کشمیر: پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں صحافیوں کو 'ہراسانی' اور 'پوچھ گچھ' کا سامنا


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں صحافت کرنا گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد سے بطور خاص خطرناک ہوگیا ہے جب سے مرکزی حکومت نے کشیمر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔

رواں ہفتے اس وقت یہ بات اور واضح ہو گئی جب انڈیا کی انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ ایجنسی نے گریٹر کشمیر اخبار کے دفاتر اور اے ایف پی کے صحافی پرویز بخاری کے گھر کی تلاشی لی۔

انڈیا کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے اس علاقے کے دارالحکومت سری نگر شہر میں مجموعی طور پر نو مقامات پر چھاپے مارے، جن میں غیر سرکاری ادارے (این جی اوز) اور سرکردہ کارکنوں کے مکانات شامل ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ چھاپے ‘معتبر معلومات’ پر مبنی ہیں کہ ان تنظیموں اور لوگوں کو بیرون ملک سے رقوم مل رہی ہیں اور ان رقوم کو مبینہ طور پر ‘علیحدگی پسندی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں’ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’اروندھتی رائے کو فوجی جیپ سے باندھنا چاہیے‘

کشمیر کی صحافت صرف چھ کمپیوٹروں تک محدود

قومی مفاد اور صحافت

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ چھاپے وادی میں اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے پر بڑے پیمانے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کے درمیان ہوئے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں کم از کم 18 رپورٹرز سے پولیس نے پوچھ گچھ کی ہے اور ایک درجن سے زائد افراد کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

پانچ صحافیوں نے بی بی سی کو اپنی کہانیاں سنائی ہیں۔

28 سالہ عاقب جاوید

عاقب جاوید کو ستمبر میں سری نگر کے سائبر پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس چاہتی تھی کہ وہ اپنی تازہ ترین کہانی کی فوٹو اور ہیڈ لائن کو تبدیل کریں جسے انھوں نے نیوز ویب سائٹ، آرٹیکل 14 کے لیے تحریر کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون اس بارے میں تھا کہ کشمیر سے آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد اس کے تعلق سے پولیس کی جانب سے ان کی پوسٹوں پر پوچھ گچھ کے بعد درجنوں کشمیری ٹویٹر صارفین کیونکر خاموش ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ آرٹیکل 370 آئین ہند کے تحت کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کی ضمانت تھی جس کو انڈین حکومت نے گذشتہ سال پانچ اگست کو کالعدم قرار دیا۔

مسٹر جاوید کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کی سٹوری میں اسٹیشن کی غلط تصویر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ‘یرغمال’ ہوں اور ایک نقاب پوش پولیس اہلکار نے انھیں تھپڑ رسید کر دیا۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ الزامات ‘گمراہ کن اور حقیقت کے اعتبار سے غلط ہیں۔’ انھوں نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ مضمون کی سرخی، تصویر اور کہانی کے کچھ پہلو بھی ‘حقیقت میں غلط’ اور ‘گمراہ کن’ ہیں۔

مسٹر جاوید نے بتایا کہ بالآخر انھوں نے اپنے ایڈیٹر کو فون کیا اور ان سے تبدیلیوں کا مطالبہ کیا۔ اصل سرخی ‘دی ریئل سائبر بلی: پولیس ان کشمیر کویسچن ٹویٹر یوزرز’ یعنی کشمیر میں پولیس کی ٹوئٹر صارفین سے پوچھ گچھ’ اس کو بدل کر یہ کر دیا گیا کہ پولیس نے ‘حکومت مخالف پوسٹس’ کےلیے کشمیر میں ٹوئٹر صارفین سے پوچھ گچھ کی۔ آرٹیکل 14 نے سٹیشن کی غلط تصویر استعمال کرنے پر معذرت کی بھی اشاعت کی۔

مسٹر جاوید کہتے ہیں: ‘اگر یہ صرف تصویر کے بارے میں ہوتا تو پولیس ہمیں وضاحت بھیج سکتی تھی اور ہم اسے تبدیل کر دیتے۔

‘جب بھی کسی صحافی کو ہراساں کیا جاتا ہے یا مارا پیٹا جاتا ہے تو کسی کا جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اب اکثر صحافیوں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔’

39 سالہ پیرزادہ عاشق

اپریل میں سری نگر میں پولیس نے قومی روزنامہ دی ہندو میں کام کرنے والے ایک صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف شکایت درج کی تھی۔

مسئلہ یہ تھا کہ پیرزانہ عاشق نے یہ خبر دی تھی کہ حکومت نے دو مبینہ عسکریت پسندوں کی لاشوں کو ان کے اہل خانہ کو باہر نکالنے کی اجازت دی تھی۔ یہ افراد سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوگئے تھے لیکن انھیں بے نام قبروں میں سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔ عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے لاشین اس لیے حوالے نہیں کیں کہ لوگ بڑے پیمانے پر ان کے جنازوں میں شرکت کرتے اور وبائی صورت حال مزید خراب ہوتی۔

لیکن مرنے والوں میں سے ایک کے رشتے دار نے مسٹر عاشق کو بتایا کہ انھیں آخری رسومات کے لیے لاشوں کو نکالنے کی اجازت مل گئی ہے۔ مسٹر عاشق کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اہل خانہ کی جانب سے دی جانے والی درخواست کی ایک کاپی موجود ہے لیکن حکام نے ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

جب کہانی شائع ہوگئی تو پولیس نے کہا کہ یہ ‘جعلی خبر’ ہے اور اس سے ‘عوام کے ذہنوں میں خوف یا خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔’ انہوں نے مسٹر عاشق پر یہ الزام بھی لگایا کہ ‘ضلعی حکام سے اجازت لیے بغیر’ اسے شائع کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کہانی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکام نے ان کے سوالوں کا جواب نہیں دیا ہے۔

بعد میں دی ہندو اخبار نے وضاحت جاری کی کہ اہل خانہ نے قبروں کی زیارت کی منظوری کو غلط طور پر لاشوں کو نکالنے کی منظوری سمجھا۔

لیکن اس وقت تک مسٹر عاشق دو بار پولیس سٹیشن طلب کیا گیا ایک بار سری نگر میں دوسری بار ان کے گھر سے 60 کلومیٹر (37 میل) دور اننت ناگ میں ایک پولیس اسٹیشن میں طلب کیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بے لگام اور دھمکی آمیز سوالات ہو رہے تھے۔ دوسرا دورہ بھی بہت لمبا تھا۔

انھوں نے کہا: ‘وہ بار بار مجھ سے ایک ہی سوال پوچھتے رہے۔ رات کے قریب ساڑھے دس بجے جاکر انھوں نے مجھے جانے دیا۔’

انھوں نے کہا کہ حکام نے مجھے فون کرکے یا ای میل سے مطلع کر دیا ہوتا کہ سٹوری میں تصحیح کرلیں۔ ‘لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ اس عمل کو سزا میں بدلنا چاہتے ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ ابھی بھی موجود ہے۔

‘ان کا کہنا ہے کہ اس میں میرے نام کا ذکر نہیں ہے لیکن وہ اس کیس کو بند نہیں کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جب چاہیں مجھے طلب کرسکتے ہیں۔’

انورادھا بھسین

صحافی انورادھا بھسین

52 سالہ انورادھا بھسین

19 اکتوبر کو حکام نے ایک مقامی اخبار ‘کشمیر ٹائمز’ کے سرینگر کے دفتر کو سیل کردیا جہاں انورادھا بھسین ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔

محترمہ بھسین کا کہنا ہے کہ انھیں دفتر کو بند کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی اور یہ کام پیشگی اطلاع کے بغیر کیا گیا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ ایک ‘دھمکانے والی’ چال ہے۔

پڑوسی خطے جموں میں اس اخبار کے دفاتر اب بھی کھلے ہوئے ہیں، لیکن سری نگر میں عملہ گھر سے کام کر رہا ہے کیونکہ ان کا دفتر حکام نے بند کرا دیا گیا ہے۔

حکام نے بی بی سی کی جانب سے پیش کی گئی درخواست پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

لیکن انڈیا کے ایڈیٹرز گلڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس اقدام کے وادی میں میڈیا پر ‘پریشان کن اثرات ‘ ہوں گے اور خود مز بھسین کا خیال ہے کہ آفس کو سیل کرنا ‘انتقامی’ کارروائی ہے۔

