حضور ﷺکی سیاسی بصیرت اور معاہدے


سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، بادشاہت کرنے کا طریقہ۔ نگہبانی، تنبیہ کرنا، دبدبہ، رعب اور لوگوں کو قصور و جرم کی سزا دینا۔

اسلام میں سیاست اس کام کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگوں کی اصلاح ہو اور فساد کا خاتمہ ہو۔

حضورﷺ کی سیاسی زندگی کے مطالعہ میں نزول وحی سے پہلے کے چالیس سال سب سے اہم ہیں۔ ان سالوں کے بارے میں سیرت کی کتابوں میں چند صفحات ہی ملتے ہیں اور ان میں بھی حضور ﷺکی جوانی، روزگار، میل ملاپ اور تعلقات کا ذکر انتہائی کم ہے۔ ان کا اعلیٰ سیاسی تدبر کعبہ کی تعمیر کے وقت ہجر اسود کو اٹھا کر کعبہ کی دیوار میں لگانے پر اٹھنے والے تنازع کے حل میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ حلف الفضول میں بھی ان کی شمولیت اعلیٰ سیاسی بصیرت کو ظاہر کرتی ہے۔ جاہلیت کے دور میں ہونے والے اس معاہدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے ”اگر اس معاہدہ کی رو سے اسلام میں بھی کوئی دعویٰ ہو تو میں اس کو ضرور قبول کروں گا۔“

امیر معاویہؓ کے دور میں حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کا مدینہ کے حاکم ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے ساتھ کوئی مالی تنازع تھا۔ حضرت حسین ؑنے فرمایا کہ میرے ساتھ انصاف نہ ہوا تو میں حلف الفضول کی رو سے مسجد نبوی میں کھڑا ہو کر امداد طلب کروں گا۔ یہ سنتے ہی عبداللہ بن زبیر نے اپنی تلوار ان کی حمایت میں نکالنے کا وعدہ کر لیا۔ یہ خبر مسور بن مخزمہ اور عبدالرحمان بن عثمان ابن عبیداللہ (رضوان اللہ اجمٰعین) کو ملی تو انہوں نے بھی اسی حلف کی پاسداری کرتے ہوئے حسینؑ ابن علیؑ کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ جب ولید کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں انصاف کیا۔

یہ معاہدہ عبدالمالک بن مروان کے دور تک جاری رہا۔ ابن زبیر کا قتل اس حلف کی خلاف ورزی تھا۔ (عبدالمالک نے اقرار کیا کہ اس وجہ سے قصہ حلف الفضول ختم ہو گیا ہے۔ )

حضور نے ان سالوں میں دور دراز کے علاقوں کی طرف بہت سے سفر کیے ہوں گے لیکن ان تجارتی سفروں کا ذکر ایک دو واقعات، اخلاقیات اور صدق و امین کے ذکر تک ہی محدود ہے۔ سفروں کے دوران ان کو بہت کچھ دیکھنے کو ملا ہو گا۔ اس علاقے میں پنپنے والے دو مذاہب، یہودیت اور مسیحیت کا ظہور یروشلم میں ہوا تھا۔ اس وقت قسطنطنیہ (استنبول ) میں رومی سلطنت عروج پر تھی جس کا سرکاری مذہب مسیحیت تھا اور فارس میں زرتشت مذہب کا بول بالا تھا۔ فارس کی ساتھ عربوں کی ہمیشہ سے دشمنی رہی تھی اس لئے ان پر اس مذہب کے اثرات بالکل دکھائی نہیں دیتے۔

حجاز قسطنطنیہ کے زیر انتظام علاقوں میں شامل تھا۔ اگرچہ یہودیوں اور نصرانیوں کے خدائے واحد کی گونج ادھر موجود تھی اس کے باوجود وہاں حکومت اور سرکاری مذہب کا اثر و رسوخ تقریباً صفر تھا۔ ویسے بھی عرب حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی وجہ سے اسی ایک خدا کی صفات کو ماننے والے تھے۔ اہل حجاز کے قبائلی مزاج کو بدلنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کو طرح طرح کے خداؤں کی پوجا سے نکال کر خدائے واحد کی طرف راغب کر کے ایک لڑی میں پرو دیا جائے۔

اس ایک خدا کا نعرہ قبائل کے سربراہوں کو قبول نہیں تھا کیونکہ ان کی ساری سیاست اور معیشت مختلف بتوں کی عبادت کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ مکہ کے سرداروں کی طرف سے حضور کو قریش کی سرداری سمیت مختلف پیشکشیں کی گئیں۔ سربراہی مل رہی تھی لیکن انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی تحریک کے بنیادی نکتہ پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا کرنے سے انکار کر دیا۔

حضور ﷺ کی سیاست میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب مدینہ کے لوگ ان کی بیعت کرنے مکہ آئے۔ بیعت عقبہ اول میں صرف ایک فقرہ ملتا ہے جس میں اطاعت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اگلے سال حج پر بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی۔ اس میں یثرب کے دو سردار بھی شامل تھے۔ اس حلف میں بہت واضح الفاظ میں زندگی کے ہر شعبہ میں حضور ﷺکی مکمل حکمرانی تسلیم کر لی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی حلف لیا گیا، ”ہم حضور کے فرمان کو اپنے آپ پر ترجیح دیں گے اور یہ کہ ہم ’ارباب امر‘ سے کشمکش نہیں کریں گے۔“

یہی حلف تھا جس کو مد نظر رکھ کر حضرت ابو بکر صدیق ؓنے سقیفہ بنو سعدہ میں حضور ﷺ کی جانشینی کے دعویدار انصار کی طرف سے اپنا خلیفہ نامزد کرنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ مہاجرین خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ یہ سن کر انصار نے ان کی خلافت قبول کر لی۔

سیاست میں اگلا اہم موڑ میثاق مدینہ ہے جسے دنیا کا پہلا تحریری آئین کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ میں حضور ﷺنے مدینہ کے یہودیوں سے اپنی سیادت تسلیم کروائی۔ یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتے ہوئے یہ معاہدہ ہوا کہ مسلمانوں اور ان کے درمیان کسی قسم کے اختلاف کی صورت میں عدالت آنحضرت ﷺ کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔

نزول وحی سے پہلے اور اس کے بعد کے یہ تمام معاہدے حضور ﷺکی اعلیٰ سیاسی بصیرت کا اظہار ہیں۔ انہوں نے طاقت کا منبع اپنے اور اپنے بعد آنے والوں کے ہاتھوں میں ہی رکھا۔ اور یہی حکومت کا چلانے کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ سب سے اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جس میں تمام طاقتیں صرف ایک مرکز کے پاس ہوں۔

اور مرکز وہ ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ایک دعا کی شکل میں سورہ بنی اسرائیل میں ملتا ہے۔ یہ دعا نبی کریم ﷺہجرت مدینہ کے لئے چلتے ہوئے پڑھ رہے تھے۔

واجعل لى من ل۔ دنک سلطاناً نصی۔ راً
اور اپنی طرف سے مجھے غلبہ اور مدد عطا فرما۔

ایسا غلبہ اور طاقت جو مظلوم کی مدد کر سکے۔ وہی مدد، حلف الفضول میں جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ”مکہ میں کسی مظلوم کو پائیں گے تو اس کی امداد کو کھڑے ہو جائیں گے خواہ وہ مظلوم مکہ کا رہنے والا ہو یا دوسرے لوگوں میں سے کوئی وہاں آیا ہو اور جس نے ظلم کیا ہو اس کا مقابلہ کریں گے یہاں تک کہ وہ مظلوم کو اس کا حق لوٹا دے۔“

میثاق مدینہ کے مطابق اس غلبہ اور طاقت میں، ”شہریوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی درجہ حاصل ہو گا۔ حکمران اقلیتوں کے حقوق کا محافظ ہو گا۔ ان کو مکمل مذہبی آزادی ہو گی۔ اس معاہدہ کی ایک شق کے مطابق یہودیوں کو تمدنی اور ثقافتی معاملات میں مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔“

اسی قسم کا ایک عہد حضور ﷺ کا نصرانیوں کے ساتھ بھی ملتا ہے۔ جو انہوں نے سینٹ کیتھرین سے آنے والے ایک وفد کو لکھ کر دیا۔ ”بے شک میرے مددگار، خدمتگار اور پیروکار ان کا ( عیسائیوں کا ) تحفظ کریں گے۔“ اس معاہدہ کا آخری فقرہ انتہائی اہم ہے، ”(مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روز قیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا۔“

یہی مسلمان ریاست کا صحیح بندوبست ہونا چاہیے کہ تمام طاقتیں ایک مرکز کے پاس ہوں تاکہ وہ ان کی مدد سے اپنے عوام کی بھلائی کرسکے، مظلوموں کی مدد کر سکے اور اقلیتوں کو برابری کی بنیاد پر تحفظ مہیا کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).