ماں: سمرسٹ ماہم کی ایک کہانی


اپنے فلیٹ کی کھڑکیوں سے جھانک کر دو تین لوگوں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ لڑائی کی آوازیں کہاں سے آ رہی تھیں۔

”یہ نئی کرایہ دار ہے اور مزدور سے جھگڑا کر ہی ہے“

ایک عورت نے اپنی ہمسائی کو بتایا۔

یہ واقعہ سپین کے شہر سیویل میں ظہور پذیر ہو رہا تھا۔ دائرے میں بنے اس بلاک میں بیس فلیٹس اور کچھ کمرے کرائے پر چڑھے ہوئے تھے۔ ان میں کم آمدنی والے ملازمین، ڈاکیے، ٹرام کے کنڈکٹر، پولیس کانسٹیبل، سرکاری دفتروں کے کلرک یا مستری مزدور قسم کے لوگ رہتے تھے۔ درمیان میں اجتماعی مصروفیات کے لئے ایک بڑا سا چبوترہ بنا ہوا تھا۔

جھگڑا کچھ بڑھ گیا تھا۔ کرخت چہرے والی نئی کرایہ دار اپنی تیز اور بلند آواز میں مزدور سے کہہ رہی تھی کہ وہ اسے تین ریال سے ایک کوڑی بھی زیادہ نہیں دے گی۔ مزدور بھی ڈٹا ہوا تھا کہ پانچ ریال سے ایک پیسہ کم نہیں لے گا۔ بات تو تڑاق تک پہنچی لیکن آخر چار پر سودا ہو گیا۔ مزدور غصے میں میٹریس فرش پر پھینک کر پاؤں پٹختا گالیاں دیتا چلتا بنا۔

عورت مشکل سے میٹریس کو گھسیٹ کر کمرے میں لے گئی اور فوراً دروازہ بند کر لیا۔

فلیٹس کی بالکنیوں میں کھڑی خواتین باتوں میں مصروف ہو گئیں۔

”اس کا چہرہ کس قدر ہولناک ہے۔“ ایک نے کہا

”مجھے تو یہ کوئی قاتلہ لگتی ہے“ دوسری بولی۔

”نیٹلی تو نیچے سے آئی ہے تجھے پتہ ہے کیا ہوا؟“

نیٹلی کی ماں پیلار اس سے مخاطب تھی۔

”ہاں، میں نے مزدور سے پوچھا تھا کہ یہ عورت کہاں سے آئی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام کارلا ہے اور وہ تریانہ کے محلے سے اس کا سامان اٹھا کر لایا ہے۔“

somerset maugham

کارلا اپنے کمرے سے بہت کم باہر نکلتی۔ وہ صبح چھ بجے کہیں جاتی اور شام کو پانچ بجے واپس آ کر کمرے میں اپنے آپ کو بند کر لیتی۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کرتی ہے؟ کہاں سے اپنا خرچ چلاتی ہے؟

لیکن سپین میں اور بالخصوس سیویل میں کوئی سکینڈل دیر تک چھپا نہیں رہتا۔ ایک شام جب کئی لوگ چبوترے پر بیٹھے گپ لگا رہے تھے کسی ہمسائے نے بتایا کہ اس کا ایک دوست تریانہ میں رہتا ہے جسے کارلا کی سب کہانی معلوم ہے۔

سننے والوں کا تجسس بیدار ہوا۔

ہمسائے نے بتایا کہ کارلا سات سال قید میں گزارنے کے بعد رہا ہو کر تریانہ آئی تھی۔ ایک قتل کی سزا میں۔ اس نے اپنے عاشق کو قتل کر دیا تھا۔

”عاشق کو؟“

نیٹلی نے تضحیک سے ہنستے ہوئے کہا۔

”ایسی عورت کا بھی کوئی عاشق ہو سکتا ہے؟“

”چپ کر نیٹلی۔“

اس کی ماں نے ڈانٹ کر کہا۔

”کسی کا مذاق نہیں اڑاتے۔“

ہمسائے نے کہانی جاری رکھی۔

”تریانہ میں وہ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہ رہی تھی۔ اس کے محلے کے بچوں کو جب جیل کے بارے میں معلوم ہوا تو انہیں ایک مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ وہ جہاں جاتی بچے اس کے پیچھے جلوس کی صورت میں چلتے، اسے چھیڑتے۔ کچھ تو اس پر پتھر بھی پھینکتے۔ ایک دن اس نے ایک بچے کو پکڑ کر اسے خوب پیٹا۔ جس پر مالک مکان نے اسے نوٹس دے دیا۔ اس لئے وہ پرانا مکان چھوڑ کر یہاں آ گئی ہے۔“

اس بات چیت کے دوران کارلا اپنے کام سے واپس آئی اور چبوترے کے پاس سے گزر کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ باہم گفتگو اچانک رک گئی۔

وہ بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ زندگی کی صعوبتوں نے اس کے چہرے پر قبل از وقت جھریوں کا جال بچھا دیا تھا۔ تانبے کے تاروں کی طرح سخت بال لاپرواہی سے بندھے جوڑے سے باہر نکل رہے تھے۔ آنکھوں میں ایک وحشت بسی ہوئی تھی۔

” اولا۔“

پولیس کانسٹبل نے خوش اخلاقی سے کہا۔

”اولا۔“

کارلا نے روکھے پن سے جواب دیا اور بغیر رکے اپنے کمرے میں داخل ہو گئی۔

”مجھے تو اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے“

نیٹلی ایک جھرجھری لے کر بولی۔

”خدا ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔“

پیلار نے ہاتھ کے اشارے سے صلیب کا نشان بنایا۔

کارلا کسی سے گفتگو نہ کرتی۔ اپنے کام سے کام رکھتی۔ پیلار اور دوسری ہمسائیوں کی دوستانہ کوششوں کو اس نے قطعی طور پر رد کر دیا تھا۔ ہمسائیوں نے بھی تنگ آ کر کارلا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

پھر ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ قیاس آرائیوں کا بازار دوبارہ سے گرم ہو گیا۔ ایک انیس بیس سال کا لڑکا بلاک کے گیٹ کے باہر آ کر کھڑا ہوا۔ پیلار کھڑکی کے پاس نیٹلی کے ساتھ بیٹھی ایک بلاؤز رفو کر رہی تھی۔ لڑکے نے پوچھا کہ مادام انتونیا سانچز کہاں رہتی ہیں۔
” یہاں ایسی کوئی خاتون نہیں رہتی۔“
پیلار نے لڑکے کو جواب دیا۔
” شاید آپ اسے کارلا کے نام سے جانتی ہوں۔“
لڑکے نے بڑی شائستگی سے کہا۔
”کارلا؟ ہاں وہ چوتھا کمرہ اس کا ہے۔“
یہ کہہ کر نیٹلی نے گیٹ کھول کر لڑکے کو اندر آنے دیا۔
” جی بہت بہت شکریہ۔“
لڑکے نے آنکھوں سے آنکھیں ملا کر نیٹلی سے کہا۔


نیٹلی کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ وہ ہر لحاظ سے سپینش حسینہ کہلانے کی مستحق تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک نڈر پن تھا۔ بال، ریشمیں اور چمکدار جن کی سیاہی اس کے بالوں میں لگے سرخ گلاب کے پھول سے اور بھی اجاگر ہو گئی تھی۔ بلاؤز کے پیچھے بھر پور چھاتیوں نے اس کی جوانی کو انتہائی پرکشش بنا دیا تھا۔
لڑکا بتائے ہوئے کمرے کر طرف بڑھا۔ آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ایک کھردری، سمع خراش آواز نے پوچھا،
”کون ہے؟“
”ماں“
لڑکے نے بہت نرمی سے کہا۔
ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا۔ کارلا بے تابی سے باہر نکلی۔ دونوں ہاتھ بڑھا کر لڑکے کو اپنے سینے سے لپٹا لیا۔
”اوہ، تو آ گیا ہے۔ پابلو۔ میرے بچے۔ شکر ہے۔ میں تو دعائیں مانگ مانگ کر تھک گئی تھی۔ شکر ہے پروردگار، شکر ہے تیرا۔“
یہ کہہ کر وہ لڑکے کو کمرے کے اندر لے گئی۔
کارلا کے چہرے سے نرمی اور شفقت جھلک رہی تھی۔
”تو یہ اس کا بیٹا ہے۔“
پیلار نے ایک سکتے کے بعد کہا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ کارلا جیسی کرخت عورت کا اتنا نفیس بیٹا ہو سکتا ہے۔
اور بلا شبہ پابلو تھا بھی بہت نفیس۔ پتلا دبلا، میٹاڈور بل فائٹر کا سا جسم۔ سیویل کے کھلنڈروں کی طرح بنے سنورے بال، فیشن کے مطابق چست پتلون۔ اور پر اعتماد مسکراہٹ۔ اس میں اور کارلا میں کوئی چیز مشترک نہیں لگتی تھی۔
کئی گھنٹے گزرنے کے بعد کارلا کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ماں بیٹا بازو میں بازو ڈالے مسکراتے ہوئے گیٹ کی جانب بڑھے۔
”تو اگلے اتوار ضرور آئے گا نا؟“
ماں نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہیں؟“
پابلو نے ماں کو الوداع کہتے ہوئے نیٹلی کی طرف دیکھا اور سر کے اشارے سے اس کو بھی خدا حافظ کہہ دیا۔
”خدا تم کو بھی اپنی امان میں رکھے“
نیٹلی نے جان بوجھ کر زور سے اپنی اور پابلو کی ماں کو سنانے کے لئے کہا۔ اس کی آنکھوں کی چمک کچھ اور پیغام بھی دے رہی تھی۔ کارلا اس پیغام کو سمجھ گئی اور اتنی نفرت سے نیٹلی کو دیکھا کہ اس کے چہرے پر جو نرمی تھوڑی دیر کے لئے آئی تھی پھر سے کرختگی میں بدل گئی۔


”یہ تمھارا بیٹا ہے؟“
پیلار نے بات چیت شروع کرنے کی کوشش کی۔
”ہاں“
کارلا نے جیسے لفظی تھپڑ رسید کیا ہو۔
مگر پیلار اور نیٹلی پابلو سے خاصی متاثر ہوئیں۔
” کتنا خوبصورت ہے یہ پابلو۔“
نیٹلی نے جیسے ماں کو راز دار بنا کر کہا۔
کارلا اپنے بیٹے سے انتہائی شدت کا پیار کرتی تھی۔ پابلو کے علاوہ دنیا میں اس کا اور کوئی نہیں تھا۔ اس پیار میں وہ کسی شریک کا تصور بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کا بیٹا صرف اسی کے لئے تھا۔
جب کارلا نے دیکھا کہ نیٹلی اس کے بیٹے کو چاہت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے تو وہ حسد کی آگ میں بھڑک اٹھی۔ اسے خوف ہوا کہیں وہ اس سے اس کا لاڈلا بیٹا نہ چھین لے۔
اگلے اتوار دو پہر کے وقت کارلا بلاک کے گیٹ کے پاس کھڑی ہو گئی تھی۔ یہ ایسی ان ہونی بات تھی کہ بلاک میں چہ مگویاں شروع ہو گئیں کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔
نیٹلی نے مسکراتے ہوئے اپنے ہمسایوں کو بتایا کہ آج کارلا کا لاڈلا آنے والا ہے اور وہ نہیں چاہتی ہم اسے دیکھیں یا اس سے بات کریں۔
جیسے ہی پابلو آیا کارلا اس کو اپنے کمرے میں لے گئی اور دروازہ بند کر دیا۔
”یہ تو ایسے کر رہی ہے جیسے ہم اس کے بیٹے کو کھا جائیں گے۔“
پیلار نے کہا۔
نیٹلی کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز سی مسکراہٹ تھی۔ شام ڈھلے جب پابلو کے واپس جانے کا وقت آیا تو نیٹلی تن کر گیٹ پر کھڑی ہو گئی تاکہ پابلو اس کا سامنا کیے بغیر بلاک سے باہر نہ نکل سکے۔
کارلا اس کی نیت کو سمجھ گئی اور گیٹ سے نکلتے وقت وہ پابلو اور نیٹلی کے درمیان ہولی تاکہ نیٹلی اس کو نہ دیکھ سکے۔
”ایسی آسانی سے تو میں بھی ہار نہیں ماننے والی۔“
نیٹلی نے دل میں سوچا۔


اگلے اتوار جب کارلا نے گیٹ پر پابلو کے انتظار میں اپنی پوزیشن سنبھالی تو نیٹلی باہر نکل کر اس سمت چل دی جہاں سے پابلو نے آنا تھا۔ جب اسے پابلو آتا دکھائی دیا تو وہ ایسے چلتی رہی جیسے اس نے پابلو کو دیکھا ہی نہیں۔
”اولا“ پابلو نے گفتگو میں پہل کی۔
”اوہ، یہ تم بات کر رہے ہو۔ میں تو سمجھی تھی کہ تم مجھ سے بات کرتے ہوئے ڈرتے ہو۔“
”میں کسی سے نہیں ڈرتا۔“
پابلو نے سینہ تان کر کہا۔
”سوائے ماں کے؟“
نیٹلی نے طنز آمیز آواز میں پوچھا۔ اور پھر آگے چل دی جیسے گفتگو ختم ہو گئی ہو۔ پابلو نے جب پوچھاکہ وہ کہاں جا رہی ہے تو اس نے تنتنا کر کہا،
”تمہاری بلا سے، میں کہیں بھی جاؤں تمھیں اس سے کیا؟ تم جاؤ اپنی ماں کی گود میں۔ وہ تمھارا انتظار کر رہی ہے۔“
پابلو کھسیانا ہو کر گیٹ کی طرف چل دیا۔
سارا دن ماں کے ساتھ گزار کر جب پابلو واپس جانے لگا تو نیٹلی پھر گیٹ پر کھڑی تھی۔ اس مرتبہ اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے جب پابلو نے ماں کو خدا حافظ کہا تو نیٹلی کو بھی شب بخیر کہنے کے لئے ایک منٹ کے لئے رکا۔
کارلا پھر طیش میں آ گئی۔ اس نے ڈانٹ کر پابلو سے کہا کہ وہ وقت ضائع نہ کرے۔ پھر جن خطرناک نظروں سے کارلا نے نیٹلی کو دیکھا ان میں شدید نفرت، حسد اور دشمنی کے جذبات جھلک رہے تھے۔
اگلے ہفتے ایک مقامی تہوار تھا جس میں بلاک کے سب مکین بڑے جوش خروش سے شرکت کر رہے تھے۔ چبوترے کے چاروں طرف رسیوں پر کاغذ کی قندیلیں اور رنگ برنگی جھالریں لٹکی ہوئی تھیں۔ ارد گرد کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ پولیس کانسٹبل اور مزدور اپنی اپنی گٹار لے آئے تھے۔ گپ شپ عروج پر تھی۔ قہقہے گونج رہے تھے۔
ہر ایک تہوار کی خوشی منا رہا تھا۔ سوائے کارلا کے۔
”اس کا بیٹا کہاں ہے؟“
کسی نے پوچھا۔
”ماں کا لاڈلا کمرے میں بند تہوار کے مزے لوٹ رہا ہے“
نیٹلی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
”چلو چھوڑو اس کو۔ نیٹلی آج تم فلیمنکو ڈانس کر کے دکھاؤ“
ٹرام کے کنڈکٹر نے فرمائش کی۔
نیٹلی اپنی ایک ہم عمر سہیلی کے ساتھ اٹھی اور انگلیوں کے درمیان لکڑی کی چکچکی تھام کر میدان میں کود پڑی۔ گٹار کی دھن اور چکچکی کی تال دار آواز نے ایک سماں باندھ دیا۔
کارلا کے کمرے میں بند پابلو بہت دیر سے خوش و خرم آوازوں کو سن رہا تھا۔ وہ تقریب میں شامل ہونے کو بے چین تھا۔ کھڑکی کے پردے کے پیچھے سے اس نے دیکھا کہ نیٹلی مستی میں ناچ رہی تھی۔ پسینے سے اس کا بلاؤز بدن سے چپکا جا رہا تھا۔ گٹار کی دھن چکچکی کی تال سے گلے مل رہی تھی۔


پابلو کے پورے بدن میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ رہی تھی۔ جس دن سے اس نے نیٹلی سے چند جملوں کی گفتگو کی تھی پابلو مسلسل اس کے بارے میں سوچے جا رہا تھا۔ وہ اس کے حواس پر چھا گئی تھی۔
پابلو سے اب کمرے کی قید برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے چٹخنی کھولی ہی تھی کہ کارلا لپک کر بستر سے اٹھی اور اس کے راستے میں کھڑی ہو گئی۔
” یہ تو کیا کر رہا ہے؟“
اس نے سختی سے پوچھا۔
”سب لوگ ناچ گا رہے ہیں۔ میں بھی تہوار میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔“
”تو اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہے؟
”ہاں۔“
پابلو باہر نکل آیا۔ کارلا بھی اس پر نظر رکھنے کے لئے پیچھے ہو لی۔
سٹیج کے پاس رکھی ایک کرسی پر ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ نیٹلی اس کے پاس آئی اور اسے چھیڑنے کے انداز میں پوچھا۔
”تم تو ڈانس نہیں کرتے ہو گے؟“
”کیوں نہیں؟“
” تو پھر آؤ“
پابلو کھڑا ہو گیا۔ ایک لمحے کے لئے جھجھکا۔ پیچھے مڑ کر اپنی ماں کو ایک نظر دیکھا جس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔
”ڈر رہے ہو؟“
نیٹلی نے ایک اور وار کیا۔
”میں کسی سے نہیں ڈرتا۔“
”تو پھر؟“
نیٹلی پابلو کا ہاتھ پکڑ کر اسے ڈانس کے دائرے میں لائی۔ گٹار کے تار چھڑے، شرکا نے تال ملا کر تالیوں سے گٹار کا ساتھ دیا اور وقفے وقفے کے بعد ’اولے اولے‘ کے نعرے لگا کر ماحول کو گرمایا۔


پابلو اور نیٹلی کا رقص سپین کی رومانی خوبصورتی کا مظہر تھا۔ ہر کوئی اس رقص اور موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ لیکن اس مستی کے عالم میں کسی نے کارلا کی وہ سانپ کی پھنکار جیسی آواز نہیں سنی جو زہر سے بھری ہوئی تھی۔ نفرت کی آگ میں بھڑکتی ہوئی کارلا واپس کمرے میں چلی گئی۔
رات گئے پابلو کمرے کی طرف لوٹا۔ حسب معمول دروازہ بند تھا۔ اس نے ایک دو مرتبہ ہلکے سے دستک بھی دی لیکن کارلا نے جواب نہیں دیا۔
”اب میں چلتا ہوں ماں، بہت دیر ہو گئی۔“
لیکن غصے میں تپتی ہوئی ماں پھر بھی چپ رہی۔ اس کا سینہ طیش سے پھٹا جا رہا تھا۔ پابلو اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس کی کائنات کا محور۔ اس کے خیال میں ساری دنیا نے اس سے پابلو کو چھیننے کی سازش کر لی تھی۔
وہ تمام رات انگاروں پر سلگتی رہی۔ ایک لمحے کے لئے بھی نہ سو سکی۔ صبح ہوتے ہی کارلا گیٹ کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ کئی گھنٹوں کے بعد نیٹلی باہر نکلی۔ اس کی نشیلی آنکھیں نیند سے بھاری تھیں۔ جیسے ہی کارلا نے اس کو دیکھا وہ اس کی جانب بڑھی۔
”تم میرے بیٹے سے کیا چاہتی ہو؟“
”کیا مطلب؟“
نیٹلی نے بناوٹی حیرت کا اظہار کیا۔
” بنو نہیں۔ تمھیں اچھی طرح پتہ ہے کیا مطلب۔ تم اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہو۔“
” میں اس کے پیچھے پڑی ہوں؟ ہنہ! میرے پیچھے تو وہ پڑا ہوا ہے۔“
”یہ جھوٹ ہے۔ بالکل جھوٹ۔“
کارلا نے غصے میں کہا۔
”اگر جھوٹ ہے تو خود اس سے پوچھو۔ وہ پہروں کیوں میرا انتظار کرتا ہے۔ تمھیں ایسا ہی خطرہ ہے تو اسے سنبھال کر رکھو۔ مجھے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر مجھے عاشق چاہیے تھا تو کیا میں اتنی گئی گزری تھی کہ قاتلہ کے بیٹے کو ہی اپنے لئے چنتی؟“
کارلا کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ وہ ایک بھوکی شیرنی کی طرح لپکی اور نیٹلی کے بال کھینچ کر اسے زمین پر گرا دیا۔ نیٹلی مدد کے لئے چیخی۔ ایک ہمسائے نے بڑی مشکل سے دونوں کو الگ کیا۔
” تو نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھینا تو میں تیرا خون پی جاؤں گی۔“
یہ کہہ کر کارلا ایک جنگلی جانور کی طرح غراتی ہوئی اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی۔
ڈانس کی رات کے بعد سے پابلو کی نیند بھی حرام ہو گئی تھی۔ لیکن نفرت سے نہیں، محبت سے۔ وہ ساری رات نیٹلی کے سرخ ہونٹوں، مستانی آنکھوں اور شوق کی آگ بھڑکانے والے جسم کے بارے میں سوچتا رہا۔ بالآخر اس سے رہا نہ گیا۔ پیدل چلتا چلتا وہ بلاک تک پہنچا اور انتظار کرتا رہا کہ شاید نیٹلی نظر آ جائے۔ کافی دیر کے بعد اس نے دیکھا کہ نیٹلی اپنی کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہوئی باہر کی طرف دیکھ رہی ہے۔


”نیٹلی“
اس نے سرگوشی میں کہا۔
نیٹلی جیسے اسی آواز کی متوقع تھی۔
” تم یہاں کیوں آ گئے؟“
”اس لئے کہ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا۔“
”تمھیں پتہ ہے کہ تمھاری ماں نے تو آج میری جان ہی لے لی تھی۔“
پھر اس نے تمام قصہ خوب نمک مرچ لگا کر سنایا۔ لیکن بڑی سہولت سے وہ فقرہ نظر انداز کر دیا جس میں اس نے کارلا کو قاتلہ کہا تھا۔
” تمہاری ماں بہت جلدی آپے سے باہر ہو جاتی ہے۔ مجھے تو اس سے بہت خوف آتا ہے۔“
” لیکن میں نہیں ڈرتا۔ میں اسے اپنے اور تمہارے بارے میں سب کچھ بتا دوں گا“
”ہاں، وہ یقیناً سن کر بہت خوش ہو گی۔“
نیٹلی نے طنز کیا۔
” تم کل گیٹ پر آؤ گی؟“
”شاید۔“
لیکن پابلو کو پتہ تھا ’شاید‘ کا مطلب ’ہاں‘ ہے۔
گھر واپس جاتے ہوئے اس کی چال میں شیخی بھی تھی اور شوخی بھی۔
اس نے نیٹلی کی محبت جیت لی تھی۔
اگلی رات وہ گیٹ پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ پھر یہ معمول بن گیا۔ وہ ہر رات گیٹ پر آتا جہاں وہ دونوں گھنٹوں سرگوشیوں میں باتیں کرتے۔ اسے احساس تھا کہ کارلا کو معلوم ہے وہ یہاں رات کو آتا ہے۔ اس ڈر سے وہ اگلی اتوار کو اس سے ملنے نہیں آیا۔
ڈانس کی رات کے بعد کارلا ہر لمحہ اس کا انتظار کرتی رہی۔ وہ اس سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔ وہ اس کے قدموں میں پڑ کر اسے بتانا چاہتی تھی جتنا پیار وہ اس سے کرتی ہے اتنا کوئی اور عورت نہیں کر سکتی۔ وہ اس کے لئے اپنی جان قربان کر سکتی ہے۔ جی سکتی ہے۔ مر سکتی ہے۔
جب وہ اگلے ہفتے کے بعد بھی نہیں آیا تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اب مزید ایک اور ہفتہ بیٹے کو دیکھے بغیر گزارنا اسے دوبھر ہو رہا تھا۔ لیکن جب تیسرا ہفتہ شروع ہوا تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ پیار نفرت میں بدل چکا تھا۔ اب اگر وہ مر بھی جاتا تو اس کو افسوس نہ ہوتا۔ پابلو اس کے نزدیک احسان فراموش تھا۔
اس کے ذہن میں یہ سب کچھ نیٹلی کا کیا دھرا تھا۔ وہ طیش میں آگ بگولا ہو رہی تھی۔ نیٹلی سے حسد کی آگ اس کے جسم کی ہر پور کو جلا رہی تھی۔


تین ہفتے کے بعد جب پابلو میں ذرا ہمت ہوئی تو وہ ماں سے ملنے آیا۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ جب پابلو نے ماں کو گلے لگانا چاہا اس نے غصے میں بیٹے کے ہاتھ جھٹک دیے۔
”تو پہلے کیوں نہیں آیا؟“
”ماں تم نے خود ہی تو دروازہ بند کر لیا تھا۔ تم نے مجھے اندر نہیں آنے دیا۔ اور میں کیا کرتا۔“
”یہی وجہ ہے؟ کچھ اور تو نہیں؟“
”میں کام میں بہت مصروف تھا۔“
”مصروف؟ تجھ جیسا لوفر اور مصروف؟ تو نیٹلی سے ملنے کے لئے تو مصروف نہیں تھا۔ ہر رات اسے ملنے آتا۔ مگر ماں سے ملنے کے لئے مصروف ہو گیا۔“
” ماں، تم نے نیٹلی کو کیوں مارا؟“
”تجھے معلوم ہے اس نے مجھے قاتلہ کہا۔ سب کے سامنے۔“
”تو کیا ہوا؟“
پابلو کندھے اچکا کر بولا۔
”تو کیا ہوا؟ تو کیا ہوا؟“
کارلا نے چیخ کر کہا۔
” میں نے تیری محبت اور حفاظت کے لئے آندرے کو قتل کیا۔ کیونکہ وہ درندہ تجھے بے رحمی سے مارتا تھا۔ تیرے لئے سات سال قید میں گزارے۔ میں تیرے لئے زندہ رہی۔ تو سمجھتا ہے نیٹلی تیرا خیال رکھے گی۔ اسے تیری کیا پرواہ؟ اور تو گھنٹوں اس سے گیٹ پر باتیں کرتا ہے؟“
”ہاں۔“
اب کارلا پر ہر بات آشکار ہو گئی تھی۔ اس کی ہر امید مر چکی تھی۔ تیز تیز سانس لیتے ہوئے اس نے اپنا سینہ ایسے تھاما ہوا تھا جیسے اس کے دل کی دھڑکن بند ہونے والی ہو۔
”ماں، کچھ عقل کی بات کرو۔ میں بیس سال کا ہو گیا ہوں۔ تم آخر کیا توقع کرتی ہو؟ اگر نیٹلی نہ ہوتی تو کوئی اور لڑکی ہوتی۔“
نفرت نے کارلا کا چہرہ مسخ کر دیا تھا۔ اس نے پابلو کو دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے چلا کر کہا،
”نکل جا اس گھر سے۔ نکل جا میری زندگی سے۔ دفع ہو جا۔ اب کبھی اپنا منہ مجھے مت دکھانا“
غصے میں دروازہ بند کر کے پابلو کمرے سے باہر نکل گیا۔
کارلا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ وہ کھڑکی سے لگی اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس گیٹ کو مسلسل گھورے جا رہی تھی جس سے گزر کر اس کا بیٹا اس کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ کافی دیر کے بعد ٹرام کا کنڈکٹر ڈیوٹی سے لوٹ کر گیٹ سے داخل ہوا۔ پھر سناٹا چھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پیلار آئی اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنے فلیٹ کی طرف چل دی۔ کارلا کی نظریں گیٹ سے جڑی رہیں۔ گیٹ ایک دفعہ اور کھلا۔ یہ نیٹلی تھی۔ وہ چبوترے کے پار اپنے فلیٹ کی سیڑھیوں کی طرف جا رہی تھی۔ اس کی چال میں ایک سبک رفتاری تھی۔ زندگی تھی۔ جوانی تھی۔ حسن تھا۔
کارلا دبے پاؤں کمرے سے نکل کر گیٹ کی طرف بڑھی۔ نیٹلی ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے ہی والی تھی کہ کارلا نے ایک جنگلی جانور کی پھرتی سے اس کا بازو دبوچ لیا۔ نیٹلی نے بازو چھڑانا چاہا لیکن کارلا کی گرفت میں دیوانوں کی سی طاقت تھی۔
”چھوڑو مجھے۔ ورنہ میں ابھی سب کو بلاتی ہوں۔ ؟“
”یہ بتا کیا تو میرے بیٹے سے رات کو گیٹ پر ملتی ہے؟“
”ماں“ نیٹلی نے پیلار کو آواز دی۔
”جواب دے۔ میں تجھ سے پوچھ رہی ہوں؟“
”ہاں میں ملتی ہوں۔ کر لے کیا کرنا ہے تو نے۔ میں اور پابلو پیار کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ میں نے بھی ہاں کر دی ہے۔ تو سمجھتی ہے وہ تجھ سے ڈرتا ہے۔ وہ ڈرتا نہیں، تجھ سے نفرت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اچھا ہوتا اگر تو جیل ہی میں رہتی“
” اس نے یہ کہا؟ تجھ سے؟“
” ہاں۔ اس نے مجھے بتایا تو نے آندرے کو قتل کیا اور سات سال جیل میں رہی۔ وہ کہتا ہے تو اگر جیل ہی میں مر جاتی تو اچھا ہوتا۔“
کارلا بے یقینی کے عالم میں جیسے مفلوج ہو گئی تھی۔ اس کی گرفت نیٹلی کے بازو پر ہلکی ہوئی۔ نیٹلی نے موقع کو غنیمت جان کر اپنا بازو چھڑایا اور کہا،
”اور تجھ کو تو فخر ہونا چاہیے کہ میں تجھ جیسی قاتلہ کے بیٹے سے شادی پر آمادہ ہو گئی۔“
کارلا کو لگ رہا تھا جیسے اس پر الفاظ نہیں پتھر برس رہے ہوں۔ وہ منجمد ہو گئی تھی۔ بالکل حواس باختہ۔ نیٹلی نے اسے ایک دھکا دے کر اپنے سے الگ کر کے سیڑھی پر چڑھنا چاہا۔ لیکن اس دھکے سے کارلا پھر سے جیسے دوبارہ زندہ ہو گئی تھی۔ اس نے کندھے سے پکڑ کر نیٹلی کو گھسیٹا۔ نیٹلی نے مڑ کر اس کے چہرے کو ناخنوں سے زخمی کرنا چاہا۔ اس دوران کارلا اپنے بلاؤز کے اندر چھپا ہوا چاقو نکال چکی تھی۔ کارلا نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور ایک وحشیانہ چیخ کے ساتھ چاقو نیٹلی کے گلے میں بھونک دیا۔
”ماں“
نیٹلی ایک ذبح کیے ہوئے جانور کی طرح چلائی۔ وہ نچلی سیڑھی پر گر کر تڑپ رہی تھی۔ گردن سے خون ایک فوارے کی طرح اچھل اچھل کر نکل رہا تھا۔ لوگ باہر آ کر کارلا کو پکڑنے بڑھے۔ وہ خون آلود چاقو ہاتھ میں پکڑے دیوار سے لگی ان کو گھورتی رہی۔ پیلار بیٹی کی چیخیں سن کر سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اتری اور خون میں لپٹے ہوئے بدن سے چمٹ گئی۔ دیکھنے والوں کی توجہ پیلار کی طرف منتقل ہوئی۔ کارلا نے موقع غنیمت جانا۔ اپنے کمرے طرف لپکی۔ اور اندر سے چٹخنی لگا لی۔
ہمسایوں میں کوئی ڈاکٹر کو بلانے بھاگا، کوئی پولیس کو۔ ڈاکٹر اپنا کالا بیگ لئے پہنچا اور لہو لہان جسم کا معائنہ کرنے لگا۔ پولیس نے دروازہ توڑ کر کارلا کو ہتھکڑیاں لگائیں۔ ہمسائے کارلا کو دیکھ کر غصے میں اسے مارنے کے لئے لپکے لیکن پولیس نے اس کو گھیرے میں لے لیا۔ اس کی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی۔ ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ۔ جب وہ پولیس کی حوالت میں سیڑھیوں کے پاس سے گزری، جہاں ابھی تک ڈاکٹر نیٹلی کی لاش پر جھکا ہوا تھا، کارلا نے بلند آواز میں پوچھا،
”کیا یہ مر گئی ہے؟“
”ہاں“
ڈاکٹر نے جواب دیا۔
”تیرا شکر ہے پروردگار، تیرا شکر ہے“
کارلا نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).