کشمیر کے اراضی قوانین میں ترمیم، کیا بھارتی حکومت آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے؟


نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے علاقے کے اراضی قوانین میں حال ہی میں کی گئی ترامیم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے پیر کو جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر ردّوبدل کی ہے اور تمام بھارتی شہریوں کو علاقے میں اراضی خریدنے اور دیگر غیر منقولہ جائیداد کا مالک بننے کا اہل بنا دیا ہے۔

ترمیم شدہ قوانین کے تحت زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس پر تعلیمی ادارے، اسپتال اور دیگر طبی سہولیات کے لیے تعمیرات کی جا سکتی ہیں۔

نئے قوانین کے مطابق زمین کے مالک کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ وہ اپنی زرعی اراضی کسی غیر کاشت کار کو بھی فروخت کر سکتا ہے یا اس کا تبادلہ کر سکتا ہے۔ جس کے بعد زمین لینے والا شخص اس اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سرینگر اور جمّوں میں گزشتہ چار روز سے مسلسل احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کا اہتمام مختلف سیاسی جماعتیں، جو مقامی اصطلاح میں ‘مین اسٹریم پارٹیز’ کہلاتی ہیں، کر رہی ہیں۔

بھارتی کشمیر: نئی میڈیا پالیسی کے خلاف صحافیوں کا احتجاج

جمعرات کو پولیس نے کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران علاقائی جماعت ‘پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی’ (پی ڈی پی) کے درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ پولیس نے پارٹی کے صدر دفاتر کو، جہاں سے انہوں نے ایک جلوس نکالنے کی کوشش کی تھی، عارضی طور پر سیل کر دیا ہے۔

نئے اراضی قوانین کے خلاف وہ جماعتیں بھی احتجاج کر رہی ہیں جو بھارت کے حکومتی حلقوں کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں پروفیسر بھیم سنگھ کی ‘نیشنل پینتھرس پارٹی’ اور حال ہی میں تشکیل دی گئی ‘جمّوں و کشمیر اپنی پارٹی’ بھی شامل ہیں۔

آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرنے کا الزام

جموں و کشمیر کی بعض سیاسی جماعتوں نے نئے زرعی قوانین کو بھارتی حکومت کی اُن کوششوں کی تازہ کڑی قرار دیا ہے جن کا مقصد “ریاستی عوام کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے اور مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کا تناسب کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔”

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے اتحاد ‘کُل جماعتی حریت کانفرنس’ (میر واعظ عمر فاروق دھڑے) نے بھارتی حکومت کے اقدامات کے خلاف ہفتے کو عام ہڑتال کی اپیل کی ہے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ایک سال: کشمیر کے صحافیوں نے کیا دیکھا؟

یاد رہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جمّوں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرتے ہوئے اسے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کا درجہ دیا تھا۔

اس اقدام سے قبل ریاست میں رائج قوانین کے تحت ہر قسم کی اراضی اور غیر منقولہ جائیدادوں پر صرف جموں و کشمیر کے پشتنی یا مستقل باشندوں کو ہی مالکانہ حقوق حاصل تھے اور وہی اس کی خرید و فروخت کر سکتے تھے۔

محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کا “فیصلہ کُن لڑائی” لڑنے کا اعلان

جمّوں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے بھارت کی وفاقی حکومت کے خلاف “فیصلہ کن لڑائی” لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جمّوں و کشمیر کے بارے میں گزشتہ 15 ماہ کے دوران اٹھائے گئے ہر “غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام” پر مزاحمت کریں گے۔

محبوبہ مفتی نے جمعرات کو سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ کسی کو بھی جمّوں و کشمیر کی زمین اور وسائل کو لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گی۔

“ہم خاموش نہیں رہیں گے بلکہ ہر ممکن کوششں کریں گے۔ تاکہ کوئی بھی ہماری زمین اور وسائل کو ہم سے چھین نہ سکے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، چاہے ہمیں کسی بھی حد تک جانا پڑے۔”

سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی (فائل فوٹو)
سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی (فائل فوٹو)

محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارت چین کے خلاف بات بھی نہیں کر رہا جس نے حال ہی میں اس کے 20 سے زائد فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان کے بقول لداخ میں زمین کے ایک وسیع حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بھارتی حکومت اپنی طاقت صرف کشمیریوں پر آزما رہی ہے۔ انہوں نے نریندر مودی کی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ “اگر آپ واقعی اتنے طاقت ور ہیں تو چین کے خلاف اپنی طاقت کا استعمال کریں جس نے لداخ میں زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔”

کاش ہم پہلے متحد ہوئے ہوتے: عمر عبداللہ

سابق وزیرِ اعلیٰ اور ‘نیشنل کانفرنس’ کے نائب صدر عمر عبداللہ نے سرینگر میں اپنی جماعت کے کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا “اگر جمّوں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں پہلے متحد ہو جاتیں تو انہیں یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔”

“وفاقی حکومت نے کشمیریوں کو کمزور اور تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اب ہماری لڑائی اپنے، اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کے دفاع کے لیے ہے۔”

عمر عبداللہ (فائل فوٹو)
عمر عبداللہ (فائل فوٹو)

عمر عبداللہ کے مطابق “نئی دہلی کی حکومت کے حملوں کے خلاف لڑائی ایک ہفتہ یا ایک مہینے کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ اس عمل کے دوران کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، کوئی نہیں جانتا۔”

پاکستان کی جانب سے اراضی قوانین میں ترمیم مسترد

پاکستان نے بھی جمّوں و کشمیر کی اراضی کے قوانین میں ترامیم کو مسترد کیا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو “انتہائی قابلِ مذمت” اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، پاکستان اور بھارت کے مابین دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھارت پر الزام لگایا کہ “5 اگست 2019 کو بھارت کی غیر قانونی اور یک طرفہ کارروائی اور اس کے بعد کے اقدامات، بالخصوص ڈومیسائل قانون اور اب زمین کی ملکیت کے قوانین میں ترامیم کا مقصد کشمیر کے آبادی کے تناسب کے ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہے۔”

'کشمیر پر پاکستان کی سفارت کاری کمزور رہی'

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس ڈھانچے کو تبدیل کرنا “چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی اور ایک جنگی جرم ہے۔”

دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات نہ تو کشمیر کی متنازع حیثیت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیری عوام کے ناقابلِ تردید خود ارادیت کے جائز حق کو دبا سکتے ہیں۔

پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کو آبادی کے تناسب کے تغیر اور کشمیر کی منفرد شناخت کو تبدیل کرنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر کارروائی کرے۔

بی جے پی کا مؤقف

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس الزام کو، کہ اراضی قوانین میں ترمیم کا مقصد جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا اور ریاست کے آبادی کے تناسب کو بدلنا ہے، مسترد کر دیا ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ قوانین کسی بھی شخص کو اپنی زمین اور جائیداد بیرونی افراد کو بیچنے کے لیے مجبور نہیں کرتے۔

بی جے پی کی جمّوں و کشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ نے بتایا کہ کوئی بھی بیرونی شخص جمّوں و کشمیر کے عوام سے ان کی زمینیں نہیں لے گا۔ اگر کوئی اراضی بیچنا چاہتا ہے تو لوگ اسے خرید سکتے ہیں۔

جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی نئی لہر

انہوں نے کہا کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں لوگوں کو اس معاملے پر اکسانے سے باز رہیں۔

جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ نئے اراضی قوانین ملک کے بڑے صنعت کاروں کو جمّوں و کشمیر میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیں گے جس سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی صنعتیں قائم ہوں تاکہ یہاں بھی ترقی ہو اور بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa