حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے چین کی قانون سازی، دنیا کے لئے مثال


عالمی حیاتیاتی تنوع میں کمی اور انحطاط کے بارے میں پوری انسانیت فکرمند ہے۔ دنیا کے 12 بڑے حیاتیاتی تنوع والے ممالک میں سے ایک کے طور پر، چین کو بعض انتہائی سخت چیلنجوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے ان معاملات کو حل کرنے کے لئے متعدد پالیسیاں وضع کیں ہیں۔

چین کے آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق ”ریاست قدرتی وسائل کے معقول استعمال کو یقینی بناتی ہے اور نایاب جانوروں اور پودوں کی حفاظت کرتی ہے۔“ 1992 میں، چین نے اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کے کنونشن (سی بی ڈی) پر دستخط اور توثیق کی اور متعلقہ ملکی قانونی نظام کو بہتر بنا کر بین الاقوامی کنونشن پر عمل درآمد میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے بعد سے، چین نے ماحولیاتی قوانین کے نفاذ کے لئے نظام کی بہت تیزی سے تشکیل کی ہے :ان میں جانوروں کی وبا کی روک تھام کا قانون 1997، 1998 کا جنگل قانون ( 1998 ء میں ترمیم شدہ) ، سمندری ماحولیاتی تحفظ قانون 1999 (ترمیم شدہ) ، 1998 کا جنگلی جانوروں کے تحفظ کا قانون (نظر ثانی شدہ) ، 2000 کا ماہی گیری سے متعلق قانون (نظر ثانی شدہ) ، 2000 کا بیج سے متعلق قانون، 1994 میں نافذ کردہ نیچر ریزرو ریگولیشن، 1996 میں نافذ کردہ وائلڈ پلانٹ پروٹیکشن ریگولیشن اور 1997 میں نافذ کردہ پودوں کی مختلف اقسام کے تحفظ کے ضوابط۔ شامل ہیں۔

چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ ترقی کے زیر اثر وسائل اور ماحولیات پر دباؤ کے پیش نظر، چین بین الاقوامی امور میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ چین نے بین الاقوامی ذمہ داریاں سنبھالنے، عام ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے اور عالمی اور گھریلو حیاتیاتی تنوع کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں حصہ لینے کے لئے زیادہ فعال رویہ اختیار کیا ہے۔

ان میں 2001 میں جاری زرعی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیاتیات کے انتظام کے تحفظ سے متعلق ضابطے شامل ہیں۔ 2006 میں لاگو کیا جانے والا افزائش مویشی سے متعلق قانون چین میں اپنی نوعیت کا پہلا تھا جس میں واضح طور پر جینیاتی وسائل کو بانٹنے کے فوائد کا ذکر کیا گیا تھا۔ مویشیوں کی افزائش سے متعلق قانون کا باب دوم مویشیوں اور پولٹری جینیاتی وسائل کے تحفظ سے متعلق تفصیلی دفعات فراہم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ، ریاستی کونسل نے 2006 میں خطرے سے دوچار جنگلی نباتات کی درآمد اور برآمد سے متعلق ضابطے کا نفاذ کیا۔ وزارت زراعت اور ریاستی جنگلات کی انتظامیہ نے 2003 میں فصلوں کی اقسام کے وسائل کی حفاظت کے لئے انتظامی اقدامات کا اعلان کیا۔

یہ خصوصی قانونی اقدامات نہ صرف مخصوص علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے قانونی بنیاد فراہم کرتے ہیں بلکہ حیاتیاتی تنوع کے قانونی نظام کے قیام کی بھی بنیاد رکھتے ہیں۔

2012 میں چین نے ایک نئے تاریخی نقطہ آغاز کی حیثیت سے ”ماحولیاتی تہذیب“ مہم کو فروغ دینا شروع کیا۔ 2012 کے بعد سے، چین نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے متعلق 50 سے زیادہ ماحولیاتی قوانین اور قواعد و ضوابط کا نفاذ اور ترامیم کی ہیں۔

بائیوسیفٹی کے معاملات میں، ماحولیاتی تحفظ قانون ( 2015 ) کا آرٹیکل 30، بائیوسفیٹی قانون سازی کے لئے بنیادی دفعات فراہم کرتا ہے۔ بائیو سکیورٹی سے متعلق قانون کے مسودے کا دو مرتبہ جائزہ لیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اسے 2020 کے آخر تک منظور کر لیا جائے گا۔

اجنبی سپیشیز کے حملے کے بارے میں، وائلڈ لائف پروٹیکشن قانون واضح طور پر اجنبی سپیشیز کو متعارف کرانے کے لئے شرطیں طے کرتا ہے۔ سمندری ماحولیات سے متعلق تحفظ قانون، جنگلات کا قانون، فرنٹیئر ہیلتھ اور قرنطینہ کا قانون اور جانوروں اور پودوں کے قرنطینہ کا قانون سب اجنبی نسلوں کو کنٹرول کرنے کے لئے قرنطینہ کے تقاضے طے کرتے ہیں۔

ملک قومی پارکوں کے ساتھ بھی آگے ہے۔ یہاں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے متعلق یونان صوبہ کے پاس کردہ ضابطے کا ذکر بھی قابل ذکر ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے متعلق یہ چین کی پہلی خصوصی مقامی قانون سازی تھی۔ اس کی اہمیت ہے۔

گھریلو قانونی نظام میں بہتری لاتے ہوئے حیاتیاتی تنوع سے متعلق کنونشن کے نفاذ کو فروغ دینا نہ صرف ایک اہم ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے چین کے تصور اور عزم کا مظہر ہے، بلکہ یہ ”بنی نوع انسان کے ہم نصیب مستقبل“ کے فلسفے کے پختہ عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ دوسرے ممالک کو حیاتیاتی تنوع سے متعلق کنونشن کو نافذ کرنے کے لئے ایک اچھا حوالہ فراہم کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).