ہالووین۔ ایک ڈراؤنا تہوار


ہر سال اکتوبر کی اکتیس تاریخ کو ہالووین کا تہوار منایا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے گلی کوچوں سے نکلتا یہ تہوار اب دنیا کے بیشتر خطوں میں منایا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں رہنے والے کمزور دل حضرات آج کے دن دو باتوں کا بہت خیال رکھتے ہیں ایک تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس دن گھر سے باہر قدم نہ رکھیں اور دوسرا یہ کہ اگر اس دن ان کے دروازے پہ دستک ہوتی ہے تو وہ دروازہ خود کھولنے کی بجائے گھر کے کسی کونے میں ہی دبکے رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ڈر کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ آج باہر قدم رکھتے ہیں تو گلی کے کسی کونے سے کوئی چڑیل ان کے سامنے آ سکتی ہے یا راہ چلتے کوئی جن ان پر حملہ آور ہو سکتا ہے یا راستے میں نظر آنے والا کوئی بھوت ان کی دوڑیں لگوا سکتا ہے اور اگر بے دھیانی میں وہ کسی ایسے گھر کے سامنے سے گزر رہے ہیں جس کے باہر ایک خوفناک ڈھانچہ کھڑا ہے تو ان کے قریب آتے ہی اس ڈھانچے سے نکلنے والا ایک خوفناک قہقہہ ان کے اوسان خطا کر دینے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آج کے دن یہی ساری مافوق الفطرت مخلوقات ان کے گھر کے دروازے پر خود چل کر بھی آ سکتی ہیں۔ اسی لیے اس تہوار کو ایک ڈراونا اور بھیانک تہوار بھی کہہ سکتے ہیں۔

”ہولی ایوننگ“ یعنی ”پاک شام“ سے شروع ہوتا یہ لفظ آج ہالووین کہلاتا ہے۔ آئیے اس تہوار کی کچھ تاریخ پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر چہ اس بابت کوئی حتمی بات تو ثابت نہیں ہو سکی لیکن تاریخ دانوں کا غالب گمان یہی ہے کہ اس کی ابتدا قدیم برطانیہ اور آئرلینڈ کے خطے سے ہوئی۔ تقریباً بارہ سو قبل مسیح میں موجود ان سفید فام قبیلوں کو Celtics کہا جاتا تھا۔ ان قبائل کے ہاں نیا سال یکم نومبر کو شروع ہوتا تھا اور نئے سال کے آغاز میں وہ Samhain (جس کا تلفظ sow.in ہے ) نامی تہوار مناتے تھے۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہو جاتی تھی اور نومبر سے تاریک اور سرد راتوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ جاڑے کے موسم کو یہ قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوا کرتی تھیں۔

ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ نئے سال کے پہلی رات یعنی اکتیس اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان سرحد نرم پڑ جاتی ہے اور یوں روحیں اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق روحوں کی اس واپسی کے سفر کے دوران جن بھوت اور چڑیلیں بھی روحوں کی شکل دھارے آ سکتی تھیں۔ اس لیے ان بدروحوں کو بھگانے کے لیے یہ لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں اور اپنے گھروں میں آگ کے الاؤ روشن کرتے تھے، جانوروں کی کھالیں پہنتے تھے اور اپنے سروں کو جانوروں کی سینگوں سے سجاتے تھے۔

ساتویں صدی میں جب کیلٹک قبائل رومن ایمپائر کا حصہ بن چکے تھے تو اس وقت کے پوپ نے یکم نومبر کو All Saints Day منانے کا اعلان کیا جو کہ عیسائی شہدا کی یاد میں منایا جاتا تھا۔ یکم نومبر سے پہلے آنے والی شام کو Holy Eve یا Hallowed Eve کہا گیا جو بعد میں Halloween بن گئی۔ بہت بعد میں جب برطانیہ میں اصطلاحات کا دور شروع ہوا تو عیسائیت نے اپنے آپ کو اس تہوار سے الگ کر لیا اور یوں یہ ایک غیر مذہبی تہوار بن گیا۔ انیسویں صدی میں جب آئرلینڈ کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ ہجرت کر گئی تو یہ لوگ اپنے ساتھ یہ تہوار بھی امریکہ لے گئے اور آج یہ امریکہ کا ایک بڑا تہوار بن چکا ہے۔

اوائل میں اس تہوار کی ایک رسم دوسروں کے گھروں میں جانا اور ان سے کھانا یا پیسے مانگنا ہوتا تھا لیکن اب اس کی جگہ Trick or Treat نے لے لی ہے۔ اکتیس اکتوبر کو جب شام کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس لڑکے اور لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں گھر گھر جا کر دستک دیتے ہیں اور Trick or Treat کی صدائیں بلند کرتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو ورنہ ہماری طرف سے کسی میٹھی سی شرارت کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ایسی صورت میں گھر کے مکین ان کی چاکلیٹ وغیرہ سے تواضع کر کے انھیں رخصت کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس تہوار کا کدو pumpkin سے کیا تعلق ہے۔ اس تعلق کے پیچھے بھی ایک آئرش روایت یا کہانی موجود ہے مختصراً آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ بھی بد روحوں کو بھگانے کا ایک طریقہ تھا۔ کدو کو اندر سے خالی کیا جاتا ہے اور پھر اس پر مختلف طرح کے ڈراونے اور بھیانک فیس کٹ بنائے جاتے ہیں اور پھر اس کے اندر ایک موم بتی روشن کی جاتی ہے۔ اور پھر ان کدوؤں کو اپنے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کے باہر رکھ دیا جاتا ہے۔

آج کے دور میں یہ تہوار ایک انٹرٹینمنٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے اب بچوں اور بڑوں کی ہالووین پارٹیاں ہوتی ہیں جن میں کھیل کود اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ڈراونے کاسٹیوم پہنے جاتے ہیں۔ کئی جگہوں پر مقابلے بازی ہوتی ہے جس میں سب سے خوفناک گیٹ اپ کرنے والے کو انعام دیا جاتا ہے۔ اس رات خاص طور پر ہارر فلمیں دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر فلمیں اور ٹی وی شوز بنائے جاتے ہیں۔ لکھاری اس موقع کی مناسبت سے کتابیں لکھتے ہیں جن میں ڈراؤنی کہانیاں شامل ہوتی ہیں اور ان کتابوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ ہالووین کا یہ تہوار اب صرف ایک ثقافتی تہوار نہیں رہا بلکہ اربوں ڈالرز کا ایک کمرشل تہوار بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).