فرانس میں متنازع خاکے اور ہمارا ردعمل


پچھلے ہفتے فرانس حکومت نے پیرس میں ایک مسجد کو چھ مہینے کے لئے بند کر دیا تھا۔ مسجد انتظامیہ پر الزام تھا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر کچھ ویڈیوز جاری کی تھیں جن میں ایک فرانسیسی استاد سیموئل پیٹی کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ حکومت کا خیال ہے کہ یہ ویڈیوز ہی اس قتل کا سبب بنی ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے سے مسلمانوں کے خلاف حالات کافی کشیدہ ہیں۔ اکاو ن مسلم تنظیمات کی فہرست تیار کی گئی جن پر حکومت پابندی لگانا چاہتی ہے۔

پولیس نے دوسو تیرہ افراد کی فہرست تیار کی ہے جنہیں ان کی انتہا پسندانہ سوچ کی پاداش میں ملک بدر کرنا چاہتی ہے۔ چارلی ہیبڈو میں چھپنے والے پیغمبر اسلام صلی اللی علیہ و سلم کے خاکے فرانسیسی عمارات پرآویزات کر دیے گئے ہیں۔ فرانسیسی عوام کی جانب سے ملک میں موجود ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو تعصب، نفرت اور حکومتی عتاب کا سامنا ہے۔ چند دن پہلے فرانس میں ایک فرانسیسی خاتون کی جانب سے دو مسلمان عورتوں پر چاقو سے حملہ کیا گیا ہے ۔ ان حالات کے محرکات میں پچھلے تیس دنوں میں ہونے والے دو واقعات شامل ہیں

پچیس ستمبر کو پیرس میں موجود ایک پاکستانی نوجوان ظہیر حسن محمود نے گوشت کاٹنے والے ٹوکے سے پیرس میں دو فرانسیسی شہریوں کو زخمی کر دیا تھا۔ ظہیر حسن محمود اس وقت پولیس کی حراست میں ہے اور اس پر دہشتگردی کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح سولہ اکتوبر کو ایک اٹھارہ سالہ چیچن نوجوان عبداللہ نے جغرافیہ اور تاریخ کے سینتالیس سالہ استاد سیموئل پیٹی کو قتل کر کے اس کا سر قلم کر دیا تھا۔ پولیس نے عبداللہ کاپیچھا کیا اور فائرنگ کر کے اسے مار دیا تھا۔

یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب فرانس میں متنازع خاکے بنانے والے میگزین چارلی ہیبڈو پر 2015ء میں ہونے والے حملے کے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اور میگزین نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکے دوبارہ چھاپے۔ جبکہ سیموئل پیٹی کا قتل اس لئے ہوا ہے کہ اس نے اپنی کلاس میں چارلی ہیبڈو کے متنازعہ خاکے دکھائے تھے۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کلاس میں آزادی اظہار رائے پر لیکچر دے رہا تھا

سیموئل پیٹی کے قتل کے بعد ہزاروں فرانسیسی شہری سڑکوں پر آ گئے تھے اور آزاد ی اظہار رائے کے حق میں نعرے لگائے تھے۔ حکومت نے قتل ہونے والے استاد سیموئل پیٹی کو شہید قرار دے کر اسے فرانس کا سب سے بڑا سول و ملٹری ایوارڈ لیجن آف آنر سے نوازا ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے ان واقعات کے تناظر میں بہت سخت تقاریر کی اور بیان دیا کہ وہ اسلامی شدت پسندوں کو چین سے سونے نہیں دیں گے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلام اس وقت بحران کا شکار ہے۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی شدت پسند ہمارے مستقبل پر حاوی ہونا چاہتے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ وہ خاکوں کے معاملے میں پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے انہیں ذہنی مریض قرار دیا۔ فرانس میں پیغمبر اسلام ﷺ کے متنازعہ خاکے مختلف عمارات پر بھی آویزاں کر دیے گئے۔ جس کے نتیجے میں قطر، کویت اور جارڈن کی سپر مارکیٹس سے فرانس کی پراڈکٹس ہٹا دی گئی ہیں۔

اس وقت دنیا بھر کے مسلمان سخت ذہنی کرب میں مبتلا ہیں کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ سے ہر مسلمان کا ایسی قلبی و روحانی تعلق قائم ہے کہ ان کی شان میں ذرا سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ محبت رسول ﷺہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن اگر ان دونوں واقعات کی تفصیل دیکھیں توپہلے واقعے میں ظہیر حسن محمود کا تعلق منڈی بہاؤالدین کے گاؤں کوٹلی قاضی سے ہے اس کی نبی پاک ﷺ سے والہانہ محبت کا اظہار اس کی پچیس ستمبر والی ویڈیو میں ملتا ہے جس میں نعت پڑتے ہوئے وہ اشک بار ہو جاتا ہے۔

اور ویڈیو کے آخر میں کہتا ہے کہ وہ مزاحمت کرنے جا رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب ظہیر کو اتنا علم نہیں تھا کہ جس میگزین کے دفتر پر وہ حملہ کرنے جا رہا ہے اس کی عمارت پچھلے پانچ سال سے وہاں سے منتقل ہو چکی ہے اور جن لوگوں پر اس نے حملہ کیا ہے ان کا اس میگزین اور خاکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح جس چیچن نوجوان نے استاد کا سر قلم کیا ہے اس کی عمر اٹھارہ سال ہے وہ سیموئل پیٹی کو کبھی نہیں ملا تھا نہ ہی اس نے اس کی کبھی شکل دیکھی تھی وہ پیرس سے سو کلومیٹر دور ایک شہر میں رہتا تھا۔ وہ سفر کر کے پیرس آیا سکول کے بچوں کو تین سو یورو دیے اور ان سے پوچھا کہ سیموئل پیٹی کون ہے۔ اس کا پیچھا کیا اور اس کا سر قلم کر دیا۔

دوسری جانب اگر ہم فرانس کی تاریخ اور ان کی ثقافت کا جائزہ لیں تو فرانس نے سیکولر اسٹیٹ بننے میں بڑی تگ و دو کی ہے۔ فرانس نے انقلاب کے بعد بارہ جولائی 1790 ءمیں چرچ سے آزادی حاصل کی اورمذہب کو ریاست کے تابع کیا۔ 1882ء میں سکول اور ریاست کو جدا کیا اور اور عوام پر تعلیم لازم کی۔ سن 1905ء میں چرچ اور ریاست کو جدا کر کے ریاست کو مکمل طور پر سیکو لر ڈکلیئر کر دیا۔ سن 2014ء میں اپنے تمام سکولوں اور سرکاری اداروں میں سے مذہبی علامات تک کو غیر قانونی قرار دیا اسی لیے فرانس میں صلیب یا حجاب وغیرہ پر پابندی کا قانون لایا گیا۔

چارلی ہیبڈو فرانس کا ایک ہفت روزہ میگزین ہے، جو حضرت عیسی علیہ السلام، مسیحیوں کے پوپ، مختلف سیاسی ومذہبی شخصیات کے کارٹون چھاپتا رہتا ہے۔ فرانس چونکہ مذہب کو دیس نکالا دے چکا ہے اس لئے وہ ہمارے جذبات اور احساسات کو سمجھ نہیں سکتا کہ نبی کریم ﷺ کا اسم گرامی سنتے ہی ہمارے دل کی دھڑکنیں کیسے بے قرار ہو جاتی ہیں

دونوں تہذیبوں کے درمیان اتنی بڑی خلیج ہی ہے جو صرف اور صرف مکالمے سے ہی دور ہو سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں جانب کی انتہا پسندی حالات کو اس نہج پر لے آئی ہے۔ بطور مسلمان ہم محبت رسول ﷺ میں انتہا درجے کے جذباتی تو ہیں لیکن نبی مکرم ﷺ کی سب سے اہم تعلیمات یعنی علم مومن کی میراث ہے پر توجہ نہیں دیتے۔ ہمیں بھی اب اپنے احتجاج کا طریقہ بدلنا ہوگا۔ بطور مسلمان ہمیں سوچنا ہوگا کہ انتہا پسندی کے واقعات سے فائدہ ہوتا ہے یا الٹا نقصان؟

جو چارلی ہیبڈو اپنی موت آپ مر رہا تھا اور جو خاکے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ کیا انہی واقعات کے بعد تو وہ خاکے فرانس نے اپنی عمارات پر نہیں لٹکائے اور اگر خدانخواستہ کل کو وہ دیگر اخبارات پر چھاپنا شروع کر دیتے ہیں توہماری حکومتوں کی پالیسی کیا ہوگی۔ کیا صرف دو واقعات نے فرانس میں ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو مشکلات کا شکار نہیں کر دیا۔ ہمیں علم کی دولت اور دلیل کے ہتھیار سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اقوام عالم میں آزادی اظہار رائے کی تعریف متعین کرائے اور ایسے ہر عمل کو جرم قرار دلائے جس میں کسی بھی مذہب، نظریہ کے پیروکاروں کی دل آزاری ہو، دنیا بھرمیں کسی عام شہری کی عزت و شہرت کو زک پہنچانا اور اسے بدنام کرنابھی قابل گرفتاری جرم ہے تو کیا ایسا کوئی قانون نہیں بنوایا جا سکتا کہ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ان کے پیغمبر رحمت للعالمین ﷺ کی ذات پر انگلی اٹھانے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ کسی بھی جانب کے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہ ہو اور دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).