ایف اے ٹی ایف کیسے پاکستان کی قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بن رہا ہے؟


روپے
پاکستان میں قومی بچت کی سکیموں میں موجودہ مالی سال کے پہلے دو ماہ جولائی اور اگست میں ہونے والی سرمایہ کاری میں بے پناہ کمی دیکھنے میں آئی۔ قومی بچت کی اسکیموں میں ان پہلے دو ماہ میں فقط سات ارب روپے کا سرمایہ لگایا گیا۔

دو ماہ میں مجموعی طور پر قومی بچت کی سکیموں میں سات ارب روپے کی سرمایہ کاری کا موازنہ گذشتہ مالی سال سے کیا جائے تو اس سرمایہ کاری میں واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے کیونکہ گزرے سال میں ہر مہینے میں اوسطاً 30 ارب کی سرمایہ کاری قومی بچت کی اسکیموں میں کی گئی تھی۔

قومی بچت کی سکیموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے ذریعے حکومت اپنے بجٹ کی ضروریات کو پوری کرتی ہے، ان سکیموں میں ہونے والی سرمایہ کاری پر حکومت سرمایہ کاروں کو ہر ماہ منافع دیتی ہے۔ تاہم اس سال ان سکیموں پر شرح منافع میں کمی کی گئی جو ماہرین معیشت کے نزدیک ان سکیموں میں کم سرمایہ کاری کی ایک وجہ ہے۔

اس کے ساتھ فنائنشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط کے تحت ان سکیموں میں لگائی جانے والی رقم کے بارے میں جانچ پڑتال بھی ان میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں حوصلہ شکنی کا باعث بن رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ‘سیوینگز ٹو جی ڈی پی’ یعنی قومی بچت کی مجموعی قومی پیداوار میں شرح خطے میں کم ہے جو گذشتہ مالی سال میں اس سے پہلے سال کے مقابلے میں تقریباً 14 فیصد کے قریب رہی۔ تاہم اس سال اب تک بچت اسکیموں میں آنے والی کم سرمایہ کاری کی وجہ سے اس کے دوبارہ نچلی سطح پر جانے کا خدشہ ہے

یہ بھی پڑھیے

بیرون ملک پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں لانے کی سکیمیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

سرمایہ کاری: نوجوانوں کے پاس ’کمیٹی‘ ڈالنے سے زیادہ بہتر آپشن کیا ہیں؟

اپنا کاروبار کرنے کے خواہشمند نوجوان درکار سرمایہ کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں؟

قومی بچت کی سکیمیں

پاکستان میں وزارت خزانہ کے ذیلی ادارے ‘مرکز قومی بچت’ کے تحت ایسی سکیمیں چلائی جاتی ہیں جن میں ایک خاص مدت کے لیے رقم لگا کر ان پر منافع حاصل کیا جاتا ہے۔ ان سکیموں کے ذریعے نہ صرف بچت کو فروغ دیا جاتا ہے بلکہ حکومت اپنے بجٹ خسارے اور انفراسٹرکچر منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس رقم کو استعمال کرتی ہے۔

مرکز قومی بچت کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق یہ ادارہ ملک میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس میں سرمایہ کاری کی کل مالیت اس وقت تین ہزار ارب روپے سے زیادہ کی ہے اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد ستر لاکھ سے زیادہ ہے۔ ملک بھر میں مرکز قومی بچت کی 376 شاخیں موجود ہیں۔

قومی بچت کی سکیموں میں ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس، بہبود سیونگز سرٹیفکیٹس، ریگولر انکم سرٹیفکیٹس، سپیشل سیونگز سرٹیفکیٹس، پرائز بانڈز اور کچھ دوسرے مالیاتی سرٹیفکیٹس شامل ہیں۔ ان میں ایک خاص مدت کے لیے سرمایہ کاری پر منافع دیا جاتا ہے جو مختلف سرٹیفکیٹس پر مختلف شرح سے دیا جاتا ہے۔ ان میں بیواؤں اور بزرگ افراد کو خصوصی رعایت حاصل ہے اور ان کے لیے جاری کیے گئے سرٹیفکیٹس پر دوسروں کے مقابلے میں شرح منافع تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔

قومی بچت سکیموں میں ہونے والی سرمایہ کاری

اس مالی سال کے پہلے دو ماہ میں قومی بچت کی سکیموں میں ہونے والی سرمایہ کاری سات ارب روپے سے کچھ زیادہ رہی جو ایک مہینے میں اوسطاً ساڑھے تین ارب روپے بنتی ہے۔ ایک مہینے میں اوسطاً ساڑھے تین ارب کی سرمایہ کاری گزشتہ مالی سال میں ایک ماہ میں اوسطاً 30 ارب روپے سے بہت زیادہ کم ہے۔

گذشتہ مالی سال میں قومی بچت کی سکیموں میں مجموعی طور پر 370 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جب کہ مالی سال 2018-19 میں ان سکیموں میں مجموعی طور پر 307 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ گذشتہ مالی سال میں بچت اسکیموں میں آنے والی زیادہ سرمایہ کاری کی وجہ سے ملک کی سیونگز ٹو جی ڈی پی شرح 13.9 فیصد تک بڑھ گئی تھی، تاہم اس سال میں ان سکیموں میں آنے والی کم سرمایہ کاری کے باعث ملک کی سیونگز ٹو جی ڈی پی شرح کے نیچے جانے کا امکان ہے۔

قومی بچت کی سکیموں میں کم سرمایہ کاری کی وجوہات

قومی بچت کی سکیموں میں کم سرمایہ کاری کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا اس کی ایک بڑی وجہ تو ان سکیموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر دیے جانے والے منافع کی شرح میں کمی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے لیے اس میں زیادہ کشش نہیں ہے۔ حکومت نے شرح سود میں کمی کے بعد ان سکیموں میں سرمایہ کاری پر دیے جانے والے منافع پر بھی کمی کر دی تھی۔

ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کی مجموعی شرح ان اسکیموں پر دیے جانے والے نفع کی شرح سے کم ہے جس کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کم آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا لوگ پیسہ اس لیے لگاتے ہیں کہ انہیں اچھا منافع ملے لیکن حکومت کی جانب سے ان اسکیموں پر لگائی جانے والی رقم پر جب کم منافع ملے گا تو وہ لازماً سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ اس کے ساتھ اس منافع پر لگایا جانے والا ٹیکس بھی لوگوں کو اس سرمایہ کاری سے روک رہا ہے کہ جب آپ کو منافع پر ٹیکس دینا پڑے گا تو پھر بہت کم سرمایہ کاری اس شعبے میں آئے گی۔

انہوں نے کہا قومی بچت سکیموں میں کم سرمایہ کاری کو معیشت کے مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے جب ہر قسم کی سرمایہ کار ی رکی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں سرمایہ کاری زیادہ آئے۔ معیشت پر غیر یقینی صورت حال طاری ہے جو تمام شعبوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔

ڈارسن سیکورٹیز میں معیشت کے تجزیہ کار یوسف سعید نے کہا کہ دوسری وجوہات کے علاوہ قومی بچت سکیموں میں ہونے والی کم سرمایہ کاری کی ایک اہم وجہ اداروں کی جانب سے ان میں سرمایہ کاری پر پابندی ہے جو حکومت نے کچھ عرصہ پہلے نافذ کی ہے۔

وزارت خزانہ میں ڈیبٹ آفس کے ڈائریکٹر جنرل عبد الرحمن وڑائچ نے کہا کہ حکومت نے اداروں کی جانب سے ان سکیموں میں سرمایہ کاری پر پابندی لگا دی تھی تاکہ وہ بانڈ مارکیٹ میں آئیں اور اس میں سرمایہ کاری کریں۔

انہوں نے کہا اس سلسلے میں ایڈجسٹمنٹ کے عنصر کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پہلے ان پر شرح منافع زیادہ تھا تو زیادہ سرمایہ کاری آرہی تھی جو اب کم ہو گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا یہ رجحان عارضی نظر آتا ہے کیونکہ بنکوں اور دوسری جگہوں پر سرمایہ کاری کے مقابلے میں بچت سکیموں میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے نفع کی شرح ابھی بھی زیادہ ہے۔

سٹاک مارکیٹ

ایف اے ٹی ایف کی شرائط کا قومی بچت اسکیموں پر کیا اثر پڑا

قومی بچت سکیموں میں ہونے والی کم سرمایہ کار پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت مزمل اسلم نے کہا کہ اس کی ایک وجہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط بھی ہیں کہ جن میں ان اسکیموں میں لگائی جانے والی رقم کا ذریعہ معلوم کرنے کا کہا گیا کہ سرمائے کے طور پر لگائی جانے والی رقم کہاں سے حاصل کی گئی ہے۔

ان کے مطابق پہلے ایسی کوئی شرط نہیں تھی کہ سرمایہ کاری کرنے پر کوئی ان ذرائع کے بارے میں پوچھتا کہ یہ رقم کہاں سے حاصل کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے قوانین کے تحت ان سکیموں میں لگائے جانے والے پیسے کی جانچ پڑتال بھی کم سرمایہ کاری کا وجہ بنی ہے۔

وزارت خزانہ کے ڈیبٹ آفس کے ڈائریکٹر جنرل عبد الرحمن وڑائچ نے تصدیق کی ہے کہ ایف ٹی اے ایف کے قوانین کے تحت ان سکیموں میں لگائے جانے والے پیسے کی جانچ پڑتال کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق ان سکیموں پر اس سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کوئی نگرانی نہیں ہوتی تھی۔

انہوں نے کہا اب اگر کوئی قومی بچت میں اکاؤنٹ کھول رہا ہے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ اس کا ذریعہ آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی بھی اس سلسلے میں بن رہی ہے کہ جو اس سلسلے میں قوانین بنائے گی۔

وڑائچ کے مطابق ایف ٹی اے ایف کی شرائط کے تحت قومی بچت سکیموں پر نگرانی سے وقتی طور پر تو سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی تاہم یہ مستقبل کے لیے ایک اچھا اقدام ہے تاکہ اس کے ذریعے مشکوک پیسے کے استعمال کو روکا جا سکے۔

بچت سکیموں میں کم سرمایہ کاری سے حکومت پر کیا اثر پڑ رہا ہے

بچت سکیموں کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کو حکومت اپنی بجٹ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ دو ماہ میں آنے والی کم سرمایہ کاری کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے وڑائچ نے کہا کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ حکومت اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے بانڈ مارکیٹ سے پیسہ ادھار لے رہی ہے جہاں کم شرح سود کی وجہ سے سستا قرضہ مل جاتا ہے۔

مزمل اسلم نے کہا بینکوں سے حاصل کیا جانے والا قرضہ کم شرح سود کی وجہ سے سستا ہے اس لیے حکومت کو بچت سکیموں سے حاصل ہونے والے کم سرمائے کی وجہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp