خصوصی بچے (مینٹلی چیلجنڈ) اور تلخ معاشرتی رویے


میں نے 1990 سے لے۔ کر اب تک اسپیشل بچوں (مینٹلی چیلجنڈ) کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس طرح مجھے ان بچوں اور ان کے والدین سے جڑی بہت سی تلخ حقیقتوں کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جس کا اندازہ شاید دور رہ کر کبھی نہ ہوتا۔

جب والدین کو پتہ چلتا ہے، کہ ان کا بچہ نارمل بچوں سے مختلف ہے تو یہ ان کے لئے ایک ناقابل یقین حقیقت ہوتی ہے۔ جس کو تسلیم کرنے میں ان کو عرصہ درکار ہوتا ہے۔ پھر خاندان اور ارد گرد بسنے والے لوگوں کے بے حس رویے ان کے لیے اور اذیت کا باعث بنتے ہیں۔

شروع میں تو لوگوں میں اتنا شعور نہیں تھا اور اتنی اگاہی بھی نہیں تھی، کہ ایسے بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کے جانا چاہیے، کیونکہ بڑے شہروں میں تو پھر بھی اسپیشل بچوں کے سینٹرز تھے اور کچھ پرائیویٹ ادارے بھی کام کر رہے تھے۔ لیکن چھوٹے شہروں میں یہ سہولت مفقود تھی۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ تعویذ اور دم وغیرہ کا سہارا لیتے، کہ یہ بچے سائیں لوگ ہیں، اور اسی پہ صبر شکر کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار لوگ اب بھی اسی طرح کرتے ہیں۔

جب والدین بچے کو لے کر سینٹر آتے تو ان کے چہروں پہ دکھ اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت ہوتی۔ سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہمارا بچہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا یہ دوسرے بچوں کی طرح پڑھ سکے گا؟ ان والدین کو یہ باور کرانا، کہ آپ کا بچہ ذہنی طور پہ تھوڑا پیچھے ہے، وہ بہتر ہو جائے گا لیکن ٹائم لگے گا۔ بہت مشکل مرحلہ ہوتا۔ زیادہ بچے غریب گھروں سے آتے۔ جہاں دو وقت کی روٹی کے لئے سو سو پاپڑ بیلنے پڑے وہاں ان بچوں کی دیکھ بھال کیسے ممکن ہے۔

جب یہ بچے سینٹرز سے گھر جاتے ہیں، تو زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزارتے ہیں۔ جہاں محلے کے اوباش نوجوان ان کی معصومیت کا غلط استعمال کرتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اور ان کے والدین کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔

ہمارے پاس ایک بچہ آتا تھا اس کی عمر بارہ سال تھی، وہ کافی سمجھدار تھا۔ ہر کام میں دلچسپی لیتا، ہر بات بہت دھیان سے سنتا اور اس پہ عمل کرتا، کچھ دنوں سے وہ چپ چپ رہنے لگا تھا اور کسی ایکٹیویٹی میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ خیر اس کی والدہ کو بلایا اور پوچھا، کہ اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے۔ وہ زار و قطار رونے لگی اور جو اس نے بتایا وہ رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا۔ کہنے لگے گلی کے لڑکے اس کو باہر بلا لیتے ہیں، اس کو پیسے کا لالچ دیتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی شلوار اتارو، پھر خوب اس کا مذاق اڑاتے ہیں، جب وہ رونا شروع کر دیتا ہے تو اس کی شلوار میں مٹی بھر دیتے ہیں اور کہتے اب اس کو پکڑو اور گھر چلے جاؤ۔

کہنے لگی میں بیوہ عورت ہوں، یہ بڑا بچہ ہے تین بچے اس سے چھوٹے ہیں۔ کیا کروں، محلے میں کوئی میری سنتا نہیں۔ سو چیں اس ماں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ اپنے بچے کو اس حال میں دیکھتی ہو گی۔ ایسے بے شمار واقعات آئے دن مختلف بچوں کے ساتھ ہوتے۔ ایک بچہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا، کوئی اس کے نزدیک جاتا یا ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تو وہ خوفزدہ ہو جاتا، تھر تھر کانپنے لگتا، جب اس کے گھر والوں سے بات کی تو پہلے تو وہ صاف مکر گئے کہ پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔

لیکن پھر ہمارے اصرار کرنے پر والدہ نے بتایا، کہ اس کو کوئی سیکچوئلی ہراساں کرتا ہے، ہمیں یہ نہیں پتہ وہ کون ہے۔ وہ یقیناً گلی محلے کے کوئی غنڈے ہوں گے یا کوئی رشتے دار جس کا نام لینے سے وہ ہچکچا رہی تھی۔ ایسے ہی کسی بچے کو کہا جاتا کہ فلاں کو گالی دو یا سگریٹ پیو تو پیسے دیں گے غرض کہ ایک ختم نہ ہونے والا عذاب جو ان والدین کو ہر روز سہنا پڑتا ہے۔ ہر وقت گھروں میں بٹھا نہیں سکتے اور باہر یہ جاہل بے حس، احساسات سے عاری لوگ ان کو جینے نہیں دیتے۔

پتہ نہیں لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ معصوم اسی خدائے بزرگ و برتر کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہے، وہ جو خالق کائنات ہے۔ اس کی مخلوق کا مذاق اڑا کر، اس کو دکھ دے کر جو عارضی خوشی تم منا رہے ہو اس کا حساب تو دینا ہو گا اور لازمی دینا ہو گا۔ کیونکہ وہ خود فرماتا ہے، کہ حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہو سکتے۔

شاید انہی رویوں کی وجہ سے متمول گھرانے اپنے خصوصی بچوں کو گھروں میں ہی رکھتے ہیں۔ وہ گھروں میں ان کے لئے ماہر نفسیات، تھراپسٹ کی خدمت سے استفادہ کرتے ہیں۔ آن لائن بیرون ملک میں مقیم بہترین تھراپسٹ سے رجوع کرتے ہیں۔ لیکن بچوں کو گھر آئے ہوئے مہمانوں تک سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے بچوں میں احساس کمتری، چڑچڑا پن اور شدید جارحانہ اور تباہ کن رویے جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ جب تک وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نہیں ملیں گے، ان میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہو گی۔ اور ان کے معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ گھر اور بچے کے ارد گرد کے ماحول کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ تاکہ یہ بچے اس معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).