فرانسیسی معاشرے میں کشیدگی، مسلمان مستقبل کے بارے میں فکرمند


پیرس
فرانس میں تشدد اور مذہبی کشیدگی کے واقعات کے بعد سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی
فرانس میں ایک جریدے کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے خاکے چھاپنے، کچھ مسلمان شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں لوگوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے واقعات اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں کے بیانات کے بعد فرانس میں صورتحال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

جمعرات کو مزید ایک حملے میں فرانس کے شہر نیس میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والی ایک خاتون کا سر قلم کیا گیا جبکہ شہر کے میئر نے اسے ‘اسلامو فاشزم’ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے

فرانس کے مظاہرے ’معیشت کی تباہی ہیں‘

چارلی ایبڈو کی جانب سے پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں کی دوبارہ اشاعت

اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران آزادیِ اظہار، سیکیولرازم اور فرانسیسی معاشرے کی بنیادی اقدار اور مسلمانوں کے رویے زیرِ بحث ہیں۔ کوئی خاکوں کی مزمت کر رہا ہے تو کوئی دہشتگردی کے واقعات کی۔

اس دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور آئے دن دہشتگردی کے حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکت کے نتیجے میں فرانسیسی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف غصے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پیرس

پیرس میں بھی پرتشدد واقعات کے بعد خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں

پیرس میں صحافی یونس خان نے بتایا کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کے معاملے پر ایک ٹیچر کے قتل کے بعد فرانس کی حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

‘تین مساجد کو بند کیا گیا ہے، پیرس کے نواح میں ایک مسجد کے امام کو گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات پر تنقید کی تھی۔ سو سے زیادہ مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں، 50 سے زیادہ مسلم تنظیموں کی فنڈنگ کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک پاکستانی مسجد ہے جس کا نام مسجدِ قبا ہے اس پر 75 ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے کیونکہ اس کے امام غیرقانونی طور پر فرانس میں رہ رہے تھے۔’

اس ساری صورتحال کی وجہ سے مسلمانوں اور حکومت کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں میں عدم تحفظ اور احساسِ بیگانگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

فرانس کے سرکاری اعدا و شمار کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

یونس خان نے بتایا کہ جن عام لوگوں سے انھوں نے بات کرنے کی کوشش کی ان میں سے اکثر ڈرے ہوئے تھے اور انھوں نے کچھ کہنے سے گریز کیا۔

پیرس

فرانس کے تعلقات کئی اسلامی ملکوں سے کشیدہ ہو گئے ہیں

‘جن چند لوگوں سے میری بات ہوئی انھوں نے خاکے بنانے اور اس کے جواب میں تشدد کی بھی مذمت کی۔ لوگ کہتے ہیں کہ فرانس کے دوسرے شہریوں کی طرح مسلمان بھی عام سے اور امن پسند لوگ ہیں لیکن پیغمبرِ اسلام کے خاکے بنانے کے ردعمل میں ریڈیکلائزیشن، انتہا پسندی اور عدم برداشت بڑھے گا۔’

یونس خان نے بتایا کہ فرانس میں حالیہ واقعات کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی واقعات اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ پیرس کے علاوہ کئی دوسرے شہروں میں مسلمانوں کے خلاف واقعات بڑھے ہیں۔

پیرس کے مضافات میں واقع مسلمان علاقوں میں مجموعی طور پر خوف کی فضا طاری ہے اور مستقبل کے بارے میں لوگوں کو فکر لاحق ہے۔

کچھ ایسے مسلمانوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جنھوں نے جریدے چارلی ہیبڈو پر حملے کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کیا تھا۔

نیس

نیس میں چاقو سے تین افراد کے قتل کے بعد لوگوں نے سوگ منایا اور ان کی یاد میں خاموشی اختیار کی

صحافی یونس خان کے مطابق مسلمان اکثریت والے علاقوں کی نگرانی میں اضافہ کیا گیا ہے اور انٹیلیجنس کا دائرہ بڑھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندر موجود انتہا پسند عناصر کی نشاندہی کریں۔

پیرس کے بعض نواحی علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایسے زیادہ تر علاقے شہر کے شمال میں واقع ہیں۔ ان میں سینٹ ڈینس ، لیل ، گارج سارسل ، ویلر لا بیل ، مرسائی ، مونفرمائی ، کلیشی ، ایوری ، کرائی ، کلیشی سو بوا ، گوسا ویل وغیرہ شامل ہیں۔ ان علاقوں میں بظاہر تو پولیس کی نفری میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے لیکن لوگوں کا خیال ہے کہ سادہ کپڑوں میں اٹیلیجنس اہلکار وہاں پہلے سے زیادہ موجود ہیں۔

25 ستمبر کو ایک نوجوان نے پیغمبرِ اسلام کے خاکے چھاپنے والے جریدے چارلی ہیبڈو کے دفتر کے قریب چاقو سے حملہ کر کے دو افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ حملہ آور نوجوان کا نام علی حسن ہے اور اس کا تعلق پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے علاقے کوٹلی قاضی سے بتایا جاتا ہے۔ وہ پیرس کے شمالی علاقے کے رہائشی ہیں۔

علی حسن نے حملے سے قبل اپنی ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ حملے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ویڈیو میں انھوں نے پاکستان میں ایک مذہبی تنظیم کے رہنما کو اپنا پیر ومرشد بتا کر ان کے لیے ایک نعت بھی پڑھی تھی۔

اسلام آباد

اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کے قریب احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس استعمال کرنا پڑی

پیرس کے شمال ہی میں واقع ایک مسجد کے منتظم راو خلیل نے بتایا کہ مساجد میں پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے کم لوگ آ رہے ہیں کیونکہ نماز کا اہتمام سماجی فاصلے کے اصولوں کے تحت کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جو لوگ بھی آ رہے ہیں وہ ملک کی صورتحال پر پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جو 20 سال سے فرانس میں رہ رہے ہیں لیکن اب اپنے اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔

راو خلیل کے مطابق فرانس میں اگر آپ قوانین کی خلاف ورزی نہ کریں تو کوئی مسئلہ نہیں اور جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے وہ بھی پوری طرح حاصل ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں پر بہرحال ایک دباؤ برقرار رہتا ہے۔ ‘اگر ہمارے بچوں کی پرورش خوف کے ماحول میں ہو گی تو ان کے ذہن بڑے کیسے ہوں گے۔ ہم یہاں ایک آرام دہ زندگی تو گزار سکتے ہیں لیکن ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم ان شعبوں میں آگے نہیں بڑھ سکتے جو ملک کی قیادت کرتے ہیں، پالیسی سازی کرتے ہیں۔’

فلسطین

دنیا بھر کی طرح توہین آمیز خاکوں پر فلسطین میں بھی فرانس کے خلاف احتجاج ہوا

راو خلیل نے بتایا کہ آج کل چونکہ نماز میں بھی کم لوگ ہوتے ہیں اس لیے یہ آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کون نماز پڑھنے آیا ہے اور کون نگرانی کرنے آیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی تقریبات ہوتی ہیں وہاں نگرانی ہو رہی ہے۔

شازیہ گزشتہ نو برس سے فرانس میں مقیم ہیں۔ وہ زیادہ عرصہ پیرس میں رہی ہیں اور اب بھی اپنے تین بچوں اور شوہر کے ساتھ ایک ایسے علاقے میں رہ رہی ہیں جہاں اکثریت مقامی فرانسیسی شہریوں کی ہے۔

ہمارا جب شازیہ سے رابطہ ہوا تو وہ پیغمبر اسلام کی پیدائش کی خوشی کی سالانہ تقریبِ میلاد میں شرکت کر کے آرہی تھیں۔

‘آج میں نے دو محفلوں میں شرکت کی۔ عموماً یہاں ہر سال مسجدوں میں میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں۔ اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے مسجدوں میں نماز کے علاوہ محفل کی اجازت نہیں ہے اس لیے گھروں میں اہتمام کیا گیا ہے۔’

شازیہ نے بتایا کہ نو برسوں میں انھوں نے اس قسم کے واقعات پہلے بھی دیکھے ہیں۔ ‘لیکن میں کہوں گی کہ بحیثیت شہری ایسی صورتحال نے پہلے کبھی میری، میرے شوہر اور بچوں کی زندگی کو متاثر نہیں کیا۔ یہاں میں اپنا سر ڈھانپتی ہوں ایسی خواتین ہیں جو سر سے پاؤں تک خود کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ جب وہ روز اپنے بچوں کو سکول لینے جاتی ہیں تو ایسی عورتیں وہاں ضرور ملتی ہیں جو عبایا پہنتی ہیں، مرد آتے ہیں جو ٹخنوں سے اوپر اپنی پینٹ پہنے ہوتے ہیں انھوں نے داڑھی رکھی ہوتی ہے۔

‘میں نے کبھی کسی فرانسیسی کے لہجے میں اپنے خلاف تعصب محسوس نہیں کیا۔ کم از کم میرا ایسا تجربہ نہیں ہوا۔’

شازیہ نے بتایا کہ پیرس میں حالیہ واقعے کے بعد ابھی تک کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہوا جس میں انھیں کسی نے روکا ہو یا کسی بھی لحاظ سے متاثر کیا ہو۔

‘یہاں مسلمانوں کو بھی اتنی ہی برابری میسر ہے۔ آپ سفر کر رہے ہیں کسی نے کوئی جملہ کسا تو دنیا کے کسی اور ملک کی طرح یہاں بھی آپ کو اردگرد کے لوگوں سے مدد ملتی ہے۔ میں مغربی لباس نہیں پہنتی۔ کبھی کسی نے ہم سے ایسا برتاؤ نہیں کیا کہ ہم کوئی اور مخلوق ہیں۔ بلکہ اکثر میرے لباس کی تعریف ہوتی ہے۔’

تاہم پیرس کے ایک دوسرے رہائشی اشفاق چوہدری نے بتایا کہ وہ 23 سال سے فرانس میں رہ رہے ہیں لیکن انھوں نے ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

‘لوگ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ کسی دوسرے ملک شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ کئی لوگ اپنے کاروبار کے بارے میں پریشان ہیں۔’

اشفاق چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک تو پہلے ہی کورونا وائرس کی وباء پھیلی ہوئی ہے اور اب یہ نفرت کی وباء پھیل رہی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔

تاہم انھوں نے حالات کے بہتر ہونے کی امید بھی ظاہر کی۔

‘میرے خیال میں فرانس کے زیادہ تر لوگ عقل مند ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کچھ فوری سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔اسی لیے مجھے امید ہے کہ لوگ اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔’

فرانس

دنیا میں احتجاج میں مظاہرین نے صدر میکخواں کی تصویر کو نشانہ بنایا

موجودہ صورتحال کی جڑیں کتنی گہری ہیں؟ یہی سمجھنے کے لیے میں نے برطانیہ کی باتھ سپا یونیورسٹی میں یورپی امور کے استاد اور تجزیہ کار ڈاکٹر افتخار ملک سے بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک لحاظ سے تو یہ ایک تسلسل ہے کیونکہ اگر کچھ عرصے پہلے دیکھیں تو سابق فرانسیسی صدر نیکولس سرکوزی نے اس معاملے پر بات کی تھی۔ سرکوزی کی حکومت سے کچھ عرصے پہلے 90 کی دہائی میں دو لڑکیوں کو شمالی فرانس میں اس لیے سکول سے نکال دیا تھا کیونکہ انھوں نے نقاب پہنا ہوا تھا۔

‘تو خواتین کے پردے سے متعلق ایک تنازع 90 کی دہائی میں دوبارہ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد سرکوزی ہی کے زمانے میں سنہ 2003 میں عوامی مقامات پر کسی بھی قسم کی مذہبی علامت دکھانے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کے بعد نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تو فرانس میں اس تنازع کا ایک پس منظر موجود ہے۔ سرکوزی کے زمانے میں اسلام سے متعلق کچھ باتیں کہی گئیں۔ لیکن موجودہ صدر ایمینوئل میکخواں نے پوری اسلامی دنیا کو ایک طرح سے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا جب انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اسلام بحران کا شکار ہے۔ اس پر دنیا بھر میں جو سنجیدہ لوگ ہیں، لکھنے والے ہیں، اسلامی دنیا پر نظر رکھنے والے اور اساتذہ ہیں ان کے خیال میں میکخواں نے اپنے ملک سے نکل کر پوری اسلامی دنیا کو چیلنچ کر دیا ہے۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق صدر میکخواں کا یہ بیان جس میں پورے اسلام اور اسلامی دنیا کو بحران کی بات کی گئی سرکوزی کے زمانے سے مختلف ہے۔

پاکستان

بہت سے ملکوں میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے

‘سنہ 2015 چارلی ہیبڈو پر جو حملے ہوئے تھے ان کے مقدمے اس سال شروع ہوئے ہیں۔ تو فضا میں دوبارہ سے ایک کشیدگی سی تھی جس کے بعد آپ نے دیکھا کہ چند ہفتے قبل ایک پاکستانی نوجوان نے چاقو سے حملہ کر کے دو لوگوں کو زخمی کیا۔ پھر سکول ٹیچر سیمیوئل پیٹی کو ہلاک کرنے کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد یہ سارا تنازع ابل پڑا۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کے خیال میں اس صورتحال کا ایک پس منظر ہے اور فرانس کا سیکیولرازم جسے وہ اپنی زبان میں ‘لئی ستے’ کہتے ہیں کسی قسم کے تہذیبی اور مذہبی تنوع کو برداشت نہیں کر رہا۔

‘صدر میکخواں یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں فرانس کا یہ جو نظریاتی اور سیاسی نظام ہے اسے بچانا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کو اقلیت تو نہیں کہا جاتا لیکن یورپ کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں فرانس میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے جب بھی تہذیبی انضمام یا فرانس کی سیکیولر اقدار میں ڈھلنے کی بات ہوتی ہے تو اکثر نزلہ مسلمانوں پر ہی گرتا ہے۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق فرانس کا سیکولرازم کچھ عرصے قبل ترکی کے سیکولرازم سے ملتا جلتا ہے جس میں ریاست نے یہ ذمہ داری لے لی تھی کہ کسی بھی قسم کی جو مذہبی علامات ہیں، چاہے وہ لباس کی صورت میں ہوں یا کسی عوامی سرگرمی کی صورت میں، وہ سامنے نہ آئیں۔

‘ترکی میں جب کوئی لڑکی سکارف پہن کر سکول یا یونیورسٹی جاتی تو اسے نکال دیا جاتا تھا۔ تو فرانس میں بھی ریاست نے یہ ذمہ داری لی ہوئی ہے کہ سیکیولرازم کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی تنوع کا اظہار نہ کیا جائے۔ تو سیکیولرازم کے نام پر یہ ایک طرح کی آمرانہ سوچ ہے۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس کی اپنی مسلمان آبادی کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ فرانس کی حکومت نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے کہ وہ سیکیولرازم کو نظریے کو ایک اصول طور پر سختی سے نافذ کرے۔

‘فرانس میں صرف چند سو عورتیں ہی نقاب پہنتی تھیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ اس کو اتنا اچھالا جاتا۔’

فرانس کی اندرونی سیاست

ڈاکٹر افتخار ملک اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ اندرونی سیاست بھی بتاتے ہیں۔

‘فرانس کے اندر انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان میرین لیپین کی پارٹی بہت مضبوط ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ فرانس کے صدر میکخواں اس پارٹی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ فرانس میں دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے لوگوں اور قوم پرستوں کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ فرانس کے روایتی کردار اور سیکیولرازم کے حوالے سے ریاست کے مرکزی کردار کا دفاع کر رہے ہیں۔ فرانس کی الٹرا رائٹ پارٹی جسے نیشنل نیریٹیو پارٹی کہا جاتا ہے اور جس کی رہنما میری لیپین ہیں وہ صدر میکخواں کے لیے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ اس لیے فرانسیسی صدر دائیں بازو کے سخت گیر نظریات رکھنے والوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں یہ کر رہے ہیں۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کا کہنا ہے کہ اس میں قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ایک سیکیولر ملک کا صدر ایک الٹرا رائٹ پارٹی کے ساتھ مقابلے کی کوشش میں سیکولرازم کو آمریت کی شکل میں پیش کر رہا ہے۔

‘تو ایک تو اس کا کچھ تاریخی پس منظر ہے اور دوسرا اس میں سیاسی جماعتوں کی آپس کی سیاست بھی ہے اور مسلمان اس کشمکش کے بیچ میں پھنس گئے ہیں۔’

ترکی

ترکی اور فرانس کے تعلقات بھی خراب ہو گئے ہیں

فرانس کا آبادیاتی ماضی

اس کے علاوہ بعض ماہرین اس صورتحال کو فرانس کے کلونیئل ازم کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ مراکش، الجزائر، سینیگال اور تیونس وہ مسلمان علاقے ہیں جو فرانس کی کالونی رہ چکے ہیں۔ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں فرانس میں رہتے ہیں اور فرانس کی مسلمان آبادی میں اکثریت ان ہی لوگوں کی ہے۔ بہت سے مبصرین کے خیال میں ان لوگوں کی لیے فرانس کی حکمران اشرافیہ کے رویے میں آج بھی اُسی آبادیاتی اور استعماریت والی سوچ کی جھلک نظر آتی ہے۔

اِس میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انتہائی دائیں بازو کی سخت گیر اور نسل پرست جماعتیں شروع ہی فرانس سے ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں ‘یہ بڑی عجیب بات ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس کے سیکیولرازم میں ایسی انتہا پسند جماعتوں کی روایت نے جنم لیا اور یہ روایت فرانس میں باقی یورپی ممالک کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہے۔ اس میں بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ سیکیولرازم معاشرتی تنوع کو اپنے اندر جذب کرنے اور ملک میں موجود چھوٹے مذہبی گروپوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے وہ دائیں بازو کی سخت گیر جماعتوں کے ساتھ مقابلے پر اتر آیا ہے۔’

دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے روابط

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ اس طرح کی سوچ مشرقی یورپ میں تو پہلے ہی بہت مضبوط ہے مثلا پولینڈ اور ہنگری میں حالانکہ وہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔

‘ کیونکہ مغربی ممالک میں جمہوری روایات اور ادارے کافی مضبوط ہیں اس لیے یہ چیز یہاں کھلے عام نہیں ہو سکتی۔ لیکن یورپ کے ہر ملک میں الٹرا رائٹ یا دائیں بازو کے سخت گیر نظریات والی جماعتیں موجود ہیں۔ ان کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کے اندر ایک اتفاق پایا جاتا ہے۔ جرمنی میں ایسی جماعت کا اپنا نام ہے، آسٹریا میں اپنا نام ہے، ڈینمارک اور ہالینڈ میں اپنے اپنے نام ہیں۔ تو ایک لحاظ سے یہ جذبات یورپ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان جماعتوں کے آپس میں بہت قریبی رابطے ہیں۔’

‘آپ دیکھیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن نے اٹلی میں اپنا ایک تھنک ٹینک بنایا ہوا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ ان جماعتوں کو اکھٹا کیا جائے۔ تو میرے خیال میں اس وقت نائن الیون کے بعد سے دیکھا جائے تو یورپ اور شمالی امریکہ کی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کی سخت گیر جماعتیں مضبوط ہو رہی ہیں اور جو مین سٹریم سیاسی جماعتیں ہیں وہ بھی ان جماعتوں کے بیانیے کو اپنے بیانیے میں شامل کرنے پر مجبور ہیں۔’

دوسرا مسئلہ امیگریشن کا ہے جس پر یورپ میں ایک طرح کا اتفاق ہے کہ انھیں اب مزید پناہ گزین نہیں چاہییں۔ تو اسلام، امیگریشن اور قوم پرستی سے متعلق یکساں سوچ والی جماعتیں یورپ بھر میں موجود ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں مسلمان ملوث ہوں چاہے وہ فرانس میں ہو، ہالینڈ یا برطانیہ میں ہو یورپ بھر میں دائیں بازو کی انتہا پسند سوچ میں ایک تحریک پیدا ہو جاتی ہے۔

تاہم یورپ کے رہنما کبھی کبھار ہی اس موضوع پر کوئی بات کرتے ہیں اور احتیاط کے ساتھ بیان دیتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما اور وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے سنہ 2015 میں اپنی ایک تقریر میں ملٹی کلچرل ازم کی بات کی تھی اور اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ملٹی کلچرل ازم کی آڑ میں برطانوی معاشرے میں شامل نہیں ہو رہے۔ مطلب یہ کہ انھوں نے اپنی بات احتیاط کے ساتھ کی تھی۔ لیکن فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں نے تو اسلام اور مسلمانوں کو ہی کھلے عام قصور وار قرار دے دیا ہے۔

رجب طیب اردوگان اور میکحواں

رجب طیب اردوگان اور میکخواں کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ ہوا ہے

مسلمانوں کا ردِعمل

ڈاکٹر افتخار ملک کے خیال میں مسلمانوں کو تشدد یا جارح رویہ اور نہ ہی معذرت خواہانہ رویہ اپنانا چاہیے۔

’اگر مسلمان علیحدہ ہو کر بیٹھ گئے اور قومی سیاست سے ناطہ توڑ کر بیٹھ گئے اور میڈیا میں ہونے والے مباحثوں میں شامل نہ ہوئے تو مسلمانوں کو اس کا نقصان ہو گا۔ مسلمانوں کو برطانیہ کا ماڈل اپنانا چاہیے۔ برطانیہ میں ٹاون سے لے کر قومی سطح تک مسلمانوں کی نمائندگی ہے۔ لندن اور دوسرے شہروں میں مسلمان میئر ہیں، منتخب کونسلر ہیں، یونیورسٹیوں میں مسلمان استاتذہ ہیں، ہر سطح پر بحث و مباحثوں میں مسلمان شامل ہیں۔ تو اسی قسم کا ماڈل اگر دوسرے یورپی ممالک میں ہو تو کہ مسلمان وہاں کی مقامی اور قومی سیاست میں شامل ہوں۔ مسلمانوں کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ جو بھی ادارے ہیں ان میں پیشہ وارانہ طریقے سے اندر آئیں۔‘

’دوسرے یہ کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ انتہائی دائیں بازوں کی قوتوں کی جانب سے اکسانے کی کوشش کے جواب میں اور خاکوں والے معاملے میں بھی تشدد سے جواب دینے کے بجائے جو بھی قانونی ذرائع حاصل ہیں ان کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ تشدد سے یورپ اور امریکہ میں رہنے والوں مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp