کہیں یہ کفر تو نہیں؟


زندگی سالہا سال اپنے اسلوب ایک سے نہیں رکھتی۔ یہی زندگی کا حسن ہے۔ ہر نیا آنے والا دن نئے مسائل لے کر آتا ہے۔ نیا سورج نئے سوالات لئے طلوع ہوتا ہے۔ یہ حضور کے زمانے کا سوال نہیں۔ خلا میں قبلہ رو کس سمت ہو گا؟ وہاں نماز کیسے ادا ہو گی؟ وہاں سجدہ کدھر کیا جائے گا؟ زمین پرے رہ گئی۔ اللہ کا گھر اُدھر رہ گیا۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔

کشور ناہید نے لکھا۔

یقینا یہ لکھا اور کسی زمانہ میں سچ بھی ہوگا۔ لیکن آج بالکل نہیں کہ بھٹو کا نعرہ، خواب میں بھی کوئی دیوار سن لے تو اس کے مکین سڑک پر جلوس بنا دیتے ہیں۔ پنجاب میں جہاں 70ء میں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ کھمبے جیت گئے۔ الیکشن کے ناقابل یقین نتائج ظاہر ہوئے۔ وہاں آج پیپلز پارٹی کیا ہے؟ صرف لالہ موسیٰ سے ایک شائستہ سا انسان قمر زماں کائرہ نظر آتا ہے۔یہ ہے پنجاب کی کل پیپلز پارٹی۔ ہاں!کبھی کبھی ایک آدھ جیالا بھی نظر پڑتا ہے۔ جیسے دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے کے کئی برسوں بعد بھی جنگلوں سے اکا دکا سپاہی نمودار ہوتے رہتے تھے۔ بیچارے برسوں مورچوں میں بندوق سنبھالے بیٹھے رہے۔ نہیں جانتے تھے کہ جنگ تو کب کی ختم ہو چکی۔

لالہ موسیٰ سے اس جیالے نے بھٹو کو شاید دیکھا بھی نہ ہو۔ اگر جنرل مشرف سیاست کے میدان میں پرانے گھاگ سیاستدانوں کا داخلہ روکنے کیلئے بی اے کی شرط نہ لگاتے تو پھر اس فلسفہ پڑھے نوجوان نے کاہے کو سیاست میں آنا تھا۔ خاندان میں امیر کبیر بچے، نوجوان اور موجود تھے۔ یہ صرف ”ڈگری دار“ تھا۔

بی اے کی ڈگری کی شرط بھی بڑی عجیب تھی۔ نوابزادہ نصر اللہ خاں بھی بی اے پاس نہ نکلے۔چکوال سے جنرل مجید ملک بھی بی اے نہ ہونے کے باعث سیاست سے آﺅٹ ہو گئے۔ پھر یہ قمر زماں کائرہ جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ننھا منا دیا جلائے بیٹھے ہیں، کی شناخت محض فلسفہ، شائستگی اور وفاداری ہی نہیں، ایک اہم خصوصیت ان کا گجرہونا بھی ہے۔ بھٹو کے ہاتھوں بوتل میں قید کیا ہوا برادری ازم کا جن جنرل ضیاءالحق کے 85ء کے غیر جماعتی انتخاب نے پھر سے آزاد کر دیا تھا۔

جنرل ضیا کا مدعا بھی یہی تھا۔ بیسویں صدی کے شروع سے گجرات اور اس کے نواح گجروں اور جاٹوں میں اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ گجر برادری اپنے تئیں تفاخر کی اک لمبی داستان رکھتی ہے۔ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ گجر برادری نہیں، اک مسلک کا نام ہے۔ یہ عصبیت اتنی تگڑی ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں لالہ موسیٰ میں تحصیل ناظمین کا ضمنی انتخاب آن پڑا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان دنوں گجرات کے چوہدری کے پاس تھی۔ اس طرح جاٹ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی گجروں کو ہرانے پر تل گئے۔

ان کے حکم یا خوشنودی کی خاطر سیشن ہاﺅس گجرات میں تینوں ضلعی بڑے ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور سیشن جج، سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ کئی روز کی سرتوڑ محنت کے بعد انہوں نے غیر گجر امیدوار کی انتخابی مہم میں جان ڈال دی۔ انتخابی مہم کی آخری رات تینوں یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے،بیشک الیکشن ہم جیت چکے۔ اب صرف یہی ایک اندیشہ ہے کہ صبح کہیں گجروں کی عصبیت نہ جاگ اٹھے۔ پھر اگلی صبح یہی ہوا اور گجر جیت گئے۔

تحصیل ناظمی دوبارہ کائروں کے گھر پہنچ گئی۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والے ہمارے مرشد پروفیسر فضل حسین اپنی تمام تر علمی وجاہت کے باوجود اس عصبیت سے اپنا پنڈ نہ چھڑا سکے۔ ترنگ میں آکر کہا کرتے۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ اب گوالے بھی گجر کہلوانے لگے ہیں۔ سیاست میں گجرات کے گجر نوابزادوں کا اک زمانے تک طوطی بولتا رہا۔ پھر ان کے اقتدار کو شاہ خرچ چوہدری ظہور الٰہی نے چیلنج کر دیا۔ اس وقت سے اب بھی وہاں وہی گجر جاٹ آویزش جاری ہے۔

ہماری سیاسی جماعتیں منشور کی بجائے شخصی اور گروہی اغراض پر چل رہی ہیں۔ اب غریبوں کیلئے روٹی کپڑا مکان نہیں، بریانی کی صرف ایک بوٹی والی پلیٹ رہ گئی ہے۔ اس سے کسی خاندان کنبے کی بھوک نہیں مٹتی۔ صرف ایک بندے کے منہ کا ذائقہ خوشگوار ہوتا ہے۔ تین دہائی پہلے ’اللہ میاں تھلے آ‘ والی نظم لکھنے والے سائیں اختر لاہوری نے کہا تھا۔ ’میرے سوہنے اللہ میاں/ اللہ کردا/ تیرا وی کوئی اللہ ہوندا/ جیہڑا تینوں ووہٹی دیندا / نالے دیندا پتر دھیاں/ میرے سوہنے اللہ میاں / تو ایہناں نوں پالن کارن / ٹڈھ تندوری بالن کارن/ آٹے دال دا بھا جے پچھدوں / ہٹی والا تینوں دسدا / سو وچ ہوون کنہیاں وہیہاں / میرے سوہنے اللہ میاں۔

آج مہنگائی اور غربت ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تعلیم اب ریاست کی ذمہ داری نہیں رہی۔ ریاست اس سے اپنی جان چھڑا چکی ہے۔ تعلیم منڈی میں آن بیٹھی۔ مہنگی اتنی کہ عوام اسے بالکونی پر بیٹھی صرف دور سے دیکھ سکتے ہیں۔ سیڑھیوں کے راستے کوٹھے پر نہیں چڑھ سکتے کہ یہ صرف بھاری جیب والوں کا کام ہے۔ جالب نے کہا تھا۔ ’بیس روپے من آٹا۔ اس پر بھی یہ سناٹا‘۔ صدر ایوب زندہ باد۔ عالم ارواح میں انہیں کوئی جا بتائے۔ اب بیس روپوں میں چالیس کلو نہیں۔ اسی روپوں میں صرف ایک کلو آٹا آتا ہے۔ وہ بھی کبھی بازار سے ملتا ہے۔ کبھی اسی روپے ہاتھ میں پکڑے رہ جاتے ہیں۔

پھر یہی گندم کسانوں سے 1400روپے من خریدی گئی ہے۔ سرکار نے اپنی خرید کے باٹ بھی اپنے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ قدرے بھاری ہیں۔ اغراض اور ضرورتیں بڑی ڈاہڈی ہیں۔ بندہ دشمنوں کی پردہ پوشی پر بھی مجبو ر ہو جاتا ہے۔ 80ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں جب بھٹو کی پھانسی کی ذمہ داری ادھر اُدھر ڈالی جارہی تھی۔ اس مرحلہ پر منو بھائی یہ لکھے بغیر نہ رہ سکے۔ ’جرنیلوں، عدالت اور امریکہ کا تو کوئی دوش نہیں۔ تارا مسیح کو البتہ اختیار تھا۔ اگر وہ چاہتا تو بھٹو صاحب کو پھانسی نہ ہوتی ‘۔ ادھر ہم بھی ساری مہنگائی کا ذمہ دار پرچون فروش کو سمجھ کر اسے غصے سے گھورنے لگتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سورة رحمٰن میں پھلوں کی فہرست بتا کر اپنے بندے سے پوچھتے ہیں۔ ’تم میری کن کن نعمتوں سے انکار کروگے‘۔ اک بھولا سا بندہ اپنا منہ کالم نگار کے کان سے قریب کر کے ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگا۔ جب بھی ڈاکٹر مجھے خوب پھل فروٹ کھانے کی تلقین کرتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اس کا منہ نوچ لوں۔ کہیں یہ کفر تو نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).