ضلع قلات میں ایک اور بچے کو جنسی زیادتی کے بعد ہلاک کر دیا گیا


زیادتی
Science Photo Library
بلوچستان کے علاقے قلات سے تعلق رکھنے والا کمسن بچہ محمد عمران جب منگل کی شام تک اپنے مدرسے سے واپس گھرنہیں پہنچا تو ان کے گھر والوں کو تشویش ہونے لگی۔

8 سالہ محمد عمران قلات کے علاقے کلی پس شہر کا رہائشی تھا۔ وہ اپنے گھر کے قریب دو تین منٹ کی پیدل مسافت پر واقع مدرسے میں نورانی قاعدہ پڑھنے جاتا تھا۔

ان کے ایک قریبی رشتہ دار ظہور احمد نے بتایا کہ عمران ساڑھے چار بجے مدرسے سے گھر کے لیے نکلے تھا لیکن وہ گھر نہیں پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری رات ان کو تلاش کیا گیا لیکن وہ نہیں ملا لیکن جب اگلے دن دوبارہ تلاش شروع کی گئی تو عمران کی لاش قریبی پہاڑیوں سے ملی۔

یہ بھی پڑھیے

’پاکستان میں ہر روز 9 بچے جنسی زیادتی کا شکار‘

’روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ‘

بلوچستان میں بچہ مبینہ زیادتی کے بعد کیمیائی مواد سے زخمی: پولیس

کراچی: بچے سے جنسی زیادتی کے الزام میں قاری گرفتار

مانسہرہ: بچے سے زیادتی، مدرسہ سِیل

بچے کی لاش کو پہلے پوسٹ مارٹم کے لیے قلات میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اور بعد میں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

سول ہسپتال کوئٹہ میں خاتون پولیس سرجن داکٹر عائشہ نے بچے کی لاش کا معائنہ کیا۔ لاش کے معائنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پولیس سرجن نے بتایا کہ بچے کو تشدد کے علاوہ جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بچے کو صرف ایک شخص نے نہیں بلکہ ایک سے زیادہ افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ جنسی زیادتی کے واقعات میں زیادہ تر بچوں کا گھلا گھونٹا جاتا رہا ہے یا پھر ان کو گولی مارکر ہلاک کیا جاتا رہا ہے لیکن اس واقعے میں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بچے پر تشدد کے ساتھ ان کے سر پر ایک بڑا پتھر بھی مارا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ چونکہ بچے سے زیادتی ہوئی تو اس لیے ڈی این اے کے لیے مطلوبہ نمونہ لیا گیا جس کو فارنزک لیابریٹری لاہور بھیجوا دیا گیا ہے۔

قلات پولیس کی کارروائی

قلات پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او حبیب اللہ نے بتایا کہ اس واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاحال کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ہے تاہم متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان مشتبہ افراد میں سے 7 اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔ اس واقعے کے بعد ڈی آئی جی قلات رینج جاوید اختر اوڈھو اور ڈی آئی جی کرائمز برانچ پولیس وزیر خان ناصر نے بھی قلات کا دورہ کیا۔

ڈی آئی جی وزیر خان ناصر نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ کرائمز برانچ پولیس اس واقعے کے بارے میں تفتیش کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ سے مختلف شواہد اکٹھے کر کے ٹیسٹ کے لیے لیباریٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔

بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر تشویش

سول ہسپتال کوئٹہ میں موجود بلوچستان نیشنل پارٹی کی خاتون رکن شکیلہ نوید نے بتایا کہ قلات میں حالیہ دنوں میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے دو بچوں کے ساتھ واقعات پیش آئے مگر ان واقعات کو نہ میڈیا میں کوریج ملی اور نہ ان کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کو ایسے نہیں جانے دیں گے اس لیے اس بچے کی لاش کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان واقعات کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کریں گے تاکہ بچوں کو ظلم اور زیادتی سے بچایا جاسکے۔

ڈیڑھ ماہ کے دوران رپورٹ ہونے والا تیسرا واقعہ

قلات میں بچے کے ساتھ زیادتی سے قبل ستمبر کے تیسرے ہفتے میں کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں ایک بارہ سالہ بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچے کے والد کے مطابق ان کے بیٹے کو اس وقت تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ گھر کے لیے سودا سلف کی خریداری کے لیے بازار گئے تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے بچے کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کے جسم کے نازک حصوں کو کیمائی مواد سے جلایا گیا۔

حب پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او عبد الحق موسیانی نے بتایا کہ اس واقعے کے تین نامزد ملزمان میں سے ایک گرفتار ہے اور چالان عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد اکتوبر کے پہلے ہفتے میں افغانستان سے متصل سرحدی ضلع قلعہ عبد اللہ کے علاقے میزئی اڈے میں ایک 13 سالہ لڑکے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔

اس بچے کی لاش ایک درخت پر لٹکی ہوئی ملی تھی۔

اسسٹنٹ کمشنر قلعہ عبد اللہ جہانزیب شیخ نے بتایا کہ یہ بچہ ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھا اور وہ قرآن مجید حفظ کررہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور ان کو ہلاک کرنے کے الزام میں دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر اس کیس کی تفتیش کرائمز برانچ پولیس کررہی ہے۔

ڈی آئی جی کرائمز برانچ پولیس وزیرخان ناصر نے بتایا کہ لیویز نے اس واقعے کے حوالے سے دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس واقعہ کے اصل ملزم یحییٰ نے ابتدائی طور پر یہ بتایا تھا کہ ان کے ساتھ ایک اور ملزم بھی تھا لیکن کرائمز برانچ پولیس کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے یہ جرم اکیلے ہی کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ملزم نے کریمینل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

بچوں کے ساتھ رواں سال زیادتی کے رپورٹ ہونے والے واقعات

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوتی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم سحر کے مینیجر برائے چائلڈ پروٹیکشن بہرام لہڑی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے قائم کردہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ سے چند روز قبل بچوں کے ساتھ زیادتی کے جو اعداد و شمار حاصل کیے ان کے مطابق رواں سال رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد 25 ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم سالار فاﺅنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سلام خان نے بتایا کہ بلوچستان میں بچے کئی پہلوﺅں سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

قلعہ عبداللہ میں 13 سالہ لڑکے کی ہلاکت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں ایک ڈویژن بینچ نے کہا کہ بلوچستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے رحجان میں اضافہ ہورہا ہے۔

ہائیکورٹ نے تمام ڈویژنز کے کمشنروں اور ڈی آئی جیز پولیس کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے ساتھ زیادتی کے رحجانات کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔ عدالت نے انہیں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں اور ایس ایس پیز پولیس سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے زیر التوا کیسوں کی تفصیل حاصل کرنے اور اس کی رپورٹ ایڈووکیٹ جنرل کو پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp