پاکستانی اداکار علی خان اب برطانوی فلم میں نظر آئیں گے


پاکستانی ڈراموں اور فلموں سے شہرت حاصل کرنے والے اداکار علی خان نئی برطانوی فلم 'مغل موگلی' میں اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ یہ فلم 30 اکتوبر کو برطانیہ اور آئرلینڈ کے سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔

‘مغل موگلی’ میں نامور پاکستانی نژاد برطانوی اداکار رضوان عرف ‘رِض’ احمد مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

اِس فلم کی ریلیز سے پہلے بی بی سی نے علی خان سے ملاقات کی اور ‘مغل موگلی’ کے بارے میں گفتگو کے علاوہ پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے بارے میں اُن کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیے

ایک پاکستانی اداکار نیپال میں پنڈت کیسے بنے؟

میں اداکار کے طور پر انڈیا نہیں جانا چاہتا: شان

فلم فیئر ایوارڈز کے لیے چار پاکستانی فنکار نامزد

‘مغل موگلی’ کیا ہے؟

‘مغل موگلی’ کی کہانی ایک پاکستانی نژاد برطانوی ‘ریپر’ کے گِرد گھومتی ہے جو اپنے میوزک کیرئر کے اہم موڑ پر موذی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ علی خان کے مطابق فلم مختلف ثقافتوں کے باہمی تعلقات اور اجتماعی اور انفرادی اختلافات کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

‘یہ ایک براؤن فیملی کی کہانی ہے جو لندن میں رہتی ہے۔ اِس فلم میں دِکھائے جانے والے واقعات تو برطانیہ میں رونما ہوتے ہیں لیکن جس سوچ کی بات کی جا رہی ہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں پائی جا سکتی ہے۔ لہذا یہ کہانی فلم بینوں کو جذباتی سطح پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔’

‘مغل موگلی’ کا سکرپٹ ہدایت کار بصام طارق اور رِض احمد نے مل کر لکھا ہے۔ کراچی میں پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد امریکی بصام طارق ‘مغل موگلی’ سے پہلے کئی مختصر دورانیے کی دستاویزی فلمیں بنا چکے ہیں جنھیں فلمی میلوں میں ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔

علی خان کا کردار

‘مغل موگلی’ میں علی خان فلم کے مرکزی کردار ظہیر عرف ‘زیڈ’ کے باپ کا رول نبھا رہے ہیں۔ بشیر نامی اِس کردار کی طرح علی خان بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان سے باہر گزار چکے ہیں۔ لیکن اِس مماثلت کے علاوہ وہ بشیر کے کردار اور اپنی حقیقی زندگی کے درمیان کوئی تعلق نہیں دیکھتے۔

‘ہم دونوں کی نفسیات بالکل مختلف ہے۔ بشیر کی کُل کائنات لندن کا وہ علاقہ ہے جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اِس کے برعکس میں دنیا گھوم چکا ہوں اور کئی ملکوں میں رہائش اختیار کر چکا ہوں۔ لہذا میرا اور بشیر کا دنیا کو دیکھنے کا نظریہ بالکل الگ ہے۔’

علی خان مطمئن ہیں کہ اب ‘مغل موگلی’ جیسی بین الاقوامی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو بھی کاسٹ کیا جا رہا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ ایک بہت مثبت تبدیلی ہے۔

‘میں رِض کا فین ہوں’

فلم کا مرکزی کردار نبھانے والے پاکستانی نژاد برطانوی اداکار رِض احمد اِس سے پہلے ‘فور لائنز’، ‘دی روڈ ٹو گوانتانامو’ اور ‘نائٹ کرالر’ جیسی کامیاب فلموں میں اداکاری کر چکے ہیں۔ پاکستانی ناول نگار محسن حامد کے ناول ‘دی ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ’ پر مبنی ہدایت کار میرا نائر کی فلم میں بھی رِض مرکزی کردار میں نظر آئے تھے۔

علی خان کے مطابق ‘مغل موگلی’ کسی حد تک رِض کی زندگی پر مبنی ہے۔ ‘زیڈ’ کا کردار ایک ‘ریپر’ ہے اور حقیقی زندگی میں رِض احمد بھی ایک ‘ریپر’ ہیں۔

‘میں بہت عرصے سے رِض کا فین ہوں۔ ہم اکثر بین الاقوامی فلموں کے آڈیشنز میں ملا کرتے تھے۔ اِس فلم سے پہلے مجھے اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع تو نہیں ملا تھا لیکن میں اُن کا کام دیکھتا رہتا تھا۔’

رِض احمد کے ساتھ کام کرنے کے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے علی خان نے بتایا کہ رِض کا اداکاری کا انداز بالکل منفرد ہے۔

‘میں ایک تربیت یافتہ اداکار ہوں اور ہماری بنیادی تربیت تھیٹر کے ذریعے ہوئی ہے جس میں ریہرسلز بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن رضِ احمد حقیقی اور بے ساختہ اداکاری پر یقین رکھتے ہیں جو مجھے اِس فلم میں سکیھنے اور کرنے کا موقع ملا۔’

علی

برلن میں ایوارڈ

سنیما گھروں میں ریلیز سے پہلے 'مغل موگلی' کئی فلم فیسٹولز میں دکھائی جا چکی ہے۔ اِس سال فروری میں اِسے برلن فلم فیسٹول میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ علی خان کے بقول فلم بین اور نقاد دونوں فلم کو پسند کر رہے ہیں۔

‘برلن میں ہمیں بہت اچھا رسپانس ملا۔ فلم کو ‘کرٹکس ایوارڈ’ بھی دیا گیا۔ حال ہی میں یہ فلم لندن میں بھی دکھائی گئی جہاں اِسے سراہا گیا۔

‘اب تک جو فیڈبیک آیا ہے اُس کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اِس فلم سے رشتہ جوڑ پا رہے ہیں کیونکہ یہ فلم اُن کی کہانی سُناتی ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ فلم کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی ریلیز کیا جائے۔’

پاکستانی سنیما

دوسری جانب علی خان پاکستانی فلموں کے مستقبل سے کوئی خاص پُرامید نظر نہیں آتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مقامی فلموں میں جس طرح کی سرمایہ کاری ہونی چاہیے تھی یا جس طرح کی فلمیں بنیں چاہئیں تھیں وہ کام نہیں ہو سکا۔

‘ایک درجن یا دو درجن فلموں سے تو انڈسٹری نہیں چل سکتی۔ ہماری فلم انڈسٹری ہمیشہ سے انڈین فلموں پر انحصار کرتی رہی ہے اور آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔ بالی وڈ فلموں سے ہی فلم بین سنیما آئیں گے۔’

علی خان کے مطابق اصل مسئلہ فلم بینوں کو سنیما گھروں میں لانے کا ہے۔

‘چونکہ ہمارے یہاں بڑی تعداد میں مقامی فلمیں نہیں بن رہی ہیں اِس لیے شائقین کو سنیما جانے کی عادت نہیں پڑ رہی۔ ایسے سٹارز نہیں بن پا رہے جن کے لاکھوں کروڑوں فین ہوں کیونکہ موجودہ سٹارز روز مفت میں ٹی وی پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

‘اور قصور سٹارز کا بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی اداکار صرف فلم کر کے اپنا گھر نہیں چلا سکتا لہذا مجبوراً اُسے ٹی وی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔’

ڈرامے سے شکایت

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اداکار علی خان پاکستانی ڈراموں کے معیار سے بھی غیر مطمئن نظر آئے۔ اُن کے نزدیک چھوٹی سکرین بھی بھیڑ چال کا شکار ہے۔

‘اگر ایک انداز کا ڈرامہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر ہر کوئی اُس کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ اُس آئیڈیا کو جتنا نچوڑا جاسکتا ہے لوگ نچوڑتے ہیں۔ ٹی وی چینلز، سرمایہ کار اور سپانسرز کوئی کچھ نیا کرنا ہی نہیں چاہتا۔’

علی خان کے بقول اگر کسی اداکار کو کوئی نامچین رائٹر یا ہدایت کار ساتھ کام کرنے کا موقع دیتا ہے تو وہ ایکٹر خود کو خوش قسمت تصّور کرتا ہے۔

‘اِس کے علاوہ جو روایتی ڈراموں کا محدود سکوپ ہے اُس میں کچھ بہت نیا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ بس ہر کوئی اپنی روزی روٹی کمانے میں لگا ہوا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp