افغانستان میں امن عمل: مذاکرات کے دوران سینیئر افغان رہنماؤں کے انڈیا کے دوروں کا کیا مطلب ہے؟


افغان
حالیہ ہفتوں میں کچھ اہم افغان رہنماؤں نے انڈیا کا دورہ کیا ہے جبکہ 12 ستمبر سے دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین وقفے وقفے سے بین الافغان مذاکرات جاری ہیں۔

انڈیا کا دورہ کرنے والوں میں صوبہ بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور، سابق نائب صدر مارشل عبدالرشید دوستم اور افغانستان میں قومی مفاہمت کی ہائی کونسل کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ شامل ہیں۔

سینیئر صحافی سوہاسنی حیدر نے دی ہندو اخبار میں 24 اکتوبر کو لکھا کہ یہ دورے انڈین حکومت کی جانب سے کچھ افغان رہنماؤں کو دعوت نامے کے بعد وقوع پزیر ہوئے ہیں جو اس بات کا ‘اشارہ ہیں کہ انڈیا افغانستان کے اہم پلیئرز کے ساتھ دوبارہ رشتہ اسطوار کرنا چاہتا ہے جن سے حال میں انڈیا کا رابطہ نہیں رہا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں ’القاعدہ طالبان کی صفوں میں شامل‘

انڈیا افغان تجارت کے لیے راستہ، ’ایسی کوئی پیشرفت نہیں‘

انڈیا افغانستان میں اپنی فوج کیوں نہیں بھیجتا؟

افغانستان کے امن اور استحکام کے معاملے میں انڈیا ایک اہم اسٹیک ہولڈر رہا ہے اور اس نے ملک میں امداد اور تعمیر نو کی سرگرمیوں میں تقریبا دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

عبداللہ عبداللہ

یہ افغان قائدین کون ہیں؟

حال ہی میں انڈیا کا دورہ کرنے والے افغان رہنماؤں میں ایسی اہم شخصیات شامل ہیں جنھوں نے طالبان کے خلاف جنگ لڑی ہے۔

جنرل عطا محمد نور افغانستان میں انڈیا کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 21 اکتوبر کو انڈیا میں تھے۔ وہ اسلامی سوسائٹی آف افغانستان (جمعیت اسلمی افغانستان) کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد میں سابق کمانڈر رہے ہیں اور انھوں نے سنہ 1996 میں طالبان کے خلاف محاذ آرائی کی ہے۔

تاہم انھیں 2016 میں صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزارشریف میں انڈین قونصل خانے پر حملے کے دوران انڈیا کے سفارت کاروں کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کے سبب انھیں انڈیا میں زیادہ جانا جاتا ہے۔

ایک نجی ٹیلی ویژن چینل ڈبلیو ای او این کی ویب سائٹ نے 21 اکتوبر کو لکھا: ‘دلچسپ بات یہ ہے کہ نور کا بیٹا خالد نور بین الافغان مذاکرات کے لیے افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہے۔’

ان سے پہلے مارشل عبد الرشید دوستم نے ستمبر میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد ہی بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے تھے۔

افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبد اللہ عبد اللہ کے مابین اقتدار میں شراکت کے معاہدے کے تحت نسلی ازبک جنگجو دوستم کو رواں سال کے شروع میں مارشل کا درجہ دیا گیا تھا۔

ان کے اس دورے کے بعد ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے بھی انڈیا کا دورہ کیا۔ وہ افغان حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مذاکرات کے لیے اعلی مذاکرات کار میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ پانچ روزہ دورے پر چھ اکتوبر کو انڈیا پہنچے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ‘افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد نئی دہلی کا ان کا یہ پہلا دورہ ہے۔’

یہ دورے کیوں ہو رہے ہیں؟

بین الافغان مذاکرات جاری ہیں ایسے میں بااثر افغان رہنماؤں کے انڈیا کے دوروں کو افغانستان میں قیام امن کے لیے علاقائی اسٹیک ہولڈرز تک پہنچنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی ایک رپورٹ میں افغان حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ دورے ‘علاقائی اتفاق رائے اور افغان میں قیام امن کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔’

انڈین روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے بھی کہا ہے کہ یہ دورے ‘نئی دہلی کی کابل میں وسیع قیادت تک پہنچنے’ کا حصہ ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ نے اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے بات چیت کی۔ انھوں نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں انڈیا کے ‘اہم’ کردار کو تسلیم کیا اور انڈیا سے ‘افغان حکومت اور عوام کے لیے مستقل تعاون’ کی امید طاہر کی۔

اس سے قبل سابق افغان نائب صدر دوستم نے انڈیا کے وزیر خارجہ کو بھی ‘افغانستان میں ہونے والی پیشرف’ کے بارے میں آگاہ کیا اور انڈیا کے سکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا سے ملاقات میں افغان معاشرے کے آئینی حکم اور حقوق پر بھی روشنی ڈالی۔

پرنٹ نیوز ویب سائٹ نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عطا محمد نور کا بھی خیال ہے کہ افغانستان کی ترقی کے عمل میں انڈیا ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے امن مذاکرات کا ایک ‘سہولت کار’ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت افغانستان کی صورتحال کافی پیچیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں یہاں انڈیا میں ہوں۔’

طالبان جنگجو

خدشات کیا ہیں؟

چونکہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات میں شدت آرہی ہے اس لیے نئی دہلی اور کابل دونوں نے اپنے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

خطے میں انڈیا کے مفادات اور اثر و رسوخ کا حوالہ دیتے ہوئےبلخ کے سابق گورنر پاکستان کے پیش نظر جاری امن مذاکرات میں نئی دہلی سے مزید ‘فعال کردار’ ادا کرنے کی امید کا اظہار کیا ہے۔

نور نے پرنٹ کو بتایا: ‘امریکیوں کے جانے کے ساتھ ہی پاکستانیوں کو افغانستان میں مزید جگہ مل رہی ہے۔’

انھوں نے بعض طالبان رہنماؤں کے اقتدار میں آنے اور حکومت کا حصہ بننے کے خدشے کا بھی اظہار کیا۔ انھوں نے مزید کہا: ‘اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سنہ 1996 میں جو ہوا اسی جگہ واپس ہو جائيں گے۔ اور صورتحال اس سے بھی بدتر ہو سکتی ہے۔’

انھوں نے انڈیا کو ‘طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے’ کے لیے بھی کہا۔ اور یہ افغان حکومت کے اس موقف کو تقویت پہنچاتی ہے جو نئی دہلی سے اس بات کی امید رکھتی ہے کہ 19 سالوں کے بعد جب امریکی زیر قیادت فوجیں جنگ زدہ ملک چھوڑنا شروع کردیں تو وہ اپنا کردار نبھائے۔

انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغان امن مذاکرات کار عبد اللہ عبد اللہ نے بھی اسی طرح کہا کہ اگر انڈیا نے طالبان سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا تو افغان قیادت کو کوئی خدشات نہیں ہوں گے۔

انڈین میڈیا میںے بھی ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

پرنٹ ویب سائٹ کے مطابق یہ دورے ‘نئی دہلی میں ان خدشات کے درمیان ہوئے کہ طالبان ایک بار پھر اس ملک میں اقتدار سنبھال سکتے ہیں جیسے سنہ 1996 میں ہوا تھا۔’

ان دوروں پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی گیتا موہن نے 21 اکتوبر کو انڈیا ٹوڈے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ‘اگر معاملات طالبان کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو انڈیا کو اس کے لیے تیار رہنا چاہتا ہے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘اگرچہ کابل کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ افغان سرزمین کو انڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن اصل تصویر طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کے اختتام پر ہی واضح ہو گی۔’

اس سے قبل رواں سال کے آغاز میں افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادے نے تجویز پیش کی تھی کہ انڈیا دہشت گردی سے متعلق اپنے خدشات پر براہ راست طالبان سے مذاکرات کرے۔

انڈیا ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی دہلی نے ابھی تک طالبان کے ساتھ رابطے کا کوئی چینل کھولنے کے معاملے پر فیصلہ نہیں کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp