چاند پر پانی موجود ہے


ناسا نے حال ہی میں چاند کی سطح پر پانی کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ ماہرین فلکیات نے چاند کی سطح پر پانی کی موجودگی کے ناقابل تردید ثبوت تلاش کر لیے ہیں جن کی وجہ سے مستقبل میں انسان کی چاند اور خلا کی عمیق گہرائیوں میں کھوج کی شکل اور ہیئت مکمل طور پر تبدیل ہو سکتی ہے۔

چاند پر زمین کی طرح کا کوئی کرہ ہوائی موجود نہیں ہے جو اس کو سورج کی بے رحم روشنی سے بچا سکے۔ اسی لیے ماہرین فلکیات نے ہمیشہ چاند کو ایک خشک اور بنجر ویرانے کی حیثیت دی۔ تاہم جب 1990 میں چاند کے ارد گرد چکر لگاتے ایک خلائی جہاز نے چاند کے قطبین پر مہیب لیکن ناقابل رسائی گڑھوں میں برف کی موجودگی کا اشارہ دیا تو سائنسدانوں نے اپنی توجہ چاند پر برف اور پانی کی موجودگی تلاش کرنے پر مرکوز کر دی۔ 2009 میں انڈیا کے خلائی جہاز چندریان۔1 پر موجود امیجنگ سپیکٹرومیٹر نے چاند کی سطح سے منعکس ہونے والی روشنی میں پانی کے مخصوص سپیکٹرل سگنیچر کی نشاندہی کی لیکن اس وقت سائنسدان یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ یہ واقعی پانی کے مخصوص سپیکٹرل سگنیچرز ہیں۔

اب ناسا کی انتہائی حساس ”سریٹوسفیرک آبزرویٹری فار انفراریڈ اسٹرانومی (SOFIA)“ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چاند کی منور سطح پر پانی موجود ہے۔ SOFIA ایک جہاز پر قائم ہے جو 45000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہے۔ ایک انتہائی حساس ”فینٹ آبجیکٹ انفراریڈ کیمرہ فار SOFIA ٹیلی سکوپ (FORCAST)“ نامی آلے کا استعمال کر کے SOFIA نے چاند سے منعکس ہونے والی روشنی میں پانی کے مالیکیولز کی مخصوص طول موج کو تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ پانی صرف چاند کے ٹھنڈے اور تاریک حصوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ شاید اس کی تمام ہی سطح پر موجود ہے۔ SOFIA نے چاند کے کلیوس کریٹر نامی گڑھے میں پانی کے مالیکیول H 2 O کی موجودگی ظاہر کی ہے جو کہ چاند کے جنوبی نصف کرے پر موجود سب سے بڑا گڑھا ہے۔ اس جگہ پر پانی کی موجودگی سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ہر ایک ملین میں 100 سے 412 پانی کے مالیکیولز فی کیوبک میٹر مٹی میں پھنسے ہوئے موجود ہیں۔ واضح رہے کہ زمین کے خشک ترین حصے مثلاً صحرائے صحارا میں بھی اس مقدار سے سو گنا زیادہ پانی موجود ہوتا ہے۔

ابھی تک سائنسدان اس بات سے لاعلم ہیں کہ اتنی قلیل مقدار میں بھی پانی چاند پر کیسے پیدا ہوتا اور اس کی ہوا سے محروم سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھتا ہے۔ ایک کثیف کرہ ہوائی کی غیر موجودگی میں چاند کی روشن سطح سے اس پانی کو خلا میں ضائع ہو جانا چاہیے۔ لیکن یہ نا صرف مسلسل پیدا ہو رہا ہے بلکہ چاند کی سطح میں ٹریپ بھی ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ جب 1969 میں اپالو مشن کے خلاباز چاند سے واپس لوٹے تو چاند کو ایک مکمل طور پر خشک جگہ تصور کیا گیا تھا تاہم بعد کے 20 سالوں میں خلائی مشنز نے چاند کے روشن حصوں پر پہلے برف اور پھر نمی کی نشاندہی کی اور اب SOFIA نے چاند پر پانی کی موجودگی کے ناقابل تردید ثبوت تلاش کر لیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).