سمیع چوہدری کا کالم: ٹیلر کی کہانی کا ’اینٹی کلائمیکس‘


برینڈن ٹیلر
اگر بلے بازی کی بات کی جائے تو پاکستان اپنی توقعات سے ہلکا کھیلا جبکہ زمبابوے اپنی توقعات سے بہتر کھیلا مگر پھر بھی دونوں ٹیموں کے معیار میں خلیج اتنی گہری تھی کہ پاکستان نے ایک یقینی فتح زمبابوے کے منہ سے کھینچ لی اور اسے زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آئی۔

بابر اعظم جب ٹاس جیت کر ڈریسنگ روم لوٹ رہے تھے تو ان کا تخمینہ یہی رہا ہو گا کہ اس وکٹ پر تین سو رنز باآسانی بن سکتے ہیں مگر ان کے اوپنرز شاید کچھ اور ہی سوچ کر میدان میں اترے تھے۔

پاکستان نے پاور پلے میں ہی اتنی احتیاط برت ڈالی کہ زمبابوین بولنگ کی کافی پریشانیاں آسان ہو گئیں۔ یہ وکٹ بھی میڈیم پیسرز کے لیے سازگار تھی کیونکہ اس میں پنڈی کی روایتی پچ والی تیزی نہیں تھی۔ گاہے بگاہے غیر متوازن باؤنس ضرور تھا جسے زمبابوے نے بہت اچھا استعمال کیا۔

شاید امام الحق ڈریسنگ روم سے ہی محتاط ہو کر چلے تھے یا اس باؤنس کی چال بازی سے خائف ہو گئے کہ نئے گیند سے باؤنڈریز بٹورنے کا موقع ضائع کر بیٹھے۔ گو سکور کارڈ میں ان کے نام ایک ففٹی درج دکھائی دے رہی ہے مگر ون ڈے کرکٹ کے حالیہ معیارات کے تحت ان کی ففٹی کچھ سوالات کو جنم دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی بلے بازوں کے رن آؤٹ پر مایوسی بھی، مزاح بھی

زمبابوے کے خلاف سکواڈ میں شعیب ملک، سرفراز جگہ نہ بنا سکے

دورۂ پاکستان کی دعوت پر انگلینڈ کا ’مثبت ردعمل‘

مثلاً ایسی کون سی ناسازگار کیفیات تھیں یا بیٹنگ لائن پر کون سا ایسا بحران طاری تھا کہ جس کے سبب ایک فیورٹ ٹیم کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر 1980 کی دہائی کی کرکٹ کھیلنا پڑ گئی اور ٹیم تین سو کے قابلِ قبول مجموعے تک بھی نہ پہنچ پائی۔

یہ سوال پاکستانی ڈریسنگ روم کے لئے کوئی نیا نہیں ہے، یہ سوال ہر دور اور ہر عہد میں سر اٹھاتا رہا ہے کہ کھلاڑی اپنی بقا کے لیے کھیلے یا ٹیم کی بقا کے لئے۔

شاہین شاہ آفریدی

بہرحال زمبابوے کی بولنگ بھی پاکستانی توقعات سے بہتر نکلی۔ ممبا کے سوا سبھی بولر کنٹرول میں نظر آئے اور سکندر رضا نے بیچ کے اوورز میں وہ کردار ادا کیا جو کبھی محمد حفیظ کی آف سپن پاکستان کے لئے ادا کیا کرتی تھی۔

اس وکٹ پر 282 کا ہدف زمبابوے کے لیے ناقابلِ تسخیر نہیں تھا اور زمبابوین بلے بازوں نے ہمت سے اس کا تعاقب کرنے کی بھی ٹھانی۔ پہلے پاور پلے میں بھی زمبابوے کا رن ریٹ پاکستان سے بہت بہتر رہا۔

شاہین شاہ آفریدی کے لیے مگر یہ وکٹ کچھ زیادہ ہی مانوس ثابت ہوئی جو کچھ ہی دن پہلے اسی گراؤنڈ میں اپنی ٹیم کو نیشنل ٹی ٹونٹی چیمپئین شپ کا ٹائٹل جتوا رہے تھے اور اب وہ صرف اپنے ریجن ہی نہیں، اپنی قومی ٹیم کے بولنگ اٹیک کے بھی لیڈر ہیں تو ان کی گیم اپروچ میں اس ذمہ داری کا احساس بھی جھلکتا ہے۔

ساتھ ہی پاکستان کا یہ فیصلہ بھی خوب رہا کہ نئے پیسرز تیار کرنے کی دوڑ میں تجربے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاب ریاض ابھی اس اٹیک کا حصہ ہیں اور جہاں دیدہ گھاگ ’بزرگ‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جہاں بات جوانوں کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے تجربے کی روشنی سے کوئی نہ کوئی راہ سجھا دیتے ہیں۔

زمبابوے کے پاس بھی کچھ ایسا ہی تجربہ موجود ہے جو مڈل آرڈر بلے بازوں کے اعداد و شمار میں جھلکتا ہے۔ ان کی اوسط دیکھ کر کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ اچھے بلے باز ہیں۔ بدقسمتی ان کی صرف اتنی ہے کہ وہ ایک منتشر اور غیر مستحکم کرکٹ بورڈ کے ملازم ہیں۔

وہاب ریاض ہی کی طرح برینڈن ٹیلر بھی اپنے تجربے کی روشنی میں ٹیم کی کشتی گہرے پانیوں سے نکال کر دھیرے دھیرے ساحل کے قریب لے آئے مگر اچانک دوسرے کنارے پر ان کے ساتھی یکے بعد دیگرے ڈگمگانے لگے اور پھر وہ اس دباؤ میں ایسے کھوئے کہ شاہین شاہ آفریدی کو میچ لے اڑنے کا موقع مل گیا۔

برینڈن ٹیلر کے لیے یہ وہ کہانی ثابت ہوئی کہ جس میں اچانک کسی بیرونی حادثے کے اثر میں سارا منظر ہی بدل جاتا ہے اور اس بدلے ہوئے منظر میں طے شدہ کلائمیکس بھی اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

یہاں بھی برینڈن ٹیلر کی کہانی کا نقطۂ کمال آتے آتے رہ گیا اور شاہین شاہ آفریدی محفل لوٹ چلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp