800: سری لنکن کرکٹر مرلی دھرن کی زندگی پر بننے والی فلم تنازعات میں کیوں گِھر گئی ہے؟


800 Movie poster
سرلی لنکا کے سابق آف سپنر متھیا مرلی دھرن کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی پر مبنی فلم تنازعات اور تنقید کے باوجود ضرور بنائی جائے گی۔ بی بی سی کی نالینی سواتھاسن نے اس بارے میں مرلی دھرن سے گفتگو کی۔

مرلی دھرن کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کے خلاف جنوبی انڈیا میں کافی سخت رد عمل سامنے آیا ہے اور فلم کا مرکزی کردار کو ادا کرنے والے فنکار کو یہ فلم چھوڑنی پڑی ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مرلی دھرن کا کہنا تھا کہ انھوں نے زندگی میں بہت تنازعات کا سامنا کیا ہے۔ ‘میں اتنے تنازعات میں گھرا رہا ہوں، صرف کرکٹ کے حوالے سے نہیں۔ لیکن میں نے ان تمام مشکلات کو عبور کر لیا۔’

سری لنکا کی تمل اقلیت سے تعلق رکھنے والے مرلی دھرن نے نوے کی دہائی میں حیران کن طور پر قومی ٹیم میں اس وقت شمولیت حاصل کر لی جب ملک میں تمل قوم پرست اور سنہالی اکثریت کے درمیان خانہ جنگی جاری تھی۔

اس کے بعد مرلی دھرن کو اپنے کرئیر میں اپنی بولنگ کے ایکشن کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اس دوران انھیں آسٹریلیا میں ‘چکنگ’ کرنے کی وجہ سے ان کی گیندوں کو نو بال قرار دیا گیا تھا۔ لیکن ان رکاوٹوں کے باوجود وہ دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین بولرز میں سے ایک بن گئے اور ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں میں سب سے زیادہ وکٹوں کا ریکارڈ بھی ان ہی کے پاس ہے۔

لیکن اب انہیں اپنے زندگی کے حوالے سے بننے والی فلم کی تکمیل میں چیلنجز کا سامنا ہے اور ممکنہ طور پر یہ ان کے کرئیر کا سب سے بڑا چیلنج ہو۔

مرلی دھرن پر بننے والی اس فلم کا نام 800 ہے جو ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں وکٹوں کی تعداد بھی ہے۔

فلم کی شوٹنگ ابھی شروع نہیں ہوئی ہے لیکن جب اس کا تشہیری پوسٹر جاری کیا گیا تو اس میں جنوبی انڈیا کی تمل فلم انڈسٹری کے معروف اداکار وجے سیتھوپتھی کو بطور مرلی دھرن پیش کیا گیا جس کے بعد شائقین کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

فوراً ہی تمل ناڈو میں وجے سیتھوپتھی کے خلاف ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس کردار کو ادا کرنے سے معذرت کر لیں۔

فلم کے پروڈیوسرز نے کہا کہ یہ فلم صرف مرلی دھرن کے کرکٹ کرئیر پر مبنی ہے اور اس کا مقصد ہے کہ نئی نسل کو مرلی دھرن سے روشناس کرائیں تاکہ وہ ان کو متاثر کر سکیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس فلم میں صرف اور صرف مرلی دھرن کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں گے حالانکہ وہ اب ایک متنازع شخص بن چکے ہیں۔

یہ سلسلہ شروع ہوا تھا جب گذشتہ سال مرلی دھرن نے سری لنکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران کہا کہ انھوں نے 2009 میں خانہ جنگی کے خاتمے پر خوشی منائی تھی اور وہ گوتابیا راجا پکشے کی صدارت کی تائید کرتے ہیں۔

سنہ 2009 میں راجا پکشے ملک کے سیکریٹری دفاع تھے اور گو کہ حکومت نے تمل ٹائیگرز کو سخت جنگ کے بعد کچل دیا تھا لیکن اس دوران کئی ہزار شہریوں کی بھی اموات ہوئی تھیں۔

مرلی دھرن نے گذشتہ سال کہا کہ جنگ کا خاتمہ ‘میری زندگی کا سب سے خوشی کا دن ہے’ اور یہ کہ اب سری لنکا ‘بغیر ڈر و خوف کے آگے بڑھ سکتا ہے۔’

کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے آخری مراحل میں 40 ہزار سے زیادہ تمل شہریوں کی موت ہوئی تھی اور انڈین ریاست تمل ناڈو میں یہ ایک بہت سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے کیونکہ وہاں کے شہریوں اور سری لنکا میں ہلاک ہونے والوں کی نسلی شناخت اور زبان ایک ہے۔

انڈیا کے شہر چنائی میں ایک نوجوان سماجی کارکن پربھا نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘مرلی دھرن خود ایک تمل ہیں لیکن وہ ان کی طرح رویہ نہیں رکھتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ تمل ناڈو آئیں، نہ فلم کی شکل میں نہ بذات خود۔ انھوں نے خانہ جنگی کے دوران بہت غلط کام کیے اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ تمل برادری کے لیے ہیرو کی طرح پیش کیے جائیں۔’

لیکن مرلی دھرن کا کہنا تھا کہ ان کے الفاظ کو ہمیشہ توڑ موڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور سیاق و سباق سے ہٹا کر لیا جاتا ہے۔

‘میرے کہنے کا مطلب تھا کہ 2009 میں ہمارے ملک میں امن آیا۔ میرے نزدیک جنگ کا خاتمہ میری زندگی کا سب سے اچھا دن ہے کیونکہ اس دن امن آیا تھا، اس لیے نہیں کہ تمل شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔’

دبئی میں انڈین پریمئیر لیگ کے سلسلے میں مرلی دھرن اس وقت متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں موجود ہیں جہاں وہ سن رائزرز حیدر آباد کے سپن بولنگ کوچ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘میں جنگ میں کسی کی طرفداری نہیں کرتا، چاہے وہ کوئی بھی فریق ہو۔ میں درمیان میں تھا، اور انڈیا میں رہنے والوں کو نہیں پتا کہ سری لنکا میں کیا ہو رہا ہے۔’

مرلی دھرن کے انڈیا اور تمل ناڈو سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ ان کی اہلیہ کا تعلق بھی وہیں سے ہے اور انھوں نے آئی پی ایل کی سب سے کامیاب ٹیٹ چنائی سپر کنگز کے ساتھ 2008 سے 2010 تک کرکٹ کھیلی ہے اور وہ ٹیم کے سب سے مقبول کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلم اتنی متنازع کیوں ہے؟

اس بارے میں پربھا کہتے ہیں کہ 2010 میں تمل ناڈو کے عوام کو سمجھ آ گئی تھی کہ سری لنکا میں تمل برادری کے ساتھ کیا ہوا ہے، لیکن انھوں نے مرلی دھرن کو اس سے منسلک نہیں کیا۔

‘ہم نے پھر ایک مہم چلائی جس میں یہ دکھایا کہ کس طرح مرلی دھرن نے سری لنکن ریاست کی حمایت کی اور اس طرح 2013 تک ہم اسے اور دیگر سری لنکن کھلاڑیوں کی یہاں آنے پر پابندی لگانے کے قابل ہو گئے۔

سنہ 2013 میں تمل ناڈو حکومت نے ریاست میں آئی پی ایل کے ان تمام میچز منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی جس میں کھیلے جانے والی ٹیموں میں سری لنکن کھلاڑی شامل ہوں اور اس کی وجہ انھوں نے بتائی تھی کہ یہ قدم سری لنکا میں مبینہ طور پر تمل برادری کے ساتھ ناروا سلوک رکھے جانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے لیا گیا ہے۔

دوسری جانب چنائی سے ہی تعلق رکھنے والی صحافی کویتا مرلی دھرن کہتی ہیں کہ کرکٹر کی زندگی پر بننے والی فلم کے تنازع کی ایک اور وجہ اس کے مرکزی کردار ادا کرنے والے ایکٹر وجے سیتھوپتھی ہیں۔

‘وجے سیتھوپتھی ایک روشن خیال اداکار ہیں اور وہ مختلف سماجی موضوعات پر بات کرتے رہتے ہیں، تو اس لحاظ سے کئی لوگوں کو اچھا نہیں لگا کہ وہ اس فلم میں مرلی دھرن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔’

کویتھا کا کہنا ہے کہ تمل ناڈو میں عوام کو سنیما میں بہت دلچسپی ہے اور یہاں پر سنیما صرف فلموں کے لیے نہیں ہے، سیاست بھی اسی سے منسلک ہے۔’

تمل قوم پرستی تمل فلم انڈسٹری میں بہت ملی ہوئی ہے جسے کولی وڈ کہا جاتا ہے۔ ماضی میں ریاست کے کئی وزرائے اعلی اداکاری کرتے رہے ہیں اور وجے سیتھوپتھی پر فلم چھوڑنے کا دباؤ فلم صنعت کے ساتھیوں اور سیاست دانوں دونوں کی طرف سے آیا۔

لیکن فلم چھوڑنے کا فیصلہ انھوں نے اس وقت کیا جب مرلی دھرن نے ان سے خود درخواست کی۔

‘میری وجہ سے وجے سیتھوپتھی کو کیوں مشکل ہو؟ اس پر کیوں دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ میری جنگ ہے، اور میں ہی اس کا سامنا کروں گا۔’

ادھر سری لنکا میں اس فلم کے حوالے سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے جہاں مرلی دھرن کو ایک قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔

کرکٹ پر لکھنے اور مرلی دھرن کے کرئیر پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اینڈریو فیڈل فرنانڈو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں بہت خوش ہوں گا اگر مرلی دھرن پر فلم بنائی جائے، لیکن ایسی فلم جس میں صرف ان کی اچھائیاں اور تعریفیں ہی نہیں، بلکہ مرلی دھرن کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔ ابھی سے ہونے والی تنقید کی مجھے سمجھ نہیں کیونکہ ابھی تو کسی نے فلم بھی نہیں دیکھی ہے۔’

لیکن وہ افراد جن کے گھر والے خانہ جنگی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے، انھوں نے اس فلم پر تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یہ فلم سرے سے بنے ہی نہیں۔

ان میں سے ایک گوپالا کرشنن راج کمار نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘کیونکہ وہ تمل ہیں تو مشہور ہیں، لیکن انھوں نے تمل لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔’

یہ فلم 2021 میں بننا شروع ہونی تھی لیکن اب اس کا کوئی مرکزی اداکار ہی نہیں ہے یہ علم نہیں کہ فلم کب شروع ہو گی۔

مرلی دھرن خود اس فلم کے بارے میں کافی پر امید ہیں۔

‘یہ فلم ضرور بنے گی، یہ صرف تمل ناڈو کے لیے نہیں ہے۔ اس میں پروڈیوسرز ممبئی سے ہیں، اور وہ اس فلم کو بہت سی زبانوں میں چاہتے ہیں۔ تمل میں، سنہالا میں، ہندی میں، بنگالی میں، تلیگو میں، ملیالم میں، اور انگریزی ترجمے کے ساتھ بھی۔ یہ تو کھیلوں کی فلم ہے، یہ متنازع کیسے ہو سکتی ہے؟’

لیکن اس فلم پر اٹھنے والی تنقید کو دیکھیں تو لگتا نہیں ہے کہ کرکٹ کے اتنے بڑے ہیرو اس فلم سے اپنی سیاست کو دور رکھ پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp