”قومی مفاد“ کے نام پر نقصان دہ حکمت عملی کا دفاع!


یہ جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں فوجی بغاوت سے چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا ہیلی کاپٹر مظفر آباد سے واپسی پہ مری کے قریب ایک فوجی کیمپ میں اتر گیا۔ اس وقت پی ٹی وی ہی تھا، نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے۔ پی ٹی وی کی رات نو بجے کی خبروں میں ایک طویل وڈیو رپورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف کا ہیلی کاپٹر فوجی کیمپ میں اترنے اور ان کی فوجی جوانوں سے ملاقات کے مناظر دکھائے گئے۔ اس رپورٹ کی ایک حیران کن بات یہ تھی کہ نواز شریف کا ہیلی کاپٹر اترنے کے ساتھ ہی وہاں بڑی تعداد میں فوجی جواب اکٹھے ہو گئے اور پرجوش انداز میں ایک ساتھ تالیاں بجاتے ہوئے وزیر اعظم کا خیر مقدم کرنے لگے۔

اونچی آواز میں پرجوش تالیاں مسلسل جاری تھیں، میں نے گھڑی دیکھی، مسلسل پانچ منٹ پی ٹی وی خبرنامے کی وڈیو رپوٹ میں فوجی جوانوں کو پرجوش انداز میں تالیاں بجاتے دکھایا گیا۔ یہ دیکھتے ہوئے مجھے فوراً خیال آیا کہ وزیر اعظم نواز شریف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ فوج کے جوان ان کے ساتھ ہیں۔ میں نے اس خیال کا اظہار اپنے والد گرامی سے کیا تو انہوں نے اسے میرا تصور قرار دیا۔ تاہم چند ماہ بعد ہی جنرل پرویز مشرف نے ملک میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور موجودہ ممبر اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے سے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریشانی کے بارے بتایا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ انڈیا رات نو بجے حملہ کر رہا ہے اس لئے ابھی نندن کو چھوڑ دینا چاہیے۔ ایاز صادق نے کہا کہ انڈیا کوئی حملہ نہیں کر رہا تھا۔ ایاز صادق کے اس بیان پر ’آئی ایس پی آر‘ نے پر یس کانفرنس طلب کرتے ہوئے ایاز صادق کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے حوالے سے کہا کہ کل ایک ایسا بیان دیا گیا جس میں تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، یہی بیانیہ ہندوستان کی شکست اور ہزیمت کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ایسے منفی بیانیے کے قومی سلامتی پر براہ راست اثرات ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ ہم نے ذمہ دار ریاست کے طور پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ ابھی نندن کو واپس کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی سرکاری سطح پر ایاز صادق کے بیان کے حوالے سے ”قومی مفاد“ کو ڈھال بناتے ہوئے سخت مخالفانہ مہم شروع کر دی گئی۔ یوں ایاز صادق کے بیان کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ اس سے دشمن کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسی دوران سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایسی بات کہہ دی کہ جس سے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی کارروائیوں کے خطرات کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

وفاقی وزیر فواد چودھری نے قومی اسمبلی کے اہم پلیٹ فارم پہ کہا کہ ”ہم نے ہندوستان کو گھس کر مارا ہے، پلوامہ میں جو ہماری کامیابی ہے، وہ عمران خان کی قیادت میں اس قوم کی کامیابی ہے، اس کے حصے دار آپ سب بھی ہیں، اس کے حصے دار ہم سب بھی ہیں“ ۔ جرمنی کے اطلاعات ادارے ”ڈاؤچ آف ویلے“ نے اس متعلق اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ”لیکن تیر نکل چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری اپنے بیان کی خواہ جو بھی وضاحت کریں لیکن انہوں نے بھارت کو بہر حال ایک ہتھیار تو دے ہی دیا ہے اور بھارت اس کا استعمال بین الاقوامی فورمز پر کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا“ ۔

ان واقعات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے کوئٹہ کے جلسے سے ایسی تقریر کی جسے تاریخ ساز کہا جا سکتا ہے۔ ان کی اس تقریر کے سامنے ان کے اس سے پہلے کے خطاب بھی مانند پڑ گئے۔ نواز شریف نے اس تقریر میں اس بات پہ زور دیا کہ چند افراد اپنے مقاصد کے لئے قانون، آئین کی توڑتے ہیں اور اس کا نام ہماری فوج پہ آتا ہے۔ نواز شریف نے اپنی تقریر کے آخر میں فوج کے جوانوں اور افسروں کے نام کہا کہ ”آپ اپنے حلف کی پاسداری کیجئے، خود کو متنازعہ ہونے سے بچائیے“ ۔

سول سروس کے نام نواز شریف نے کہا کہ ”سندھ کے پولیس افسر صاحبان، میں آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں، آپ کو بلاخوف اپنی ذمہ داریاں قانون کے مطابق ادا کرنی چاہئیں“ ۔ عوام کے نام اپنے پیغام میں نواز شریف نے کہا کہ ”پاکستانی فوج آپ کی اپنی فوج ہے، ان کو عزت دیجئے، انہیں محبت دیجئے، لیکن جب معاملہ آئین کی بالادستی کا ہو، جب معاملہ قانون کی حکمرانی کا آ جائے، تو پھر وہاں کوئی سمجھوتہ نہ کیجئے، کوئی فوج اپنے لوگوں کے خلاف نہیں لڑ سکتی، پرامن احتجاج آپ کا آئینی حق ہے، جس سے کوئی آپ کو محروم نہیں کر سکتا، آزادی اظہار آپ کا آئینی حق ہے جو آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا، ووٹ اور حکومت سازی آپ کا بنیادی حق ہے، جو آپ کے اس حق کو چھینے، وہ آپ کا حال اور مستقبل آپ سے چھیننے کا مرتکب ہوتا ہے، وہ آمر ہے، غاصب ہے، آئین شکن ہے، آپ اپنے حق کو استعمال کیجئے، کسی مفاد پرست ٹولے یا کچھ مٹھی بھر لوگوں کو اپنے آنے والی نسلوں کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت مت دیجئے، اگر آج آپ نے اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو انشا اللہ آپ اپنے حالات سنوار لیں گے“ ۔

فوج اور حکومتی حلقوں کی طرف سے مختلف امور میں وضاحتیں کی جاتی ہیں لیکن ان امور کے جواب نہیں دیے جاتے جو سوالات سیاستدان ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی اور عوام کی طرف سے بھی طلب کیے جا رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں ماورائے آئین فوج کی حاکمیت نہیں ہے؟ کیا موجودہ حکومت فوج کی مرہون منت نہیں ہے؟ کیا یہ بتانا اہم نہیں کہ پاکستان کا ”قومی مفاد“ ہے کیا؟ کیا ”قومی مفاد“ ایسے شاہی راز ہیں جن کا کھوج تاریخ دان بھی لگانے سے قاصر رہتا ہے؟

یہ ”قومی مفاد“ ہے کہ اہم قومی امور سے متعلق وہ ناقص حکمت عملی ہے جس نے ملک و عوام کو بار بار، ہر بار خراب ہی کیا ہے۔ کیا پاکستان کے بنیادی اہداف سے متعلق اس نقصان دہ پالیسی کو موضوع بنانا قومی مفادات کو نقصان پہچانا ہے یا قومی مفاد ات کا تحفظ کرنا ہے۔ آئین قومی مفادات کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے لیکن جب پارلیمنٹ کو تابع رکھے جانے کو بھی قومی مفاد قرار دیا جانے لگے تو ہر اس شہری کا آواز بلند کرنا لازم ہو جاتا ہے جسے پاکستان سے پیار ہے، پاکستان کی اہمیت کا ادراک ہے اور وہ اپنے پیارے ملک پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کا اہتمام کیے جانے پر خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ پاکستان کو نامراد کیے جانے کے اس انتظام میں عوام کی بربادی طے شدہ امر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).