انقلاب کیوں فراموش ہو گیا؟


قیام پاکستان کے بعد سے وطن عزیز میں طالب علموں کو ایک مضمون بنام ”مطالعہ پاکستان“ پڑھایا جاتا ہے جس میں طالب علموں کو مطالعہ کے نام پر چند واقعات اور ان کی تاریخیں رٹوا دی جاتی ہیں۔ اساتذہ نے بھی اسی طرز پر ”مطالعہ“ کیا تھا اور موجودہ نسل بھی اسی بھیڑ چال کے تحت ”تاریخ پاکستان“ جاننے کی مدعی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طالبعلموں کے اندر سب سے کم پسندیدہ مضمون تاریخی نوعیت کا مضمون ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تلقینی و تقلیدی روش تعلیم نے یونیورسٹیوں، کالجوں اور مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علموں کو سوائے بھیڑ چال کے کچھ بھی نہیں سکھایا اور یہ پڑھی لکھی بھیڑیں یہ نہیں سوچتیں کہ ان کے اپنے زمانے کے لیے کیا ضروری ہے بلکہ یہ سوچتی ہیں کہ ان سے پہلی بھیڑوں نے کیا پڑھا تھا، جبکہ تعلیم کا مطلب آگاہی اور بصیرت کے ساتھ علم حاصل کرنا ہے۔

قرآن مجید کتاب تعلیم و ہدایت ہے اور اس کتاب ہدایت کے اندر ایک بڑا حصہ سابقہ اقوام کی تاریخ ہے۔ ناکام ہے وہ معاشرہ جو بھیڑ چال کے تحت اس تاریخ کو فقط ثواب تک محدود کر دے اور کامیاب ہے وہ انسان اور سماج جو انہی تاریخی واقعات کے اسباب و عوامل کی روشنی میں اپنے زمانے کے اصول دریافت کرے۔ سن 220 اور سن 2020 کا انسان سو فیصد ایک جیسی فطرت رکھتا ہے، اس کی ہدایت کے بنیادی قوانین بھی مشترک ہیں، یہی وجہ ہے کہ تاریخ، قدیم اور موجودہ انسانوں کے مابین ایک علمی رابطے کا کام کرتی ہے۔

تاریخ وہ دریا ہے جس کا ایک سرا ماضی اور ایک سرا مستقبل میں ہوتا ہے۔ درست تعلیمی روش میں فقط تاریخی معلومات اور واقعات کو رٹا نہیں لگوایا جاتا بلکہ تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات کا بلا تفریق سرزمین و مذہب علمی اصولوں کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کیا جاتا ہے تا کہ اس بہتے دریا سے مستفیض ہو کر نسل حاضر کی ہدایت کا سامان مہیا کیا جا سکے۔

اگر ہم صرف بیسویں صدی میں رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں پر نگاہ دوڑائیں تو انقلاب روس، انقلاب چین نمایاں نظر آتے ہیں، اس کے علاوہ کئی بڑی اسلامی حکومتیں ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بدل گئیں، گزشتہ صدی میں افریقی ممالک کے اندر بہت عظیم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اگر گزشتہ صدی کو سیاسی افق پر ایک پر تلاطم صدی کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اسی پر تلاطم زمانے کے آخر میں ایک اور روئیداد انسانیت نے انقلاب اسلامی کی صورت میں دیکھی جو عالمی نقشے پر اپنی نوعیت کی منفرد ترین تبدیلی تھی۔ ماضی قریب کی اس عظیم تحریک کے اندر اتنی گہرائی ہے کہ اس کے تاریخی، سیاسی اور مکتبی پہلوؤں کے تجزیہ و تحلیل کے لیے ایک عمر درکار ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ہمہ جہت انقلاب کو بھی چند واقعات اور معلومات تک محدود کر دیا گیا اور نسل حاضر کے سیکھنے کے لیے اس انقلاب سے وہ رہنما اصول دریافت نہ کیے جا سکے جس کی گنجائش اس دریائے تاریخ کے اندر موجود تھی۔

کسی مفکر نے کہا تھا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر فکری طور پر پست ترین افراد شخصیات پر بحث کرتے ہیں، اس سے بہتر وہ لوگ ہیں جو واقعات پر گفتگو کرتے ہیں اور عظیم افراد وہ ہیں جو نظریات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ انقلاب اور تبدیلی میں بھی بنیادی فرق نظریے کا ہے، آئیڈیالوجی کا ہے۔ نظریات اور آئیڈیالوجی میں دلچسپی رکھنے والے افراد ہی انقلاب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ صرف شخصیات و واقعات میں دلچسپی فکری و شعوری انحطاط کی علامت ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا امتیاز بن چکی ہے۔ اخبارات، کتابوں، رسالوں کے اندر انتہائی سطحی موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے جن کا تعلق نہ ماضی سے ہوتا اور نہ مستقبل سے بلکہ عوام پسندی کے محور میں روز مرہ کے چند واقعات اور خبریں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انقلاب اسلامی معاشرے یا فرد کی فکری سطح کو پرکھنے کا پیمانہ ہے۔

اگر معاشرے میں فکری شعور کی سطح بلند کی جاتی تو کوئی بھی ذی شعور انسان تاریخ معاصر میں رونما ہونے والے اس عظیم انقلاب اسلامی کو فراموش نہ کر پاتا بلکہ اس انقلابی مکتب کو کسی خاص سرزمین سے منسوب کرنے کی بجائے بلا تعصب اس کو اپنا قیمتی ورثہ سمجھ کر اس کے نظریات اسباب، عوامل اور اثرات کا تجزیہ و تحلیل کیا جاتا۔ اس کی مکتبی بنیادوں سے اپنے معاشرے کے لیے ہدایت کا سامان مہیا کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ سوال ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟

جن عالمی طاقتوں کی طاغوتیت اور فرعونیت پر انقلاب اسلامی نے کاری ضرب لگائی وہ شرقی و غربی طاقتیں اس انقلاب کے رونما ہونے کے بعد ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھیں بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت اس عظیم سیاسی، تاریخی اور مکتبی انقلاب سے انسانیت کو دور کرنا شروع کر دیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ انقلاب اسلامی کو پاکستان میں سب سے پہلے شیعہ نے نہیں بلکہ اہلسنت افراد نے قبول کیا اور امام خمینیؒ کو اسلامی و انقلابی امام و پیشوا کے طور پر متعارف کروایا۔ دشمنان اسلام و انقلاب کو یہ پذیرائی ایک آنکھ نہ بھائی اور اہلسنت کو یہ بتا کر اس انقلاب سے دور کر دیا کہ یہ انقلاب شیعہ انقلاب ہے اور ایک سنی کا شیعہ انقلاب سے کیا لینا دینا؟

دوسرے مرحلے میں شیعہ افراد کو انقلاب سے دور کرنے کے لیے انقلاب اسلامی کو انقلاب ایران کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ انقلاب ایرانیوں کا ہے اور اسی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ نہ فقط پاکستان میں بلکہ عرب و عجم، مشرق و مغرب میں یہی دو تفکر شدت اختیار کر کہ انقلاب دشمنی میں بدل چکے ہیں۔

ایک بڑا اور اہم عنصر جس کا تذکرہ لازمی ہے وہ انقلاب دوست علما دین ہیں جن کی سستی اور کاہلی نے دشمنان انقلاب کو کھل کر کام کرنے کا میدان فراہم کیا۔ اگر یہ انقلابی طبقہ ہمیشہ میدان عمل میں حاضر رہتا تو آج انقلاب اسلامی سے بالعموم تمام بشریت اور بالخصوص مسلمان دنیا اس قدر دور نہ ہوتی۔

قارئین کی خدمت میں چند اہم واقعات پیش کیے جا رہے ہیں جن سے دشمنان انقلاب اسلامی کی کوششوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے

پاکستان کے ایک سابقہ صدر نے ملکی بدامنی کا ذمہ دار حوزہ علمیہ قم (مرکز انقلاب) کو قرار دیا اور اس زمانے میں عراق کے اندر سخت ترین حالات کے باوجود سرکاری وفد عراق بھیج کر پاکستانی طلاب کے لیے نجف کا بند حوزہ کھلوا دیا۔

عراق کے اندر ”مسلم امہ“ نامی ادارے کے افتتاحی جشن سے امریکی عہدیدار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کے اندر موجود عراقی، لبنانی، امریکی اور پاکستانی شیعہ علما کا کام خمینیت کو تشیع سے نکالنا ہے۔

ڈیڑھ دہائی قبل چند پاکستانی تنظیمی جوان نجف میں ایک پاکستانی مرجع تقلید سے ملے اور ان سے استفسار کیا کہ وہ کیوں پاکستان نہیں آتے اور پاکستانی تشیع کے درمیان رہ کر ان کی مشکلات حل نہیں کرتے تو انہوں نے جواب میں فرمایا ”تم کیا چاہتے ہو میں بھی خمینی کی طرح بندے مرواؤں؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).