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو بھی رائی کا پہاڑ بنا دیا جائے کہ کوئی تقریب منعقد نہیں کرنے دی گئی وغیرہ۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو ترک عوام سے اور سعودی عرب، دونوں کے لیے ہی عوام بہت مخلص سوچ رکھتی ہے۔‘

کشمیر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہر ملک اپنے مفادات کی بنیاد پر سفارتی تعلقات میں قربت یا دوری اختیار کرتا ہے، اس معاملے میں پاکستانی عوام کی سوچ حقیقت پسندی کی بجائے جذبات پر مبنی ہے۔

’حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہر ملک اپنے مفاد کو دیکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے کشمیر کا مسئلہ نہایت اہم تھا اور اس پر سعودی عرب کا انڈیا کا ساتھ دینا شاید پاکستان کے لیے ناقابل یقین تھا۔ اور او آئی سی کے معاملے پر کشمیر کی حمایت میں پاکستان حق بجانب بھی تھا۔ اسی لیے اس معاملے میں پاکستانی عوام، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں اس معاملے پر ناراضگی ہے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مائیکرومنیجمنٹ کی جائے۔کیونکہ یہ ہمارے ریاستی مفاد کے خلاف ہے۔

نسیم زہرا کے مطابق تعلقات کی نوعیت بدلنے میں کئی محرکات ہوتے ہیں۔ اس میں سعودی عرب کے اپنے انڈیا کے ساتھ تعلقات، یمن کا معاملہ، اور پھر خود پاکستان سے توقعات، یہ سب بہت سے فیکٹرز ہیں۔

’ماضی میں نوازشریف کبھی سعودی عرب کو ناراض نہیں ہونے دیتے تھے۔ مگر اب عمران خان اور خاص طور پر پاکستان کی مسلح افواج بھی یہ سمجھتی ہیں کہ اب سب اپنے ہی گھر کے بہت قریب آچکا ہے جس میں ایران کی مخالفت ہو یا یمن کی جنگ، پاکستان کو ایک حد مقرر کرنے کی ضرورت تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp