”عزت بچا کے خاموشی سے نکل آتیں“


پبلک مقامات پر ہراساں کیا جانا ہمارے ہاں عیب میں شمار نہیں ہوتا۔ تو کیا ہوا وہ تم پہ جملے کس رہے تھے۔ وہ تو بھونکتے ہیں بھونکنے دو۔ خاموش رہو۔ خاموش رہو!
”کوئی بات نہیں، بھونکنا ان کی عادت ہے تم عزت بچا کے خاموشی سے نکل آتی“

زندگی کی پچیس بہاریں خاموش رہ کے گزاریں اور یقین مانیں جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا تو کئی روز آنکھیں نیند سے عاری ہو کر اپنے وجود میں عیب تلاش کرنے لگتیں۔ یونیورسٹی جاتے ہوئے لوکل وین پہ ٹریول کرتے ہوئے چار سال ہو گئے۔

بہت سے لوگوں نے تکریم بھی دی۔ ”اوئے لیڈیز سواری نال کوئی ہور نہ بھائیں۔ سیٹ خالی لئی چل“ ایسے الفاظ بھی سننے کو ملے۔ ایم فل کے دوران رات بارہ بجے تک سفر کیا تین سو کلو میٹر تک کا سفر مگر ان سب نے تو میرا خیال رکھا۔ تو دل سے دعائیں بھی دیں ان سب کو۔

تو یہ لوگ کون ہیں جو آئے دن نمایاں ہوتے گئے جن کی وجہ سے شاید والدین اپنی بچیوں کو اکیلے سفر کرنے سے روکتے ہیں۔

آج کی روداد سنیے۔ لوکل وین پر یونیورسٹی کی طرف گامزن تھے کہ ایک جگہ ٹریفک جام کی وجہ سے گاڑیاں رک گئیں۔ ایک رکشے والے موصوف بھی اپنی موجودگی کا احساس اپنے بیہودہ جملوں سے دلانے لگے۔ کچھ دیر اگنور کیا کہ بی بی تم اتنی بھی خوبصورت نہیں کہ ہر کوئی تمہاری تعریف کرے، مگر یہ سلسلہ دس سے پندرہ منٹ جاری رہا۔ گرد و پیش میں نظر دوڑائی کہ کہیں فون پہ اپنی جانو سے بات نہ کر رہا ہو، یا کسی سواری سے یا کنڈکٹر سے، مگر آخر احساس ہوا کہ ہم پہ ہی جملے کسے جا رہے ہیں۔ ایک دم سے وہ تمام واقعات نظر کے سامنے گھوم گئے جو اتنے سالوں میں پیش آئے تھے اور ان کے بعد محسوس ہونے والے کرب کی یاد تازہ ہوئی تو میں نے رکشے والے کے اس تسلسل کو توڑنا چاہا اور اندر سے پنجابی باہر آ گیا اور وہی کچھ کہا جو اس وقت ہر لڑکی کے ذہن میں چل رہا ہوگا۔

بہرحال اس سب سے بھی کوئی افاقہ نہ ہوا تو مجبوراً وین سے اتر کر جو چیز میرے ہاتھ میں تھی سب سے وزنی اسے دے ماری اور وہ بھی چار پانچ بار۔ نہیں سوچا کہ وہ جسمانی لحاظ سے مجھ سے زیادہ طاقتور ہے۔ خیر کنڈکٹر اور ڈرائیور حضرات بیچ بچاؤ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شاید یہ رویہ ان تمام سالوں کی رزسٹنس کی صورت میں میرے اندر ہی کہیں موجود تھا جو اس واقعے کے ذریعے ایک دم باہر آ گیا۔

تو بس میری تمام خواتین سے گزارش ہے کہ خاموشی کو مت اپنائیں ایسا کوئی بھی واقعہ ہو تو جتنی اونچی آواز سے چیخ سکتی ہیں چیخیں۔ لڑ جائیں بھڑ جائیں۔

بس خاموش نہ رہیں۔ کیونکہ یہ خاموشی زہر قاتل کی صورت رگوں میں دوڑتی رہتی ہے اور ہمیں کمزور سے کمزور تر بنا کر اس درجے پہ لے آتی ہے، جس پہ اب ہمارا معاشرہ مجموعی طور پہ موجود ہے۔
”کوئی بات نہیں، بھونکنا ان کی عادت ہے تم عزت بچا کے خاموشی سے نکل آتی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).