شیخ نہیان بن مبارک النہیان: اماراتی وزیر پر جنسی حملے کا الزام برطانیہ اور خلیجی ریاستوں کے سفارتی تعلقات کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟


شیخ نہیان
رواں ماہ ایک معروف ادبی میلے کے دوران ایک برطانوی خاتون کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے ایک سنیئر رکن پر ان پر جنسی حملہ کرنے کے الزامات بہت حیران کن ہیں۔

32 سالہ متاثرہ خاتون کیٹلن میک نمارا نے سنڈے ٹائمز کو بتایا ہے کہ اُن پر متحدہ عرب امارات کے 69 سالہ وزیر برائے رواداری، شیخ نہیان بن مبارک النہیان نے مبینہ طور پر جنسی حملہ کیا تھا۔

ان پر یہ مبینہ حملہ رواں برس 14 فروری کو ایک دور دراز نجی جزیرے میں قائم گھر میں ہوا تھا جہاں انھیں طلب کیا گیا تھا۔

متاثرہ خاتون نے کہا کہ وہ یہ سوچ کر وہاں گئی تھیں کہ ابوظہبی میں ہونے والی ان کی تنظیم کے پہلے ادبی میلے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس کا انعقاد صرف 11 روز بعد ہونے والا تھا۔

تاہم شیخ نہیان بن مبارک النہیان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ وہ ابوظہبی کے شاہی خاندان کے ایک سنیئر رکن ہیں اور ان کی برطانیہ میں لاکھوں پاؤنڈز کی جائیدادیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خاتون کی جانب سے ابوظہبی کے سینیئر وزیر پر مبینہ جنسی حملے کا الزام

سفارتی کشیدگی: ’سعودی عرب سے معافی نہیں مانگیں گے‘

سعودی شہزادی کی تصویر چھاپ کر ٹھیک کیا: ووگ

کیٹلن میک نمارا جولائی میں برطانیہ واپس آگئیں تھیں اور انھوں نے برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کو وطن واپسی پر اس جنسی حملے کی مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔

تاہم متعدد وجوہات کے باعث اس واقعے کی باقاعدہ تحقیقات اب تک شروع ہونا باقی ہیں۔

مبینہ واقع میٹروپولیٹن پولیس کی حدود سے باہر ہوا ہے، متحدہ عرب امارات میں اس واقعہ کی کوئی پولیس رپورٹ درج نہیں ہے، اور کیونکہ ملزم کا تعلق شاہی خاندان سے ہے تو ممکنہ طور پر انھیں قانونی کارروائی سے استثنا حاصل ہو گا۔

بی بی سی ریڈیو فور کے وویمن آور کے پروگرام میں اس کیس کے متعلق بات کرتے ہوئے بیرونس ہیلینا کینیڈی جو متاثرہ خاتون کی نمائندگی کر رہی تھی نے کہا کہ وہ چاہے گی کہ برطانوی حکومت اس معاملے پر متحدہ عرب امارات پر دباؤ ڈالے تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا قانونی طور پر یہ ذرا مشکل ہو گا۔

معروف ادبی میلے ‘ہیے فیسٹیول’ کی انتظامیہ نے اس واقعہ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک ابو ظہبی میلہ منعقد نہیں کریں گے جب تک ملزم وزیر شیخ نہیان اپنے عہدے پر قائم ہیں۔

مگر اس معاملے پر متحدہ عرب امارات کی جانب سے بہت کم ردعمل آیا ہے۔ صرف ملزم وزیر برائے رواداری شیخ نیہان کے وکلا کی جانب سے ان الزامات کی تردید، ان پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ٹی وی پر نشر کرنے کے علاوہ کوئی کسی اور کی جانب سے ردعمل نہیں آیا۔

شیخ نیہان جو متحدہ عرب امارات کی حکومت کا سنہ 1992 سے حصہ ہیں، انھیں اس واقعہ کے بعد اپنے عہدے سے معطل نہیں کیا گیا۔ وہ اپنے ملک میں ایک معروف اور معزز شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

سفارتی کشیدگی

برطانیہ کے عرب ممالک سے قریبی سفارتی تعلقات میں اکثر اوقات بدمزگی پیدا کرنے واقعات میں یہ حالیہ واقعہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔

متحدہ عرب امارات سے برطانیہ کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم ان قریبی تعلقات میں بدمزگی پیدا کرنی کی تاریخ کا آغاز سنہ 1980 سے ہوتا ہے جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں آئی ٹی وی چینل کے ایک ڈاکیومنٹری ڈرامہ کے باعث سفارتی طوفان برپا ہوا تھا۔

‘ڈیتھ آف پرنسز’ یعنی شہزادی کی موت نامی ایک ڈاکیومنٹری ڈرامہ میں ایک سعودی شہزادی کو عوامی پھانسی جبکہ اس کے محبوب کا سر قلم کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔

اس فلم کے باعث برطانوی کاروباری اداروں کو معاہدے منسوخی کی وجہ سے تقریباً 250 ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا تھا۔

آج اس بات کو بھولا دیا گیا ہے، مگر سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی صورتحال میں بتدریج بہتری آ رہی ہے تاہم آج بھی یہ صورتحال دیگر دنیا کے قابل قبول معیار سے بہت پیچھے ہے۔

پھر سنہ 1984 میں برطانیہ کے سعودی عرب سے سبکدوش ہونے والے سفیر سر جیمز گریگ نے اپنے افسر کو ایک خط لکھا جو کہ خفیہ ہونا چاہیے تھا، جس میں انھوں نے اپنی سعودی میزبانوں کو ‘نااہل، تنگ نظر اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے نابلد’ قرار دیا تھا۔

برطانیہ کی وزارت خارجہ کو اس وقت شدید خفت اور شرمندگی اٹھانا پڑی تھی جب یہ خط لیک ہو کر منظر عام پر آگیا تھا۔

سنہ 2018 میں برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی آئی تھی جب دبئی نے ایک برطانوی نژاد پی ایچ ڈی کے طلبا میتھو ہیجز کو گرفتار کر لیا تھا۔

پیجز اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسز کے لیے ‘عرب سپرنگ’ تحریک کے بعد کے حالات میں سکیورٹی ک صورتحال پر تحقیق کر رہے تھے لیکن اماراتی پولیس نے انھیں یہ کہتے ہوئے گرفتار کر لیا تھا کہ ان کے لیپ ٹاپ سے ملنے والا مواد یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک جاسوس ہیں۔ تاہم میتھیو نے اس الزامات کی تردید کی تھی۔

میتھیو ہیجز کو معافی دینے سے قبل مہینوں قید میں رکھا جس دوران انھوں نے اماراتی حکام پر قید تنہائی میں رکھنے اور ذہنی تشدد کا الزام عائد کیا تھا۔

آج تک متحدہ امارات کا یہ ماننا ہے کہ وہ ایک جاسوس تھے جبکہ برطانیہ اس کی تردید کرتا ہے۔

دبی شیخ

دنیا میں کورونا کی وبا پھوٹنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی لندن کی ایک ہائی کورٹ میں دبئ کے حکمران شیخ محمد المختوم اور ان کی سابقہ بیوی اور اردن کی شہزادی حیا کے درمیان ایک ہائی پروفائل مقدمہ زیر سماعت تھا

دنیا میں کورونا کی وبا پھوٹنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی لندن کی ایک ہائی کورٹ میں دبئ کے حکمران شیخ محمد المختوم اور ان کی سابقہ بیوی اور اردن کی شہزادی حیا کے درمیان ایک ہائی پروفائل مقدمہ زیر سماعت تھا۔

دبئ کے بادشاہ شیخ محمد کی جانب سے ان کے مذموم الزامات کی اشاعت روکنے کی بہترین کوششوں کے باوجود جج نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔

اس کے بعد دنیا کو یہ علم ہوا کہ گھڑ دور کی دنیا کی ایک بڑی شخصیت ہے اور اکثر ملکہ کے ساتھ تصویروں میں نظر آنے والے 70 سالہ قد آور شخص نے اپنا کنبہ چھوڑنے کی کوشش کرنے پر اپنی بیٹیوں کو اغوا کیا تھا اور انھیں قید کر لیا تھا۔

جج نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ شیخ محمد نے اپنی سابقہ اہلیہ کو ‘خوفزدہ کرنے اور دھمکیوں کی مہم چلائی تھی’، جو گذشتہ برس اپنے بچوں کے ساتھ فرار ہو کر یہ کہتے ہوئے برطانیہ پہنچی تھی کہ انھیں جان کا خطرہ ہے۔

اس خبر کے بعد گھڑ دوڑ کی دنیا میں ایک جھٹکا لگا جب بعض حلقوں کی جانب سے دبئی کے حکمران شیخ محمد سے تعلقات محدود کرنے کی بات ہوئی۔

برطانیہ کے تمام چھ خلیجی ممالک ے ساتھ تعلقات میں سے سب سے متنازع تعلقات سعودی عرب کے ساتھ رہے ہیں۔ اس کے ڈریکونین، پیچیدہ اور بہت زیادہ تنقید کیے جانے والے نظام انصاف کے باعث متعدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات پیدا ہوئے ہیں۔جنھیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں نے خوب جانچا ہے۔

البتہ برطانوی تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب خطے میں ایران کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ہے۔

یہ ہزاروں برطانوی شہریوں کو دفاع صنعت میں روزگار کے مواقعے بھی فراہم کرتا ہے۔

لیکن یمن کی جنگ میں سعودی فضائیہ کی جاب سے فضائی بمباری کے دوران بعض اوقات برطانیہ سے خریدے گئے جہاز اور گولہ بارود کے استعمال نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس جنگ کو دنیا کا بدترین انسانی المیہ قرار دینے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔

جمال خاشقجی

سنیر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر قتل کے واقعے نے بھی شاید دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ان کی لاش کو کاٹ دیا گیا اور وہ کبھی نہیں مل سکی تھی۔ مغربی خفیہ ایجنسیاں اس فیصلے پر پہنچی تھیں کہ ممکنہ طور پر سعودی عرب کہ طاقتور ولی عہد محمد بن سلمان اس واقعے میں ملوث ہیں، البتہ انھوں نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

جولائی میں برطانیہ نے 20 سعودی حکام پر خاشقجی کے قتل میں کردار ادا کرنے پر پابندیاں عائد کی تھی تاہم سعودی عرب کے ساتھ تعلق بلا تعطل جاری رہے تھے۔

قدرتی طور پر مالا مال

اس بات کو یقینی بنانے کے لئے متعدد عوامل اکٹھا ہوگئے ہیں کہ لندن میں مکمل طور پر پالیسی تبدیل کرنے کو روکنے کے بعد خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات مزید قریب تر ہونے کا امکان ہے۔

ایک غیر مستحکم مشرق وسطیٰ میں جہاں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ اور ایران کو ایک تغریراتی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہوں، وہاں خلیجی سلطنتیں ایک ضروری اتحادی کے طور پر سمجھی جاتی ہیں۔

راف طیارے باقدگی سے خلیجی اڈوں سے پرواز بھرتے ہیں، برطانیہ کا اب بحرین میں ایک مستقل بحری اڈہ بھی ہے۔

قطر کے ساتھ ٹائفنز کا مشترکہ دستہ تشکیل دیا گیا ہے اور عمان کی فراہم کردہ سہولیات کا استعمال بڑھایا جارہا ہے۔

اور یقیناً خلیجی ریاستیں تیل اور گیس کے قدرتی زخائر کی وجہ سے مالا مال ہیں۔

اجتماعی طور پر ان ممالک نے یورپی یونین سے باہر برطانیہ کی تیسری سب سے بڑی تجارتی شراکت داری قائم کی۔ جس نے برطانیہ کی معیشت میں اربوں پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی اور متحدہ عرب امارات کے اخبار دی نیشنل کو ایک حالیہ انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم بورس جانسن نے اس خطے کی برطانیہ کے لیے اہمیت کے بارے میں بات کی تھی۔

اس تمام عوامل سے دو باتیں بہت واضح ہیں کہ اس طرح کے اور واقعات مستقبل میں ابھی آنا باقی ہیں اور خیلجی ممالک کی جانب سے تعلقات عامہ کی اداروں کی خدمات حاصل کرنا جاری رہے گا جس سے ان اداروں کا کاروبار اگلے کئی برس تک چلتا رہے گا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp