فرانس میں ہونے والے قتل؛ سرسید کی حکمت عملی پر غور کریں


فرانس کے شہر نیس میں تیونس کے ایک مسلمان نے نوٹرے ڈیم کے گرجے میں داخل ہو کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور تین افراد کو قتل کر دیا۔ قتل ہونے والے اپنی عبادت کی رسومات میں مصروف تھے۔ چنانچہ اس حملے کے بعد خواہ فرانس کے صدر ہوں یا دوسرے لیڈر ان کی طرف سے بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہماری تہذیب اور ہماری آزادی پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور ہم ہر صورت میں اپنی اقدار کا دفاع کریں گے۔ اور یہ آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں کہ یہ مسلمان دوسرے ممالک سے فرانس آ کر یہاں پناہ لیتے ہیں اور ہماری مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر ہماری بنیادی قدروں پر حملے شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرز عمل کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ فرانس کی مسلمان تنظیموں نے بھی نیس میں ہونے والے حملے کی مذمت کی۔

اس سے قبل فرانس کے ایک استاد نے سکول میں پڑھاتے ہوئے جریدے شارلی ایبڈو میں شائع ہونے والے ایسے خاکے دکھائے تھے جو مسلمان طلباء کے لئے انتہائی دل آزاری کا باعث تھے۔ مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مہم شروع کی تو اس دوران چیچنیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوان نے اس استاد کو قتل کر کے اس کا سر قلم کر دیا۔

چند روز قبل مسلمان ممالک فرانس کے صدر کی مذمت کر رہے تھے اور اب مختلف مغربی ممالک فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال ایک عالمی تصادم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اور روز بروز اس تصادم کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ڈیڑھ ماہ قبل سویڈن میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند گروپ نے سٹاک ہوم کے ایک علاقے میں قرآن کریم کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔ یہ گروہ اس قسم کی وارداتیں پہلے بھی کر چکا ہے۔ اس کے بعد اس گروہ کے ایک لیڈر نے فیس بک پر یہ اعلان آویزاں کیا تھا کہ اسلام ایک برا اور پسماندہ مذہب ہے اور ڈنمارک سویڈن یا کسی اور مہذب ملک میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس اعلان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو اشتعال دلا کر کسی متشدد رد عمل پر اکسایا جائے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اس مہم کے لئے وقت کا انتخاب بہت ہوشیاری سے کیا گیا تھا۔ کیونکہ جب فرانس میں یہ واقعات ہوئے تو ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اور بہت سے مسلمان اس مہینے میں بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی مناتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس بات کی زیادہ توقع کی جا سکتی تھی کہ کوئی نہ کوئی مسلمان مشتعل ہو کر انتہائی رد عمل دکھائے گا۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب کے انتہا پسند طبقے کی طرف سے اس قسم کے حملے پہلی مرتبہ نہیں ہو رہے۔ اس وقت پرانی تاریخ دہرائی جا رہی ہے لیکن ذرا مختلف انداز سے۔ 1857 کی جنگ کے بعد کم از کم ہندوستان میں مسلمان برطانوی حکمرانوں کے معتوب ٹھہرے تھے۔ اس وقت بھی اس طرح کے حملے کیے گئے تھے۔ پہلے مسلمانوں کے عقائد اور تاریخ کے بارے میں وسیع پیمانے پر مخالفانہ لٹریچر شائع کیا گیا۔ اور اس لٹریچر میں خاص طور پر بانی اسلام ﷺ کی ذات پر حملے کیے گئے۔

اور ان کتابوں کو لکھنے والوں میں سے کئی سرکاری عہدوں پر مقرر تھے۔ مثال کے طور پر سر ولیم میور نے بانی اسلام ﷺ کی سوانح حیات ”لائف آف محمد“ لکھی اور اس میں اپنے انداز میں اعتراضات کیے۔ اس دور میں مختلف پادریوں نے کثیر تعداد میں ایسی کتب لکھ کر ہندوستان میں پھیلانی شروع کیں۔ ظاہر ہے برطانوی حکومت نے ان کی اشاعت کو کیوں روکنا تھا؟

جب ان حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات کو اچھی طرح انگیخت کر دیا گیا اور ان میں سے بعض کی طرف سے متشدد رد عمل ظاہر ہو تو 1871 میں بنگال کے ایک سینئر برطانوی افسر ولیم ہنٹر نے ایک کتاب Our Indian Mussalmans لکھی اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خون کے پیاسے ہیں اور ہر وقت تشدد پر آمادہ رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس سوچ پر گرفت کی جا رہی تھی جسے انہوں نے خود پیدا کیا تھا۔ اس کتاب کا مقصد یہی تھا کہ برطانوی حکمران طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جائے اور اتنا بھڑکایا جائے کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کا جینا بھی حرام کر دیں۔

اس موقع پر ایک راستہ وہ تھا جو کہ سرسید احمد خان نے اختیار کیا۔ اور وہ یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں کو تشدد پر اکسایا جائے۔ بلکہ سرسید احمد خان نے قلم اٹھایا اور ولیم ہنٹر کی خرافات کا جواب دیا۔ مجلس ترقی ادب لاہور کی طرف سے شائع کردہ ”مقالات سرسید“ کے حصہ نہم میں یہ جواب اور اس طرز پر سرسید کی بعض اور قلمی کاوشیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ سرسید کی تحریر ”ڈاکٹر ہنٹر کی غلط فہمیوں کا ازالہ“ میں اتنے موثر دلائل دیے گئے ہیں کہ اس کے سامنے ہنٹر کی کتاب بازیچہ اطفال نظر آتی ہے۔

سرسید اور ان جیسے معتدل مزاج راہنماؤں کی کاوشوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بہت سے مصائب سے بچا لیا اور لارڈ کرزن کے دور تک حکومت کا رویہ بالکل بدل چکا تھا۔ 1906 میں قائم ہونے والی مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد سرسید احمد خان کی سوچ کا تسلسل ہیں۔ ان میں کسی بھی بے جا تصادم سے گریز کیا گیا ہے۔

آج سے ڈیڑھ سو سال قبل یہ حملے بظاہر سنجیدہ لٹریچر کے ذریعہ کیے گئے تھے۔ ایسی کتب میں لکھنے والے کو یہ لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ کم از کم بظاہر اس کی تحریر مدلل نظر آئے اور اس میں کچھ حوالے درج ہوں۔ ایسی تحریر پر گرفت کرنا ایک لحاظ سے آسان ہوتا ہے۔ لیکن 1988 میں سلمان رشدی کی کتاب کی اشاعت کے ساتھ مخالفت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پہلے ناولوں اور فلموں کے ذریعہ حملے کیے گئے۔ اور پھر مزید نیچے گر کر دل آزار خاکوں کو سہارا لیا گیا۔

ایسے خاکوں کو شائع کرنے کا عمل 2005 میں ہالینڈ میں شروع کیا گیا۔ اگلے سال فرانس کے جریدے شارلی ایبڈو نے اس عمل کو آگے بڑھایا۔ اور پھر سویڈن میں بھی یہ رو شروع ہو گئی۔ اظہار رائے کی آزادی کا لاکھ ذکر کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو طبقہ ان خاکوں کو شائع کر رہا ہے وہ کوئی علمی طبقہ نہیں ہے بلکہ ذہنی طور پر مسخروں سے بھی زیادہ ذہنی پستی کا شکار ہے۔ مسخرے اپنے آپ کو دلیل کے اثر سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ اگر جذبات سے مغلوب ہو کر اس طرح قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں تو اس طبقے کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ دیکھو ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ مسلمان تمہاری تہذیب کے لئے خطرہ ہیں۔ اور اہل یورپ کی اکثریت ان سے ہمدردی کرنے پر مجبور ہو گی۔

اور یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یورپ اور خاص طور پر فرانس میں آباد ہے۔ لیکن یورپ کے ان مسخروں اور یورپ کے شرفاء کے درمیان ایک واضح دراڑ موجود ہے۔ اگر سرسید کی طرح اس دراڑ پر ضرب لگائی جائے تو کچھ ہی عرصہ میں یورپ کا سنجیدہ طبقہ ان کے خلاف بھڑک اٹھے گا۔ مسلمان ممالک کے قائدین کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے کہ سفید فام انتہا پسند طبقے کو اکثریت سے کاٹ کر تنہا کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).