قلوپطرہ کے دیس میں ایک گورنمنٹ سرونٹ پر کیا گزری


جہاز نے لینڈ کیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میرے سامنے دنیا کی قدیم ترین تہذیب، فرعونوں کی سرزمین تھی۔ توتن خامن کی سرزمین، دیوتاؤں کی سرزمین، ملکاؤں کی وادی، نیل کی وادی میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ میں چاروں طرف صحرا میں گھرا کھڑا تھا۔ ماسوائے ائر پورٹ کی چھوٹی سی عمارت کے اور کچھ نہیں تھا۔ کوئی سکائی سکریپر نہیں، شاہراہ نہیں، اہرام نہیں، کوئی امڈتا رکتا سبک رفتار طوفان خیز یورشیں کرتا دریا نہیں، کوئی کنار دریا نہیں، ہر طرف صحرا کی ویرانی ہے حد نگاہ تک صحرا پھیلا ہوا ہے اور صحرا کی ریت اڑ رہی ہے۔ میں حیران و پریشان کھڑا ہوں اور وحشت زدہ ہو کر سب کچھ دیکھ رہا ہوں ہوا میں آوارہ برگ صحرا میرے جسم سے ٹکرا رہے ہیں۔ موسم البتہ خنک ہے اور ہوا کے لطیف جھونکے میرے دل و دماغ میں فرحت پیدا کر رہے ہیں۔

میرے اندر وفور شوق اس قدر تھا کہ صحرا اس کے آگے تنگ داماں لگ رہا تھا۔ ”صحرا ہماری آنکھ میں ایک مشت خاک تھا“ کے مصداق مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نیل کے گرد جو دنیا آباد ہے وہ کہاں ہے میرا دل کرتا تھا کہ اڑ کر جاؤں اور اس صحرا کو عبور کر کے دریائے نیل کے کنارے جا کر کھڑا ہو جاؤں اور دیکھوں کہ تہذیبیں کس طرح دریا کی تندوتیز موجوں کی مانند اٹھتی ہیں اور وقت اور سمے کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں اور اپنا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیتی ہیں پھر یا تو صرف آثار رہ جاتے ہیں یا ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں صحرا کی ریت پر نقش پا کی مانند جنہیں وقت کے بگولے ہمیشہ کے لئے آنکھوں سے اوجھل کر دیتے ہیں وقت کی اوٹ سے میں نے دیکھا کہ ان سوچوں اور فکر سے آزاد حسن و جوانی سے بھری کشتیاں بادبان کھولے ہواؤں کے سہارے نیل کی سطح پررواں دواں ہیں۔ حسیناؤں کے قافلے اور کافر اداؤں کے جھرمٹ لیے کروز cruise نیل کا سینہ چیرتے آگے بڑھ رہے ہیں اس طرح کہ ان سے موسیقی کی دھنیں، مسکراہٹیں اور قہقہے چاروں اور بکھر رہے ہیں اور بیلے ڈانسرز نے اپنے کمال فن سے دلوں کو مسخر اور ذہنوں کو مبہوت کر دیا ہے۔

میں انہیں خیالات میں غلطاں تھا۔
”آپ ایک طرف کھڑے ہو جائیں۔“ امیگریشن افسر نے مجھے اشارے سے کہا۔

میں جو اپنے خیالوں میں گم کھڑا تھا، ٹھٹھک کر رہ گیا یہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ میرے پیچھے چلتی قطار بھی ایک لمحہ کے لیے رک گئی۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی کہ مجھے کلیئر کیوں نہیں کیا جا رہا۔

اس نے پاسپورٹ پر ایک جگہ انگلی رکھی اور کہا: ”یہ کیا ہے؟“
وہاں پروفیشن کے خانے میں گورنمنٹ سروس لکھا تھا۔
میں حیران ہوا کہ گورنمنٹ سروس میں کون سی خطرناک بات ہے۔

میں نے اس افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہاں! ”اس میں خلاف قانون کیا ہے اور اس پر اعتراض کرنے والی کون سی بات ہے؟“

اس نے دوبارہ وہیں انگلی رکھی کہ اس کا جواب دو کہ گورنمنٹ سروس کیا ہوتی ہے؟ میں نے انگلش میں بات سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ انگلش کم اور عربی زبان میں بات کرنے پر زیادہ مصر تھا۔ اب مجھے عربی پر کون سی دسترس حاصل تھی۔

وہ کچھ بھی سننے اور سمجھنے کو تیار نہ تھا جب میں اسے گورنمنٹ سروس کے بارے میں مطمئن نہ کر سکا تو اس نے کہا کہ آپ لائن چھوڑ دیں اور ایک طرف کھڑے ہو جائیں۔ میں پریشان ہو کر ایک طرف کھڑا ہو گیا طلعت جو خواتین کی دوسری لائن میں تھی اور ان کا ویزہ سٹیمپ ہونے والا تھا وہ ویزہ سٹیمپ کرانے کی بجائے خود بخود لائن چھوڑ کر واپس میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ ہماری پاکستانی خواتین مصیبت کے وقت خاوندوں کے ساتھ کس طرح سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں یہ بات لکھتے ہوئے شاید میرے تحت الشعور میں بیگم کلثوم نواز کی مثال ہو گی جو ایک گھریلو خاتون تھیں ہمیں ان سے لاکھ اختلافات سہی لیکن جب نواز شریف کو گرفتار کر کے پس دیوار زندان ڈال دیا گیا تو مرحومہ کلثوم نواز گھر سے نکل کھڑی ہوئیں نواز شریف نہ صرف ایک اہم سیاسی شخصیت تھے بلکہ ملک کے منتخب وزیراعظم بھی تھے۔ لیکن ہمارے پیارے محافظوں کی نظر میں اتنے خطرناک قیدی تھے کہ ہوائی جہاز میں بھی حفاظتی تدابیر کے طور پر ان کو سیٹ پر

آہنی زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا کہ وہ کہیں فرار نہ ہو جائیں اس میں بلڈی سولین کے خلاف آپ ان کی نفرت کا اندازہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان کی ذہنی کیفیت کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہیں خوف تھا کہ کہیں نواز شریف جہاز سے فرار ہو کر فضائے بسیط میں نہ گم ہو جائے۔ انتقام اور جبر کے اس ماحول میں اس خاتون نے گھر کی چاردیواری کو خیر باد کہا اور چاردیواری کی دوبارہ حد بندی کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کے لیے پورے ملک کو اپنا آنگن بنا لیا اور خاوند کی رہائی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں ایک روز اسی طرح کی سرگرمی کے نتیجے میں ان کو بمع کار کے کرین کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا جہاں وہ کئی گھنٹے اسی حالت میں ہوا میں معلق رہیں اور اس طرح انٹرنیشل نیٹ ورک پر ایک چیختی چنگھاڑتی خبر بن گئیں۔ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ وقت گزرنے پر تقدیر کے کیا فیصلے ہوں گے اور طلعت کو نہ جانے آگے زندگی میں میرے لیے کتنے دکھ سہنے ہوں گے۔

بہرحال میں نے وہاں پر دو ایک امیگریشن افسروں سے بھی بات کر نے کی کوشش کی۔ لیکن ان سب کا موقف ایک ہی تھا کہ گورنمنٹ سروس کیا ہوتی ہے۔ میں نے تو سوچا تھا کہ امیگریشن افسر میرا پاسپورٹ دیکھتے ہی سلیوٹ کرے گا ویزہ سٹیمپ کرے گا اور پورے عزت و احترام کے ساتھ آگے روانہ کر دے گا۔ لیکن پروٹوکول تو ایک طرف رہا وہ مجھے کلیئر کرنے کو بھی تیار نہ تھا اب خطرہ ہو چلا تھا کہ کہیں رات ہمیں ائرپورٹ پر نہ گزارنی پڑے اس سے قبل ہم جدہ میں تھے نہ وہاں داخل ہوتے ہوئے اور نہ وہاں سے قاہرہ روانگی تک ہم پر کوئی اعتراض ہوا نہ معلوم مصری بھائیوں کے ذہن میں ہمارے بارے کیا شکوک پیدا ہو گئے ہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی

لیکن جب مسئلہ حل ہونا ہوتا ہے تو دیر نہیں لگتی ہم اسی شش و پنج میں کھڑے تھے کہ امیگریشن والے اپنے ایک بڑے افسر کو لے آئے اس خوش فہمی کے ساتھ کہ جیسے انہوں نے ایک اہم کیس پکڑا ہو۔ افسر میرے قریب آیا اس نے پاسپورٹ دیکھا تو پاسپورٹ پر نظر پڑتے ہی پریشان ہو گیا اس نے اپنے سٹاف کی سرزنش کی کہ اتنے عرصے سے تم لوگوں نے ان کو کیوں روکے رکھا اور ساتھ ہی مجھ سے کافی معذرت کی اور مجھے عزت و احترام سے کلیئر کر دیا۔

بغیر سامان چیک کیے نہ ہمارا سامان چیک ہوا نہ ہماری جامہ تلاشی ہوئی اور پھر ہم تھوڑی دیر بعد باہر تھے۔ دراصل ان کمبختوں نے گورنمنٹ سروس کو سیکرٹ سروس سمجھا اور ہمیں سیکرٹ سروس ایجنٹ سمجھا ہوا تھا۔ باہر ہمارے عزیز لینے آئے ہوئے تھے۔ بھائی سرفراز ان کا بیٹا تاجدار اور باجی فہمیدہ اور ساتھ ان کا عرب ڈرائیور۔ الہ میں نے سوچا شاید میں نے غلط سنا ہے دوبارہ پوچھا کہ ڈرائیور کا نام کیا ہے اب کی بار بھی انہوں نے کہا ’اللہ‘ یا الہ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایسا نام بھی یہاں کے لوگ اپنے بچوں کے لئے رکھتے ہوئے نہیں ڈرتے، وہ ڈریں یا نہ ڈریں لیکن میں جتنا عرصہ مصر میں رہا اس سے ڈر کر بات کرتا رہا حالانکہ وہ ایک بھلا مانس نوجوان تھا نہایت فرض شناس اور ہنس مکھ بہر حال وہ سب ہمارے منتظر تھے اور پریشان بھی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کچھ دیر مزید وہ ہمیں روکے رکھتے تو انہوں نے معاملہ پاکستانی ایمبیسی سے حل کروانا تھا۔ کیونکہ لسٹ میں ہمارا نام تھا فلائٹ آ چکی تھی اور سارے مسافر باہر آ کر چلے گئے تھے۔

چنانچہ ہم خوشی خوشی بھائی سرفراز کی رہائش کی طرف روانہ ہوئے اس وقت سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی۔ اور اس کی سنہری اور زرد کرنوں میں ہر چیز خوبصورت لگ رہی تھی۔ مہینہ اگست کا تھا جدہ میں شدید گرمی تھی میں نے اس قدر شدید گرمی کسی اور شہر میں نہیں دیکھی لو کے تھپیڑے منہ پر اس قدر پڑتے تھے کہ آدھے گھنٹے سے زیادہ میرے لیے باہر رہنا مشکل ہو جاتا اگرچہ میں پورے استقلال کے ساتھ گرمی کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بے سود، میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی ائرکنڈیشنڈ سٹور میں کچھ دیر کے لئے بیٹھ جاتا۔

پھر ہمت سمیٹ کے باہر نکلتا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ کسی دوسرے سٹورز میں موجود ہوتا میں نے بھی فیصلہ کر رکھا تھا کہ بے شک سورج سوا نیزے پر آ جائے میں نے شام ہونے تک جدہ شہر کے اہم مقامات کو چل پھر کر دیکھ لینا ہے۔ طلعت گرمی سے اس قدر پریشان تھی کہ اس نے کہا کہ آپ معلوم کریں کہ اگر مصر میں بھی موسم کا یہی حال ہے تو پھر پاکستان واپس جانے کا بندوبست کریں۔ ہم کسی اچھے موسم میں دوبارہ آئیں گے۔

ہم نے مصر رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں موسم بہت اچھا ہے جیسے ہمارے ہاں مری اور ایوبیہ کا ہوتا ہے لیکن طلعت کہتی تھی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سمندر کے ایک طرف اتنی گرمی اور دوسری طرف موسم خوشگوار۔ وہ بہن ہے اس نے تو کہنا ہے کہ کہیں وہیں سے واپس نہ چلے جائیں۔ طلعت ٹی وی پر بھی قاہرہ کا ٹمپریچر چیک کرتی رہی۔

آخرکار قاہرہ جانے کا فیصلہ ہو گیا ہم خدا پر بھروسا کر کے جانب مصر روانہ ہو گئے۔ قاہرہ پہنچے تو موسم واقعی بہت اچھا تھا۔ خنک، ٹھنڈا، دوست دار گاڑی چلی جا رہی تھی۔ جب ہم دریائے نیل کے اوپر پہنچے تو اس وقت سورج کا تھال مغربی افق پر ڈوبنے کو تھا نیل کے دونوں کناروں پر قاہرہ آباد ہے اور دریا شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہا تھا۔ میں نے فلائی اوور سے نیل دیکھا تو قاہرہ واقعی ایک خوبصورت شہر لگ رہا تھا میں نے نیل کے پانیوں سے کہا ایک اجنبی کا سلام قبول ہو کل تفصیلی ملاقات ہوگی میں نے دوسری طرف نگاہ کی تو دور دور تک کروز اور کشتیاں نیل کے پانیوں پر تیر رہی تھیں جن پر ہنستے مسکراتے چہروں کے عکس ابھر رہے تھے نیل ان کی اداؤں اور مسکراہٹوں میں مبہوت سب کچھ صدیوں سے اپنے سینے میں جذب کر رہا تھا۔

میں نے صدیوں پیچھے گھوم کر دیکھا تو قلوپطرہ دکھائی دی جو پانیوں میں ہوا کے دوش پر اپنے ایک بجرے میں سوار چلی آ رہی تھی۔ وہ مجسم حسن لازوال تھی جسے وقت کے غازہ نے مزید حسین بنا دیا تھا۔ کیونکہ جب وقت گزرتا ہے تو ہمارے تخیل میں چیزوں کو اورخوبصورت بنا دیتا ہے قلوپطرہ یہاں کی حکمران تھی نہ صرف اس دیس پر حکمرانی کرتی تھی بلکہ وہ دلوں پر بھی حکمرانی کرتی تھی۔ ہیلن آف ٹرائے کے حسن و جمال کی تعریف میں انگلستان کے عظیم ڈرامہ نگار مارلو نے اپنے ڈرامے ڈاکٹر فاسٹس میں جو الفاظ کہے تھے اس سے دونوں امر ہو گئے۔ ہیلن بھی اور مارلو بھی اور یہ الفاظ قلوپطرہ کے بارے میں بھی مجھے حقیقت معلوم ہو رہے تھے۔

Was this the Face
That launched a thousand ships
And burnt the topless towers of Ilium

حسن کی تعریف کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت الفاظ اور کیا ہوں گے۔ قلوپطرہ کیا نمودار ہوئی کہ نیل کی ایک ایک موج اس کے آگے سرنگوں ہو گئی۔ انہیں پانیوں پر یونانیوں، رومیوں، ترکوں، ایرانیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں نے اپنے نقش پا ثبت کرنے کی کوشش کی لیکن وقت کے پانیوں پر کب کوئی نقش بنا سکا ہے۔ سب نقش محو ہو گئے۔ اب صرف ان کے تذکرے اور داستانیں باقی رہ گئی ہیں ان کے عروج و زوال سے میں نے اندازہ کیا کہ انسان آتے جاتے رہیں گے حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں گی قومیں ابھرتی اور ڈوبتی رہیں گی۔ تہذیبیں پنپتی اور بکھرتی رہیں گی لیکن صرف نیل بہتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).