کافر عشقم، مسلمانی مرا درکار نیست


گزشتہ اٹھارہ ماہ میں اپنوں اور غیروں سے طعن و دشنام سننے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ لیکن اب کی بار جو پتھر آئے ہیں انہوں نے نہ صرف روح کو تار تار کیا ہے کہ برس ہا برس کے تعلق داروں نے بھرم توڑ دیا ہے۔ پریم رس کا پیالہ پھوڑ دیا، جو مے تھی، بہا دی مٹی میں۔ اور ہمیں سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ بنیادی انسانی حقوق کو کس پلڑے میں تولتا ہے؟

ہمیں پاکستان کے خلاف لکھنے والی لکھاری کے خطاب سے نوازا گیا ہے! سنگ زنی کے بہت سے رنگ دیکھ رکھے ہیں، آج جس تمغے کا اضافہ ہوا ہے، اس کی امید کبھی نہیں تھی!

تھوڑا رنج ہوا، تھوڑی اداسی! پھر یونہی خیال آیا کہ مظلوم کی داد رسی کرنے والے کے دامن میں بھی چنگاریاں تو آیا ہی کرتی ہیں سو غم کیسا! حسینی راستہ محض محرم، سوگ اور مجالس ہی کا نام نہیں، یہ تو خنجر تلے سچ کہنے کا نام ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ہماری ایک مسیحی ڈاکٹر دوست آرزو راجہ کے قصے پہ دل گرفتہ تھیں اور کالج کے پرانے دوستوں کے گروپ میں اپنے رنج کو بار بار بیان کرتی تھیں۔ ان کا خیال تھا باقی دوست مذہب کی جبری تبدیلی جیسے ظلم کو اسی شدت سے محسوس اور سختی سے رد کریں گے۔ لیکن افسوس ایسا ہو نہ سکا۔ آرزو راجہ کی کہانی کو ایک ریپ کی کہانی سمجھا گیا اور ریپ تو مسلمان لڑکیاں بھی ہوتی ہیں سو آرزو راجہ میں ایسی کیا انوکھی بات ہے!

چونکہ ہم اس پہ قلم اٹھانے کی جسارت کر چکے تھے سو انتہائی مودب ہو کر عرض کی کہ یہ محض ریپ کا بھیانک واقعہ نہیں، وطن عزیز میں اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی کی طویل داستان کا ایک خونچکاں باب ہے۔ صرف آرزو راجہ ہی نہیں، بے شمار ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو اس خوف کا سامنا ہے!

کچھ جواب ملاحظہ کیجیے،

” اس میں مذہب کی بات نہیں، یہ عورت اور مرد کی کہانی ہے، مذہب اس میں نہیں دیکھتا کوئی“ (آپ نے تو مذہب کو نیکی کا واحد راستہ بتایا تھا۔ اگر ریپ جرم ہے تو مذہب کی پوٹلی اٹھا کر ایک طرف کیوں کھسک رہے ہیں۔ آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ، مجھے ڈوبتے بھی دیکھ)

” موٹر وے ریپ کیس میں تو کوئی مذہب نہیں تھا“ (موٹر وے ریپ کیس میں آپ نے کون سا تیر مار لیا۔ لاہور پولیس کے سربراہ کی خرافات تو سنی اور پڑھی ہو گی۔ گرفتار ملزم کے باپ کا وہ بیان بھی پڑھ لیا ہوتا جس میں اس نے اپنے گھرانے کی معصوم عورتوں پر ٹوٹنے والی قیامت بیان کی ہے)

”خیبر پختونخوا میں ایک مسلمان لڑکی گھر سے بھاگنے پہ زندہ جلائی گئی تھی“ (اس سے آپ کو دلی طمانیت ہوئی ہو گی۔ کہنا غالباً یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی وحشت کسی گھر بند نہیں ہے۔)

”پھر ہندو اور مسیحی لڑکیاں ہی کیوں مسلمان بنتی ہیں؟“ ہمارا سوال تھا۔ جواب آیا،

” میں نہیں مانتی طاہرہ، اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں“ (ہمارے سر میں پھوڑا نہیں نکلا کہ آپ سے کچھ منوانے کا ارادہ باندھیں۔ ہم نے تو سوال اٹھایا ہے کہ ایک مسیحی بچی کو زبردستی تبدیلی مذہب اور بعد ازاں اکثریتی مذہبی گروہ کے ایک 44 سالہ مخنچو کے پلے باندھنے کا الزام ہے۔ مذہب سے لینا دینا نہیں تو آپ کو ہماری تحریر میں اس ظلم کی نشاندہی ہر تتیئے کیوں لگ رہے ہیں؟)

”ریپ کرنے والے کا کوئی مذہب نہیں، وہ صرف ایک وحشی درندہ ہے“ ایک اور آواز۔ (اگر ریپ کرنے والے کے مذہب کا اس واقعے میں کوئی دخل نہیں تو پھر مذہب کی آڑ میں سیاسی، معاشی اور جنسی مفادات کے بوریے سمیٹنے والے ہی کیوں اچھل کود کر رہے ہیں؟)

مسیحی دوست بولیں،

” پھر مسلمان لڑکیاں کیوں مذہب تبدیل کر کے بوڑھے مردوں سے شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟ اور اگر ریپ مان لیا جائے تو مسیحی اور ہندو لڑکیوں کو مسیحی اور ہندو لڑکے کیوں ریپ نہیں کرتے؟ (مسیحی اور ہندو لڑکوں کو ریپ کے جرم سے ماورا سمجھنا کچھ عجیب دلیل ہے۔ 16 دسمبر 2012 کی رات دہلی کی میٹرو بس میں 23 سالہ لڑکی کو ریپ کرنے والوں کے نام رام سنگھ، مکیش سنگھ، ونے شرما، اکشے ٹھاکر اور پون گپتا بتائے گئے تھے۔ ان میں کوئی نام مسلمان تو معلوم نہیں ہوتا۔ حالیہ برسوں میں #MeToo کی عالمگیر مہم کی وجہ بننے والے ہالی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائن سٹائن نے اکوڑہ خٹک کے مدرسے میں تو تعلیم نہیں پائی تھی۔ ہم کیوں نہیں مان لیتے کہ ریپ کے جرم میں ملوث فرد کی کج رو نفسیات کی تشکیل معاشرے میں طاقت اور اختیار کے سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچوں کا دخل ہوتا ہے۔)

مسیحی دوست نے دلگیر آواز میں بات بڑھائی

” ہر برس سات سو ہندو پاکستان چھوڑ جاتے ہیں لیکن مسیحی کہاں جائیں؟ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ عیسائیوں کو امریکہ بھیج دیا جائے۔ امریکہ تو ہمیں انسانی بنیادوں پہ لے لے گا لیکن کبھی سوچا آپ نے وہاں رہنے والے مسلمانوں پہ کبھی ایسی نوبت آئے تو۔“

جواب کیا ملا،

” دیکھو اچھے برے لوگ ہر فرقے میں ہوتے ہیں، تم یہ نہیں کہہ سکتیں کہ ایک جگہ کے لوگ نیک ہیں اور دوسری جگہ کے برے“

مسیحی دوست نے جواب دیا

” میں بالکل سمجھتی ہوں اور اسی لئے کہہ رہی ہوں کہ تم سب تعلیم یافتہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ“

ہم سے بولے بنا رہا نہ گیا،

” جبری مذہبی تبدیلی سندھ میں بہت عام ہے۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو قبول اسلام کروا کے بہت اجر ملے گا۔ غریب گھرانوں کی ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو اٹھانا بھی آسان ہے کہ ریاست اور پولیس ان معاملات میں حساس نہیں ہیں۔ اغوا اور جبری مذہبی تبدیلی کا ریپ کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں، دونوں میں بہت فرق ہے۔ آپ سب کو اس پہ آواز اٹھانی چاہیے، یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ ذرا سوچو، ہم میں سے کسی کی تیرہ برس کی بیٹی اٹھا لی جائے، ہندو یا مسیحی بنائی جائے اور پھر چھیالیس سالہ آدمی سے بیاہ دی جائے، کیا حشر ہو ہمارا؟

دوستو، یہ انسانی حقوق کے متعلق سوچنے کا وقت ہے۔ اس کرہ ارض پہ بسنے والے ہر انسان کا حق! مذہبی شناخت سے قطع نظر آزادی سے زندہ رہنے کا بنیادی حق! کوئی حرج نہیں اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور اقرار کر لیں کہ اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ”

” طاہرہ، تم ٹھیک کہتی ہو، ایسا سندھ میں بہت ہو رہا ہے، لیکن میں نے پنجاب میں ایسا کبھی نہیں سنا۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔ پورے پاکستان اور پاکستانی قوم کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت ہے آخر؟ (آپ نے واقعی پنجاب میں ایسا نہیں سنا ہو گا۔ شاید اس لئے کہ آپ کی قوت سماعت پر ڈومیسائل کا کاغذ رکھا ہے۔ کسی مقامی پادری سے پوچھ کر دیکھیے گا۔ اور پاکستان کو بدنام کرنے کی اچھی کہی۔ کوئی ملک جرم کے واقعے سے بدنام نہیں ہوتا۔ البتہ جرم کی پیروی میں کوتاہی، سیاسی مصلحتوں کے تحت چشم پوشی اور جرم پر مباحثے میں اپنے مذہبی اور دوسری گروہی تعصبات کا اظہار کرنے سے ضرور بدنام ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے آپ کی زیر نظر دلیل میں یہ سب عناصر واضح نظر آ رہے ہیں۔)

دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ملکوں میں مذہبی اور نسلی تفاوت پایا جاتا ہے لیکن وہاں صرف مجرم کو برا گنا جاتا ہے، پوری قوم کو نہیں ”(اس لئے کہ ترقی یافتہ ملکوں نے شہری کی مساوات کا اصول تسلیم کر رکھا ہے۔ کیا ہمارے ملک نے بھی یہ اخلاقی موقف اختیار کیا۔ ہماری قوم کی بدنامی کے کچھ اور اسباب بھی ہیں۔ اس لئے بیان نہیں کر رہی کہ جو معزز خاتون اپنے صوبے کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے احوال سے بے خبر ہے اس نے رواں برس اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ہلیری کلنٹن کا انٹرویو کہاں سنا ہو گا؟)

ہم نے کہا، ”کسی ترقی یافتہ ملک کی ایک مثال بتائیے جہاں کسی بچی کی جبری مذہب کی تبدیلی ہوئی ہو اور ریاست، عدالت اور پولیس نے سننے سے انکار کر دیا ہو، اور ماں باپ سڑکوں پہ پچھاڑیں کھا رہے ہوں“

” میرا پوائنٹ یہ ہے کہ کچھ علاقوں میں ہونے والے ظلم سے آپ پورے پاکستان کو بدنام نہیں کر سکتے“ وہ بضد تھیں۔

” لیکن یہ تو حقیقت ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ اقلیتیں پاکستان چھوڑ رہی ہیں جیسے اینگلو انڈین اور پارسی چھوڑ گئے“ ہم بولے،

کچھ اور آرا سنیے،

”تم جو مرضی ہے، کہو۔ میں تو بہت لوگوں کو جانتی ہوں جو ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ (“ تم جو مرضی کہو ”، مکالمے کا نہیں، مناظرے کا ڈھنگ ہے۔ یقیناً آپ ہنسی خوشی رہنے والے بہت سے لوگوں ہی کو نہیں جانتیں، آپ نے جوہڑ میں مزے سے بیٹھی بھینسیں بھی دیکھ رکھی ہیں۔)

”طاہرہ خدا کے لئے پاکستان میں بہت اچھی باتیں ہیں۔ ان پہ اچھے اچھے کالم لکھو!“ (لکھنے والے کے لئے موضوعات تجویز کرنا قاری کا کام نہیں۔ یہ اچھے اچھے کالم آپ لکھیے۔ سنا ہے آج کل ایسے “اچھے اچھے کالموں” کے دام بھی مناسب لگ رہے ہیں۔)

دیکھو کوئی بیٹی اپنی ماں کی خرابیوں کی تشہیر نہیں کرتی۔ پاکستان ہماری ماں ہے۔ (مشورے کا شکریہ۔ میں ان بیٹیوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی ماں کی تکلیف اس لئے چھپاتی ہیں کہ سہیلیوں میں ان کی سبکی نہ ہو۔ ایک بات اور، میں پاکستان کی خرابیاں نہیں گنواتی، مادر وطن کو لاحق بیماریاں بیان کرتی ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں، میری تربیت مرض کا علاج ہے، میں مرگ کا جشن منانے والی رودالی نہیں ہوں۔)

” میں ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہوں اور مجھے نا انصافیوں پہ لکھنا ہے، مذہب کو درمیان میں لائے بغیر۔“ ہمارا جواب تھا،

وہ تڑخ کے بولیں،

” اصل میں پاکستان کی خرابیوں کو اچھالنا فیشن میں ہے۔ تم کشمیری، فلسطینی اور چینی مسلمانوں پہ کیوں نہیں لکھتیں؟ آخر کو وہ بھی انسان ہیں۔ (انسانی حقوق کے کارکن تو ہمیشہ کشمیری، فلسطینی اور چینی مسلمانوں پر لکھتے ہیں۔ چینی مسلمانوں سے یاد آیا۔ وزیر اعظم کے خصوصی معاون معید یوسف نے کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے چینی مسلمانوں کے بارے میں وہی“ اچھا۔ اچھا ”کہا ہے جو آپ مجھ سے پاکستانی ہندووں اور مسیحیوں کے بارے میں سننا چاہتی ہیں۔ سنکیانگ کے معاملے پر آپ اپنی حکومت سے نوٹس ملا لیں۔ خدانخواستہ آپ بھی کہیں وطن دشمن نہ ہو جائیں۔)

ہر تعلیم یافتہ شخص ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ہوتا ہے۔ تم مذہب سے بالاتر ہو کے کیوں سوچنا چاہتی ہو؟ (آپ کو غیر تعلیم یافتہ سمجھنا میرے لئے مناسب نہیں۔ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ سے نامعلوم آپ کی کیا مراد ہے؟ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کا پہلا منصب مذہب سمیت ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہونا ہے۔ مجھے تو ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کا فرض معلوم ہے۔ غالبا! ً آپ ”مذہب سے بالاتر“ ہو کر سوچنے کو ”مذہب سے مخاصمت“ سمجھتی ہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 19 جون 2014 ء کو چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں دستور کے آرٹیکل 20 کی تشریح کرتے ہوئے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا۔ اگر مناسب سمجھیں تو اسے پڑھ لیں۔)

اور اگر تم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ہوتیں تو کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے لئے ضرور آواز بلند کرتیں۔ برائے مہربانی اس بات کا جواب دو، کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے لئے تمہارا قلم کیوں نہیں اٹھتا؟

ہم نے سہج سے جواب دیا

” پہلے ہم اپنے گھر میں تو انصاف کر لیں پھر باہر والوں کی باری آئے گی۔ میرے گھر میں لڑکیاں جل مر رہی ہوں اور میں فلسطین پہنچ جاؤں۔ ویسے ایک ذیلی سوال ہے کبھی آپ نے ایران کی جیلوں میں قیدی عورتوں کے منظم ریپ یا سعودی جیلوں میں فیئر ٹرائل کے تمام اصولوں کو روندتے ہوئے شیعہ مسلمانوں کے ملنے والی سزاؤں پر قلم اٹھایا؟“

ایک اور جواب آیا

”ہمارے گھر میں الحمدللہ سب ٹھیک ہے۔ تم قلمکار ہو اور تم bias سے کام لے رہی ہو۔ یہ تمہیں سوٹ نہیں کرتا، تم یہاں رہ کے تو دیکھو!“

“ویسے میں پاکستان ہی میں پیدا ہوئی۔ تعلیم پائی اور بیس برس تک محکمہ صحت سے وابستہ رہی۔ اب بھی ہر تین چار ماہ بعد پاکستان آتی ہوں۔ اور کسی غار میں نہیں رہتی۔ پاکستان کے حالات سے باخبر رہتی ہوں۔”

لیجیے آخری چوٹ آئی،

”ٹھیک ہے، مان لیا، تمہیں پاکستان کے خلاف لکھنا ہے، تمہیں صرف پاکستان کے خلاف لکھنا ہے تمہیں اور دنیا کے متعلق نہیں لکھنا۔ تم چھوٹے افق کی لکھاری ہو۔“

ہمارا جواب بھی سن لیجیے، ”مجھے بھی پاکستان سے اتنی ہی محبت ہے جتنی تم سب کو۔ میں پاکستان کے خلاف نہیں لکھتی بلکہ ان روایات، معاشرت، مذہبی تنگ نظری اور اقلیتوں پہ ان زیادتیوں کے خلاف لکھتی ہوں جو ہمارے وطن پہ بدنما داغ ہیں۔

آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ محب وطن ہیں۔ مجھ میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ آپ لاہور کے ترقی یافتہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے بقیہ پاکستان کے پسماندہ اور کچلے ہوئے طبقے کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتے جبکہ میں پاکستان کو امن و انصاف کا گہوارہ دیکھنا چاہتی ہوں، مذہب اور فرقے کی تخصیص کے بنا۔

پاکستان کے پسماندہ طبقوں پہ لکھنا ان کے حقوق پہ آواز اٹھانا ہے تاکہ بگڑی ہوئی بات بن سکے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اپنے بچے، اپنے بہن بھائیوں یا اپنے کسی پیارے میں کوئی خامی دیکھی جائے تو اس کو سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ کہہ کے نظر انداز نہیں کیا جاتا کہ لاہور میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ میرا ایمان اور میرا سب کچھ پاکستان اور اس میں رہنے والے انسان ہیں، ہر طبقے، ہر فرقے، ہر جنس اور ہر مذہب کے لوگ اور ان میں مساوات!

کسی بھی انسان کی پہچان اس کے تنقیدی شعور critical thinking سے ہوتی ہے، اپنے آپ کو بہلاوے دینے اور طفل تسلیوں سے نہیں! ”

”رہا چھوٹے اور بڑے افق کا لکھاری ہونا، تو ہمیں تو لکھاری ہونے کا دعویٰ ہی نہیں۔ ویسے ایک کافر ناول نگار جین آسٹن نے مرنے سے کچھ پہلے اپنی تحریر کے بارے میں“little bit (not two inches wide) of ivory”کی ترکیب استعمال کی تھی۔ اور اگر آپ نسیم حجازی اور عمیرہ احمد کو بڑے افق کے لکھنے میں شمار کرتی ہوں تو میں اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہوں۔ شعر فہمی عالم بالا معلوم شد“

صاحب، ہم اس مکالمے کے بعد سے سکتے میں ہیں! لیکن ایک سوال ضرور پوچھنا چاہتے ہیں، اگر آپ کے گھر میں مردار پڑا ہو تو اسے آپ پردے کے پیچھے چھپا کے پھول سجا کے اس کا تعفن کم کر کے ہمسایوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے یا اپنے گھر کو اس مردار سے چھٹکارا دلانا چاہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).