گُڑیا یا گاڑی: آپ کا بچہ کِس کھلونے سے کھیل رہا ہے؟


 

گھر یا گڑیا

جب آپ چھوٹے تھے تو کھلونوں سے تو ضرور کھیلتے ہوں گے۔ ہر بچہ ہی کھیلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ گُڈا گُڈی، لٹّو اور گگھو گھوڑے بچوں کے پسندیدہ کھلونے تھے۔ پھر واک مین، ویو ماسٹر اور ڈائی کاسٹ گاڑیوں کا دور آیا اور اب لیگوز، ایکشن فگرز اور ڈرونز بچوں کے دِلوں پر راج کرتے ہیں۔

لیکن اِن سب برسوں میں اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ کھلونوں کی جنس کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ نسل در نسل ایک ہی روش چلی آ رہی ہے کہ لڑکا ہمیشہ گاڑی سے ہی کھیلے گا اور اگر لڑکی ہے تو اُسے گُڑیا تھما دی جائے گی۔

مگر کوئی لڑکا گُڑیا سے کھیلتا نظر آ جائے یا کسی لڑکی کے ہاتھ میں کوئی ’سُپر ہیرو‘ دکھائی دے تو ہمیں یہ عجیب کیوں لگتا ہے؟

آخر یہ کس نے طے کیا ہے کہ لڑکے کا ’کِچن سیٹ‘ اور لڑکی کا ’ٹولز یعنی اوزاروں‘ سے کھیلنا منع ہے؟ کیا کوئی قانون، روایت یا سائنسی تحقیق یہ پابندی لگاتی کہ لڑکی ’سُپرمین‘ کی فین نہیں ہو سکتی اور لڑکا ’باربی‘ کا پرستار نہیں کہلا سکتا؟

ہم نے ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

مجھے امّی نے کہا تھا

ہم نے چار سے آٹھ سال کے لڑکے لڑکیوں کو جمع کر کے پوچھا کہ اُن کے پسندیدہ کھلونے کون کون سے ہیں۔

یہ سوال کچھ اِتنا مشکل تو نہیں تھا لیکن پھر بھی کچھ بچے سوچ میں پڑ گئے۔ بعض صرف ایک کھلونے کا نام لے کر رُک گئے لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جنھوں نے فر فر اپنے من پسند کھلونوں کی لسِٹ گِنوا دی۔

کسی سنجیدہ مزاج لڑکے نے بڑے بوڑھوں کے انداز میں جواب دیا کہ ’مجھے یہ بات پتہ نہیں ہے‘ تو کسی نے شکایت لگائی کہ امّی یا ابّو نے کہا تھا کہ فلاں کھلونے سے کھیلا کرو۔

گھر یا گڑیا

لیکن پھر بلآخر کسی نے گاڑی کا نام لیا اور کسی کی فیورٹ گُڑیا نکلی۔ کسی کو ’باربی‘ پسند تھی تو کوئی بندوقوں اور تلواروں کا شیدائی تھا۔ کسی کو ’سُپرمین‘ بھاتا تھا تو کوئی ’لیگوز‘ کا دیوانہ تھا۔

ایک کا انتخاب

تجربے کے پہلے مرحلے میں ہم نے بچوں کے سامنے دو کھلونے رکھے۔ ایک وہ جو معاشرتی پیمانے کے مطابق لڑکیوں کے لیے مخصوص ہے جبکہ دوسرا وہ کھلونا جو لڑکوں کے کھیلنے کے لیے مناسب سمجھا جاتا ہے۔

پھر بچوں سے کہا گیا کہ وہ اُن دو کھلونوں میں سے کوئی ایک منتخب کریں۔

لیکن ٹھریں۔۔۔ اِس سے پہلے کہ ہم آپ کو تجربے کے نتائج بتائیں، یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بچہ کوئی مخصوص کھلونا ہی کیوں منتخب کرتا ہے اور اُس کے پیچھے کیا وجوہات ہوتی ہیں۔

گُڑیا یا گاڑی

بچے کا نظریہ نہیں ہوتا

نفسیات کی سائنس بتاتی ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ کسی قسم کے نظریات لے کر دنیا میں نہیں آتا۔ وہ سب کچھ اردگرد کے ماحول اور اپنے مشاہدے کو استعمال کر کے سیکھتا ہے۔

ماہرینِ کے مطابق چھ سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے سیکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ’پلے بیسڈ لرننگ‘ یا کھیل کھیل میں سیکھنا ہوتا ہے۔ اِس طرح اُن میں تنقیدی سوچ پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور وہ عملی زندگی کے لیے تیار ہوتے جاتے ہیں۔ اِس تمام تجربے کا ایک بہت اہم حصہ کھلونے بھی ہیں۔

ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیں کہ بچے اکثر اُن کھلونوں کو پسند کرتے ہیں جِن کی جانب وہ کشش محسوس کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بڑوں کی طرف سے تحفے کے طور پر دیے جانے والے کھلونے بھی اُن کی پسند پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

گڑیا یا گاڑی

تجربے کا کیا ہوا؟

اِس تمہید کے بعد اب آتے ہیں بچوں کے ساتھ کیے جانے والے تجربے کے نتائج کی طرف۔

وہی ہوا جس کی توقع تھی۔

لڑکوں نے ’ایکسکاویٹر‘ (مٹی اُٹھانے والی مشین)، ’بیٹ مین‘، گاڑی اور ’ٹولز‘ منتخب کیے تو لڑکیوں کو گُڑیا، ’ٹی سیٹ‘ اور برتن دھونے والا ’سنِک‘ پسند آیا۔

لڑکیاں گُڑیا کے گھر میں رکھا سامان ترتیب دینے میں لگ گئیں تو لڑکے ریموٹ کنٹرولڈ گاڑی دوڑانے لگے۔

لڑکوں نے ’ٹول سیٹ‘ نکال کر ’سَکرو ڈرائیور‘ سے پینچ پرزے کسے اور لڑکیاں ’ٹی سیٹ‘ کی کیتلی سے کپ میں خیالی چائے اُنڈیلنے لگیں۔

گھر یا گڑیا

بوائز کی چیزیں

جب بچوں سے اُن کے انتخاب کی وجہ پوچھی گئی تو جواب میں وہ نہیں بلکہ معاشرے کی فرسودہ روایات اور دقیانوسی سوچ بولی۔

بڑی بڑی آنکھوں والی مریم نے یاد دلایا کہ ’بیٹ مین‘ دراصل لڑکوں کا ہوتا ہے۔

عُمر نے اعلان کیا کہ چونکہ ’ٹی سیٹ‘ گُلابی رنگ کا ہے اور گُلابی رنگ اُنھیں ناپسند ہے اِس لیے وہ یہ کھلونا منتخب نہیں کر سکتے۔

آئرا نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ ’ٹولز‘ بوائز کی چیزیں ہیں۔

رنگ برنگے پھولوں کے پرنٹ والی فراک اور پِنک گھڑی پہنے ایشال نے فیصلہ صادر کیا کہ گرلز ’ڈالز‘ یعنی گڑیوں سے ہی کھیلتی ہیں۔

حُسین نے رائے دی کہ برتن دھونے والا سِنک ’گرلز‘ کے استعمال کی چیز ہے۔

گھر یا گڑیا

اور آنیہ نے گُتھی سُلجھائی کہ ماما نے بولا تھا ’ڈال‘ زیادہ اچھی ہوتی ہے۔

پدرسری معاشرہ

پدرسری معاشرے کا بنیادی تصّور ہے کہ مرد کماتا ہے اور عورت گھر سنبھالتی ہے۔ اِس نظام میں نسوانیت کمزوری اور ماتحتی کی نشانی ہے جبکہ مردانگی طاقت اور برتری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

تو اگر لڑکا ایسے کھلونوں سے کھیلے گا جو صدیوں سے صرف لڑکیوں کے لیے مختص تصّور کیے جاتے ہیں تو معاشرہ یہ گمان کر سکتا ہے کہ وہ نسوانی طور طریقے اپنا رہا ہے، لہذا کمزور ہے۔

لیکن دنیا بھر خصوصاً مغرب میں جاری خواتین کے حقوق کی تحریکوں کے بعد اب یہ تصّورات تبدیل ہو رہے ہیں۔

سنہ 2017 میں کی جانے والی ’پیو ریسرچ سینٹر‘ کی تحقیق کے مطابق امریکا میں کھلونے بنانے والی کمپنیوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کھلونوں کی مارکیٹنگ ختم کر دی ہے۔

کھلونے سب کے لیے

والدین، تعلیمی ادارے اور کھلونے بنانے والی کمپنیاں بھی اب اِس کوشش میں ہیں کہ ’جینڈر نیوٹرل ٹوائز‘ کو فروغ دیا جائے یعنی ایسے کھلونے جو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو پسند آئیں۔

پاکستان میں کھلونوں کا ایک آن لائن سٹور چلانے والے حمزہ وسیم بتاتے ہیں کہ اب والدین میں ’یونی سیکس ٹوائز‘ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

گُڑیا یا گاڑی

’ہمارے سٹور میں بہت سے ’ڈی آئی وائی ٹوائز‘ ہیں یعنی جنھیں بچے خود مختلف حصے جوڑ کر بناتے ہیں۔ ’سلائیم‘، ’لیگوز‘ اور بلاکس بھی ہیں۔ یہ تمام ایسے کھلونے ہیں جو کسی ایک جنس سے تعلق نہیں رکھتے اور لڑکوں اور لڑکیوں میں یکساں مقبول ہیں۔‘

منافقانہ رویہ

روایتی معاشرے کا ایک منافقانہ رویہ یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی گاڑیوں یا ’سُپر ہیروز‘ سے کھیلنے کی خواہش ظاہر کرے تو والدین کو بہت زیادہ اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن اگر لڑکا گُڑیوں سے کھیلنا شروع کر دے تو والدین گھبرا جاتے ہیں۔

ماہرِ نفسیات عمارہ بتول کا کہنا ہے کہ ’نرچرنگ ٹوائز‘ ایسے کھلونوں کو کہا جاتا ہے جن سے کھیلنے سے بچوں میں دوسروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

’مثلاً گُڑیا یا ’کچن سیٹ‘ ’نرچرنگ ٹوائز‘ میں شمار کیے جاتے ہیں اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اِن کھلونوں سے کھیلنے والے لڑکے بڑے ہو کر مہربان اور شفیق شخصیت کے مالک بنتے ہیں۔‘

عمارہ بتول نے مزید بتایا کہ مختلف نوعیت کے منفرد تجربات بچوں کی متناسب پرورش کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ تجربات بڑے ہونے پر اُن کی جنسیت پر اثر انداز ہو جاتے ہیں۔

گُڑیا یا گاڑی

بندوقیں اور تلواریں

عمارہ بتول کے بقول جب بچہ کسی کھلونے سے کھیلتا ہے تو خود کو وہ مخصوص چیز حقیقت میں استعمال کرتے ہوئے تصّور کرتا ہے۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ محتاط رہیں کہ بچوں کے ہاتھوں میں کون سے کھلونے ہیں۔

’اگر بچہ کھلونا بندوق سے کھیلے گا تو وہ اپنے آپ کو پولیس والا بھی تصّور کر سکتا ہے اور ڈاکو بھی۔ لیکن دونوں صورتوں میں وہ تشدد سے روشناس ہو رہا ہے۔‘

عمارہ کا دعوی ہے کہ اِس قسم کے کھلونوں سے کھیلنے والے بچوں میں تشدد کے رویوں کے پروان چڑھنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ یہ رویے بڑے ہونے پر مردوں میں جسمانی اور جنسی تشدد کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

والدین کو مشورہ

ماہرین کے مطابق اب اکثر والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں کافی حساس ہو گئے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ بچہ کِن کھلونوں سے کھیل ر ہا ہے اور اُن کا بچے کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر کیا اثر پڑے گا۔

ماہرِ نفسیات عمارہ بتول والدین کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ بچوں کے لیے ‘یونی سیکس’ یا ‘جینڈر نیوٹرل’ کھلونے منتخب کریں۔

’مثلاً ’لیگوز‘، بلاکس یا سائنسی تجربات کی چیزیں جن سے بچوں کی تخیلیاتی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔ ‘

گھر یا گڑیا

’کھلونوں کا کام صرف بچوں کو مصروف رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ کھلونے ایسے ہونے چاہیئں جن سے بچے کچھ سیکھیں، اُن کی جسمانی ورزش ہو یا وہ دوسرے بچوں سے میل ملاپ اور ٹیم ورک کے تصّورات سے روشناس ہوں۔‘

پانسہ پلٹنے کو ہے

اب آخر میں ایک بار پھر چلے چلتے ہیں اُس تجربے کی جانب۔

جب بچوں نے ایک بار کھلونے منتخب کر لیے تو ہم نے اُنھیں ایک اور موقع دیا۔ بچوں کو کہا گیا کہ اِس بار وہ صرف اور صرف اپنی پسند کا کھلونا منتخب کریں۔

یہ کہنا تھا کہ لگا جیسے بچوں کو کسی قید سے آزادی مل گئی ہو۔ لڑکوں نے ہمت کی اور ڈرتے ڈرتے ’سِنک‘ کا نَل کھولا کہ جیسے اُس میں سے پانی نہیں بلکہ آگ نکلے گی۔ کچھ نے شرما شرمی کو سائیڈ پر رکھا اور پلاسٹک کے ’ٹی سیٹ‘ میں ’ہوائی‘ چائے بنائی۔

لڑکیاں بھی کہاں پیچھے رہتیں۔ ایک نے فٹافٹ ’سیفٹی ہیٹ‘ پہنا تو دوسری نے گاڑی کا ریموٹ کنٹرول سنبھالا۔ کسی نے ’بیٹ مین‘ کو آ دبوچا اور کوئی مستقبل کی انجینئر۔۔۔ پلاسٹک کی ڈِرل مشین سے فرضی دیوار میں چھید کرنے لگی۔

اور یوں چھوٹے قد کے اِن بچوں نے پِدر شاہی کی درازقد دیوار کو ایک دھکا اور دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp