ہمارے رویے اور سماجی انتشار


کسی بھی معاشرے میں رہن سہن کے طریقے اور مقبول رویے وہاں رہنے والے لوگوں کی ثقافتی تہذیب اور سماجی اقدار کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ مزید برآں مروجہ سماجی ادارے اپنی ثقافتی تہذیب اور سماجی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہر فرد اپنی جزوی حیثیت میں جن معاشرتی رویوں کا پالن کرتا ہے وہی رویے ہمارے اجتماعی سماج کی تشکیل کرتے ہیں۔

اس پورے نظریے کی اساس دو چیزوں پر ہے۔ اول ہماری انفرادیت اور دوئم ہماری اجتماعیت۔ یعنی اصولی طور پر یہ طے ہے کہ انفرادی رویے ہی اجتماعی رویوں کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں یہ معاملہ نہایت پیچیدہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہمارے انفرادی رویے نہایت جزوی ہیں بلکہ ہمارے اجتماعی مقبول رویے بھی بہت حد تک ذاتیات ہی پر مرکوز ہیں اور وہ اکثر محض انفرادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک غیر فہم انتشار کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں انفرادی اور اجتماعی رویوں میں ایک اور قسم کا بعد بھی محسوس ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قابل قدر انفرادی رویے تو اجتماعی مقبولیت حاصل نہیں کر پاتے جبکہ منفی انفرادی رویے نہ صرف اجتماعی قبول عام حاصل کر لیتے ہیں بلکہ نہایت سرعت کے ساتھ سکہ رائج الوقت بھی بن جاتے ہیں۔ نا معلوم کہ ایسی پیچیدگی کسی معاشرے کا پیدائشی وصف ہے یا وہ معاشرہ بذات خود ایسی پیچیدہ صفت بزور بازو حاصل کرتا ہے۔ بحر الحال یہ تو یقینی ہے کہ مثل مذکور معاشرتی پیچیدگیاں ایک خاص قسم کے سماجی اضطراب کو جنم دیتی ہیں جس کا شکار ہمارا معاشرہ بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔

اس دقیق مسئلے کو چند عام فہم مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایک بہت بڑی تعداد میں افراد بلا جھجک، غیر ضروری طور پر سر عام جا بجا تھوکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اکثر افراد اپنا پیدا کردہ کوڑا کرکٹ گلیوں اور سڑکوں پر پھینکنا اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں یا خواتین کی موجودگی میں بھی بلا جھجک بکثرت عام پوشیدہ مردانہ اعضاء کو کھجانا بھی ایک معمول ہے۔ ٹریفک کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی، کسی بھی جگہ قطار بنانے سے گریز، حقوق ہمسائیگی کی پامالی، وعدہ خلافی، اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور اس طرح کی کئی دیگر مثالیں انفرادی رویوں کا روز مرہ ہیں جنہیں ایک خاص قسم کا اجتماعی قبول عام بھی حاصل ہے۔

ایسے رویے جن کو مہذب معاشروں میں سماجی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے، ہمارے ہاں ان رویوں کو نظر انداز کرنا یا ان سے آنکھ چرانا بھی ایسے قابل مذمت رویوں کو قبول عام بخشنے کے ہی مترادف سمجھا جانا چاہیے۔ جبکہ ہم ان رویوں سے اجتماعی طور پر غیر منسلک نظر آتے ہیں جس کے معاشرتی و غیراخلاقی نتائج ایک اجتماعی وتیرہ بن چکے ہیں۔ ان تمام رویوں کو عموماً انفرادی سطح پر تو شاید بہ حیل و حجت نا پسندیدہ تصور کیا جاتا ہے مگر ان رویوں کی اجتماعی سطح پر حوصلہ شکنی کرنے کی کوئی خاص مثال روز مرہ معاملات میں نظر نہیں آتی۔

دوسری جانب کچھ ایسے نا پسندیدہ اجتماعی رویے ہیں جن کی اجتماعی طور پر تو حوصلہ شکنی کی جاتی ہے مگر ان رویوں کو بکثرت عام انفرادی قبولیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اپنے محکمانہ اختیارات سے تجاوز، محکمانہ گاڑیوں کو ذاتی استعمال میں لانا، اپنی تنخواہ سے متجاوز ملبوسات و دیگر تعیشات ایسے رویے ہیں جو ہماری ہاں اجتماعی سطح پر تو نا پسندیدہ بتائے جاتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان رویوں کو انفرادی سطح پر قبول عام حاصل ہے۔ اکثر افراد ان رویوں کو انفرادی طور پر جائز و بر حق سمجھتے ہیں۔ نہ جانے ماجرا کیا ہے۔

البتہ قول و فعل کا تضاد ایک ایسا سماجی رویہ ہے جسے ہر دانگ عالم انفرادی و اجتماعی قبولیت کا شرف حاصل ہے۔ شدت برانگیختہ عقائدی رسومات کی فقید المثال رونمائی اور اپنی مشرقی روایات کی تحسین کا غلغلہ تو خوب ہوتا ہے لیکن خواتین کی بر حق عوامی اور جائے روزگار پر حرمت و تکریم ندارد ہے۔ ان کو وراثت میں حصہ دینے سے گریز ایک مروجہ معمول ہے۔

سچائی اور ایمانداری کے پر چارک مصالحوں اور اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور ناپ تول میں کمی کو کاروبار چمکانے کے گر بتاتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہیں۔ سماجی ہم آہنگی کا نعرہ تو بلند کرتے ہیں مگر تقریبات پر گلیوں میں قناتیں لگا کر راستہ بند کر دینا معمول ہے اور گلی محلے کے اجتماعی مسائل جیسا کہ بجلی کی ننگی تاروں کا انتظام، ابلتے ہوئے گٹروں کی صفائی اور پانی کی موثر ترسیل یقینی بنانے جیسے مسائل حل کرنے کے لئے اجتماعی ادارہ سازی سے شرمسار رہتے ہیں۔ مثالیں ان گنت ہیں۔

ماجرا یہ ہے کہ ہم ہر معاشرتی مسئلہ محض دوسروں کی ذمہ داری تصور کرتے ہیں اور خود انفرادی پہلو تہی کے لبادے میں خوش رہتے ہیں۔ رویوں میں تضاد اور ان کا پیچیدہ پن ایک خاص قسم کے سماجی انتشار کو جنم دے چکا ہے۔

اسکی ایک بنیادی وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ ہے ہمارا قدامت پسند اور تفرقہ انگیز نظریہ شناخت۔ ہم اپنی شناخت کے بارے اس شد و مد کے ساتھ احساس تفاخر میں میں مبتلا ہیں کہ ہم بچپن ہی سے اپنے بچوں کو دیگر ہر شناخت کے حامل افراد سے افضل بتاتے ہیں اور ان سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔

ہر فرد اپنی قبائلی، عقائدی، معاشی حیثیت اور دیگر کسی بھی شناخت کو دوسری تمام شناختوں سے اشرف و لائق افتخار گردانتا ہے۔ جبکہ ان میں سے اکثر شناختیں ہمیں محض موروثی طور پر ودیعت ہوتی ہیں اور بہت کم (علمی اور عملی) شناختیں ہی بزور بازو حاصل کی جاتی ہیں۔ اگرچہ بزور بازو حاصل کی گئی علمی و عملی شناختیں بھی ہمیں دوسروں پر فوقیت ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ معاشرتی خیر و فلاح میں اپنا کردار ادا کرنے کا درس دیتی ہیں۔

جب تک ہم اپنی موروثی و حاصل کردہ شناختوں کو دوسری شناختوں سے اشرف و افضل تصور کرنا نہیں چھوڑیں گے، ایک سماجی ہم آہنگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا بعید از قیاس ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).