سنہ 2019 میں انھوں نے وادی میں مواصلاتی بندش کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی جب لینڈ لائنز، موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو معطل کردیا گیا تھا اور اس سے میڈیا کوریج شدید طور پر محدود ہو گئی تھی۔

انھوں نے کہا: ‘جب سے میں عدالت گئی اس دن کے بعد سے حکام نے اخبار میں سرکاری اشتہارات دینے بند کردیئے۔’ وہ بیانیہ کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔’

30 سالہ فہد شاہ

فہد شاہ سے اس واقعے کے بعد پوچھ گچھ کی گئی جب انھوں نے مئی میں سری نگر میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین فائرنگ کی اطلاع دی تھی جس میں کئی گھر تباہ ہو گئے تھے۔

مسٹر شاہ ہفتہ وار میگزین اور ویب سائٹ ‘دی کشمیر والا’ کے بانی اور ایڈیٹر ہیں۔

ان کی خبر کے مطابق کم از کم 15 مکانات تباہ ہوگئے تھے۔ اور سائٹ پر شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں مقامی لوگوں نے پولیس پر ان کے گھروں سے زیورات چوری کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

مسٹر شاہ کا کہنا ہے کہ کچھ ہی دن کے بعد پولیس نے ان پر انھیں بدنام کرنے کا الزام لگایا۔

‘جب فائرنگ کا تبادلہ ہوا اس وقت مواصلات کی ساری لائنیں معطل کر دی گئیں تو ہم پولیس سے کیسے رابطہ کرسکتے تھے؟ اور اگر پولیس ان الزامات کا جواب دیتی تو ہم اسے بھی شائع کردیتے۔’

چند ہفتوں کے بعد انھیں ایک دوسرے پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا اور دوبارہ پوچھ گچھ کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ اس بار شکایت میں ان پر ‘جعلی خبروں اور تشدد کو بھڑکانے’ کا الزام لگایا گیا۔

رواں ماہ کے شروع میں مسٹر شاہ کو ایک بار پھر چار گھنٹوں کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کیوں۔

بی بی سی نے پولیس سے بات کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

مسٹر شاہ نے کہا: ‘فون آنا، ہراساں کیا جانا اور پوچھ گچھ ک اب حیرت کی بات نہیں رہی – یہ آہستہ آہستہ معمول بنتا جارہا ہے۔’

26 سالہ مسرت زہرہ

فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کا کہنا ہے کہ ‘اب کوئی بھی بولنے کی ہمت نہیں کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر بہت سارے لوگوں کو جانتی ہوں جنھوں نے صحافت چھوڑ دی ہے کیونکہ انھوں [پولیس] نے [صحافی] برادری میں ایسی فضا پیدا کردی ہے۔’

اپریل میں پولیس نے ان کے خلاف ‘غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت شکایت درج کی تھی اور ان پر ‘مجرمانہ ارادے کے ساتھ ملک دشمن پوسٹیں اپ لوڈ کرنے’ کا الزام لگایا ہے۔

جس پوسٹ پر سوال کھڑا ہوا ہے وہ سنہ 2018 میں انسٹاگرام پر اپ لوڈ کی جانے والی ایک تصویر ہے۔ یہ ایک مذہبی جلوس کی تصویر تھی اور اس میں سوگواروں کو دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ ایک عسکریت پسند نوجوان برہان وانی کا پوسٹر لگائے ہوئے ہیں، جس کی دو سال قبل موت ہوگئی تھی۔

وانی کی ہلاکت سے علاقے میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھڑک اٹھے تھے۔ 22 سالہ نوجوان کو بہت سے مقامی لوگوں کی حمایت حاصل تھی جو وادی میں انڈیا کی حکمرانی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور انڈین سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں اس کی موت نے متعدد افراد کو یہ باور کرایا کہ وہ ان کے مقصد کے لیے شہید ہوا ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ برسوں بعد اس پوسٹ پر محترمہ مسرت کے خلاف مقدمہ کیوں چلایا جا رہا ہے۔ انھیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن کیس ابھی بھی کھلا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے ذہن میں یہ خطرہ برقرار رہتا ہے کہ وہ مجھے کسی بھی وقت حراست میں لے سکتے ہیں۔

‘میرے خیال میں وہ میرے ذریعہ صحافی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے جب ایک لڑکی کو نہیں بخشا تو یہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp