نیا پاکستان نہیں بنا سکتے تو پرانا ہی لوٹا دو


ایک آدمی کا بچہ رات کو بستر میں پیشاب کر دیتا تھا۔ وہ صاحب اپنے بچے کو حکیم صاحب کے پاس لے گئے۔ حکیم صاحب نے دوائی لکھ کر دی۔ دوائی کھانے کے بعد جب اگلی صبح اٹھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ پیشاب کے ساتھ بچے کا پاخانہ بھی نکل گیا تھا۔ اس پر ان صاحب کو شدید غصہ آیا اور وہ بچے کو لے کر مطب پہنچے اور حکیم صاحب سے کہا کہ براہ مہربانی میرے بچے کو پہلی حالت پر لوٹا دیں۔

قربان جائیں لاڈلوں کے لاڈلے کے کہ جسے مسلسل ڈھائی سال تک پرانے پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کے بعد اب یاد آیا کہ نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بن جاتا بلکہ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔ موصوف کنٹینر پر کھڑے ہو کر کئی کئی گھنٹے پرانے پاکستان کے حکمرانوں کو کوستے ہوئے بھاشن دیا کرتے تھے کہ وہ اقتدار ملنے کے بعد نوے دن کے اندر کرپشن ختم کر کے نیا پاکستان بنا لیں گے۔

پرانا پاکستان جو قائد اعظم اور ان کے رفقا کار کی شبانہ روز محنت کا ثمر تھا اور لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کی دل کی دھڑکنوں کا امین تھا، اسے بھی ہمارے توسیع پسند اور مطلق العنان حکمرانوں نے قیام کے محض چوبیس سال بعد نیا بنانے کے چکر میں توڑ دیا تھا۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ نما واقعہ بھی مشہور ہے کہ کسی محفل میں ایک دردمند مقرر شرکائے محفل کو بتا رہے تھے کہ قائد اعظم کا ہم پر بہت عظیم احسان ہے کہ جنھوں نے ہمیں اتنا شاندار ملک لے کر دیا۔ ہمیں اس کی ترقی، حفاظت اور خوشحالی کے لیے دن رات محنت کرنا چاہیے۔ یہ سن کر شرکائے مجلس میں سے ایک آدمی اٹھ کر گویا ہوا کہ ہم پاکستانی بہت خوددار اور غیرت مند قوم ہیں۔ ہم کسی کے احسان کا بوجھ تا دیر اپنے کاندھوں پر نہیں رکھتے ہیں۔ آدھا احسان 1971 میں اتار چکے ہیں اور باقی کا آدھا احسان بھی بہت جلد اتار دیں گے۔

خاکم بدہن ہمیں تو لگتا ہے کہ افلاطون صاحب بھی پرانے پاکستان کی درگت بنانے میں بہت جلدی میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں غدار غدار اور باغی باغی کا کھیل پورے عروج پر ہے۔ ہم نے دنیا کی تاریخ میں کسی سربراہ مملکت کو اس درجہ سطحی، پھسپھسی، بے معنی، کھوکھلی اور متنازع گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو ہمارے نئے پاکستان کے بانی کا طرۂ امتیاز ہے۔ وہ سر زمین حجاز پر قدم رکھتے ہیں تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ چین کا دورہ کرتے ہیں تو پاکستان کو ماوٴزے تنگ کے نظریات کے مطابق ڈھالنے کا اعلان کرتے ہیں اور وزرا کو کرپشن پر پھانسی چڑھانے کی ڈگڈگی بجاتے ہیں۔ ایران جاتے ہیں تو آیت اللہ خمینی کے لائے گئے انقلاب سے مرعوب ہو کر ویسے ہی انقلاب کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر عملاً ہو یہ رہا ہے کہ ڈھائی سال میں پارلیمنٹ سمیت ہر ادارہ کمزور ہو رہا ہے۔ وفاق اور سندھ آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ گریٹر پنجاب کے نعرے سر عام لگنا شروع ہو گئے ہیں۔

پشاور اور راولاکوٹ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ مقتدر اداروں کے خلاف عوامی غم و غصہ کس انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ بلوچستان میں علاحدگی پسند زور پکڑ رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ شدت سے سر اٹھا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جو بیانیہ تشکیل پا رہا ہے وہ مقتدر اداروں کے لیے ہر گز قابل قبول نہیں۔ نواز شریف تو خیر مظلوم آدمی ہے اور ہمارا دین بھی مظلوم کو آہ و فغاں اور نالہ و شیون کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے نواز شریف اپنی تقریروں اور بیانات میں اگر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو نشانہ بناتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر جب ملک کا وزیر اعظم جواب میں جوش خطابت میں ایسے بیان داغے جس سے مقتدر ادارے متنازع ہوں تو اس رویے کو کیا نام دیا جائے گا۔ فیٹف معاملے میں ہمیں بار دگر گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا ہے اور سقوط کشمیر کا سانحہ تو نئے پاکستان والوں کے ماتھے کا کلنک بن چکا ہے۔

تاریخی مہنگائی، بیروزگاری، شرح سود میں اضافہ، روپے کی گراوٹ، سٹاک ایکسچینج میں مندی، درآمدات و برآمدات میں عدم توازن، آٹے، چینی اور ادویات کا سنگین بحران وغیرہ، یہ سب ایسے معاملات ہیں جو خطرے کی حد عبور کر چکے ہیں۔ نئے پاکستان کو دیکھ کر عوام دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ اب جب کہ خان صاحب بی آر ٹی کی طرح پرانے پاکستان کو کھدیڑ اور ادھیڑ چکے ہیں اور اب سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں تو جھنجھلاہٹ اور گھبراہٹ میں ایسا بیان دیا کہ نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بنے گا۔ عوام ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بنے گا تو کس کے پیر دبانے سے بنے گا؟
آج بائیس کروڑ عوام نئے پاکستان کے نقشہ نویسوں، معماروں، ٹھیکیداروں اور راج مستریوں سے عرض پرداز ہیں کہ ہمیں نیا پاکستان نہیں چاہیے خدارا ہمیں ہمارا پرانا پاکستان ہی لوٹا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).