دہر میں حضرت علامہ کا چرچا کیا ہے؟


مختلف معاشروں میں افراد و شخصیات کے لیے القابات کا استعمال عام رہا ہے لیکن یہ بالعموم دوسرے لوگ کہتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رواج چل پڑا ہے، جو اتنا نیا بھی نہیں، کہ افراد اپنے نام کے ساتھ خود القابات لکھتے اور بولتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لوگ خود ہی اپنے آپ کو عظیم ترین شاعر اور ادیب قرار دے رہے ہیں۔ تو شاعرانہ تعلی شاعر حضرات کی تو خیر پرانی عادت ہے لیکن صاحبان علم بھی خود کو بلاتکلف مولانا، حضرت، علامہ وغیرہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں یاد آ رہی ہیں۔

شیخ صلاح الدین مرحوم میرے بزرگ دوست تھے۔ شیخ صاحب کا تعلق شہر لاہور کے بہت معروف علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ بہت معروف علمی شخصیت خواجہ عبد الوحید ان کے ماموں تھے۔ خواجہ صاحب پاکستان بننے سے پہلے سال ہا سال تک ایک انگریزی رسالہ کے مدیر رہے تھے۔ شیخ صاحب بتاتے تھے کہ وہ سکول سے چھٹی کے بعد اپنے ماموں جان کے دفتر چلے جاتے تھے کیونکہ وہاں ہندوستان بھر سے رسائل آتے تھے جن کا شیخ صاحب مطالعہ کرتے تھے۔ ایک روز خواجہ صاحب نے شیخ صاحب کو کچھ رسائل دیے کہ وہ گھر جاتے ہوئے راستے میں علامہ علاؤ الدین صدیقی کو دیتے جائیں۔ شیخ صاحب نے ان کے گھر پر جا کر آواز دی تو اوپر کی منزل سے علامہ صاحب کے والد ماجد نے پوچھا کس سے ملنا ہے۔ شیخ صاحب نے کہا علاؤ الدین صاحب سے۔ ان کے والد نے کہا کون علاؤ الدین؟ شیخ صاحب نے انھیں بتایا کہ مجھے خواجہ عبدالوحید صاحب نے بھیجا ہے اور یہی پتہ بتایا ہے۔ میں نے یہ رسالے انہیں دینا ہیں۔ اس پر ان کے والد ماجد نے کہا اچھا تو یوں کہو نا کہ تم علامہ علاؤ الدین سے ملنا چاہتے ہو۔ خیر تھوڑی دیر میں علامہ صاحب نیچے آ گئے تو شیخ صاحب نے کہا تم نے گھر والوں سے یہ کہہ رکھا ہے جب تک کوئی علامہ نہ کہے، جواب نہیں دینا۔ میں ماموں جان کو جا کر بتاؤں گا۔ اس پر علامہ صاحب نے شیخ صاحب کی بہت منت سماجت کی کہ اپنے ماموں جان کو یہ بات مت بتانا اور ان کو چائے پلائی اور ساتھ خطائیاں بھی کھلائیں۔ دروغ بر گردن راوی، سنا ہے وہ ٹیلی فون پر بھی یہی کہا کرتے تھے، علامہ علاؤالدین صدیقی سپیکنگ۔

allama aluddin siddiqui

اسی طرح کا ایک واقعہ مولانا عبید الحق ندوی صاحب نے سنایا تھا جو لاہور میں لیک روڈ پر عربی کتابوں کی دکان کے مالک تھے۔ وہ بہت ہی درویش منش انسان تھے۔ گفتگو زیادہ تر پنجابی میں ہی کرتے تھے۔ بتانے لگے کہ ایک دن ملازم نے اندر آ کر کہا، علامہ صاحب ملنے آئے ہیں۔ ندوی صاحب نے سوچا علامہ علاؤالدین صدیقی صاحب تشریف لائے ہیں۔ کہتے میں نے جلدی سے قمیص پہنی اور ننگے پیر ہی بھاگتا ہوا آیا۔ باہر آ کر دیکھا تو احسان الٰہی ظہیر صاحب کھڑے تھے۔ ندوی صاحب نے غصے سے کہا اوئے توں کدوں دا علامہ ہو گیا ایں۔

جب ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو ہم بھی جلوسوں میں جاتے تھے۔ ایک بار پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائی تھیں۔ ایک دن خبر ملی کہ آغا شورش کاشمیری پولیس کے لاٹھی چارج کے نتیجے میں زخمی ہو گئے ہیں۔ میرا دوست تنویر اور میں آغا صاحب کا احوال معلوم کرنے ان کے گھر گئے۔ ابھی ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے کہ ایم انور بار ایٹ لا اور جمعیت علمائے اسلام کے کچھ رہنما بھی تشریف لے آئے۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو ایک مولوی صاحب نے رسیور اٹھایا اور کہا حضرت مولانا اکرم خان بول رہا ہوں۔ یہ بات سن کر میرا دوست اور میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ اگرچہ میں نے توجیہ کرنے کی کوشش کی کہ حضرت شاید انھوں نے دوسری طرف کے شخص کو کہا تھا۔

Ehsan Elahi Zaheer

جب 1970 کے عام انتخابات ہوئے تو ان میں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی صدر مولانا عبد اللہ درخواستی صاحب بھی امیدوار تھے۔ انھوں نے کاغذات نامزدگی پر اپنا نام حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی لکھا تھا اور جو دستخط ثبت فرمائے تھے وہ کچھ اس طرح تھے : حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی صاحب بقلم خود۔ اس زمانے میں ڈپٹی کمشنر ریٹرننگ افسر ہوا کرتے تھے۔ اس نے جب فارم پر نام اور دستخط دیکھے تو سمجھا کہ شاید کسی عقیدت مند نے ایسا لکھ دیا ہے۔ اس نے پوچھا مولانا صاحب کیا یہ آپ کے دستخط ہیں۔ جواب دیا جی الحمد للہ۔ اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آیا۔ اس نے کہا مولانا ایک بار پھر دستخط فرما دیجیے۔ انھوں نے دوبارہ بھی وہی دستخط کیے۔ بیلٹ پیپر پر بھی ان کا نام حضرت مولانا محمد عبد اللہ چھپا ہوا تھا۔

جب سن 1972 میں بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آئین پر مذاکرات ہو رہے تھے تو حکومت نے کچھ دستاویزات اخبارات میں شائع کرائی تھیں۔ ان میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا کوثر نیازی صاحب نے دستخطوں میں خود کو مولانا بھی لکھا ہوا تھا۔

در مدح خود کی ایک اور بہت دلچسپ مثال ذہن میں آ رہی ہے۔ گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں جناب غلام احمد پرویز صاحب کی ایک تحریر ہفت روزہ چٹان میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا،  ”جیسا کہ میں نے اپنی مایہ ناز تصنیف، شاہکار رسالت، میں لکھا ہے“ ۔ اپنی تصنیف کو خود ہی مایہ ناز کہنا اس وقت بھی بہت عجیب لگا تھا۔

ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا ہے۔ طاہر القادری صاحب پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں لیکچرر تھے۔ ابھی انھوں نے پی ایچ ڈی نہیں کی تھی۔ شادمان کالونی کی ایک مسجد میں انھوں نے درس قرآن کا آغاز کیا تھا۔ اس کے دو ایک کتابچے بھی شائع ہوئے تھے۔ ایک روز میں اپنے دو سینئر رفقائے کار ڈاکٹر عبد الخالق اور ڈاکٹر نعیم احمد صاحب کے ساتھ اولڈ کیمپس جانے کے لیے یونیورسٹی کی بس میں سوار ہوا تو سامنے سیٹ پر طاہر القادری صاحب تشریف فرما تھے۔

ڈاکٹر عبد الخالق اور ڈاکٹر نعیم احمد ان کے ساتھ بیٹھ گئے، میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ دونوں دوستوں نے قادری صاحب سے ان کی تفسیر کے متعلق پوچھا تو موصوف نے ایک طرح کی تقریر شروع کر دی۔ کہنے لگے سورہ فاتحہ کی جس قدر تفصیل سے میں نے تفسیر بیان کی ہے امام رازی کے بعد آج تک کسی نے کی۔ میں نے رحمان اور رحیم کے جو معنی بیان کیے ہیں آپ پڑھیں گے تو اش اش کر اٹھیں گے۔

اس قسم کی بوالعجبیاں تو بہت ہیں لیکن پتہ نہیں ان پر ناطقہ سر بگریباں اور خامہ انگشت بدنداں کہنا بنتا ہے یا نہیں۔ یا پھر جون ایلیا کے اس مصرعے ہی سے کام چلا لی اجائے جس میں امروہہ کے سید زادے نے اپنے باپ کی ہجو کہی تھی۔

پھٹی ہوئی ہے دلائی، بنے ہیں علامہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).