امریکن الیکشن اور سیاسی جوڑ توڑ


الیکشن کوئی دن میں آیا ہی چاہتا ہے، جب ہم اپنی ڈاک روز کے روز اندر لاتے ہیں تو سوائے امیدواروں کے اشتہارات کے کچھ خاص نہیں ہوتا وہی وعدے مگر ایک فرق ہے کہ ساری کنویسنگ بس اشتہار بازی تک محدود ہے خواہ ڈاک کے ذریعے یا چھوٹے چھوٹے بینرز سڑکوں کے کنارے زمین میں گاڑھے ہوئے، بھلا کیا مزہ ہے اس الیکشن کا اگر ٹرمپ صاحب کے حامی زندہ ہاتھی لے کر سڑکوں پہ نا گھومیں یا بائیڈن صاحب کے حامی گدھے پر سوار ان کے لئے نعرے بازی نا کریں، ان صاحبان کی جو ریلیاں نکلتی ہیں اور جن میں یہ بنفس نفیس شرکت بھی کرتے ہیں سنا ہے ان جلسوں کے ختم ہونے کے بعد حاضرین سوکھے منہ ہی تتربتر ہو جاتے ہیں، ہائے نا ہوئی بریانی کی دیگوں کی کھنا کھن، نا اشتہا انگیز خوشبو اڑاتے قیمے والے نان یا چلو آٹے کے تھیلے ہی سہی مگر توبہ کریں تو جب ہمیں کچھ نا ملا تو ضمیر کو جنجھوڑنا ہی پڑا کیونکہ فیصلہ کن کردار تو ضمیر صاحب ہی ادا کریں گے۔

ہمارے موجودہ صدر صاحب ڈونلڈ ٹرمپ یا تو تین دن کے بعد بھی وائٹ ہاؤس رہیں گے ورنہ سابقہ ہو جائیں وہ امریکہ کے 45 ویں اور موجودہ صدر ہیں اور انہوں نے پنسلوانیا یونیورسٹی کے وہارٹن سکول سے اکنامکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ویسے ریپبلکن پارٹی میں اب تک دو صدر ایسے آئے ہیں جن کا شو بزنس بھی تعلق ہے یعنی رونلڈ ریگن اور مسٹر ٹرمپ اور اس طرح کے امیدوار تب کامیاب ہوتے ہیں جب اسٹیبلشمنٹ کو نیا چہرہ چاہیے ہوتا ہے چنانچہ مسٹر ریگن نے سوویت یونین کے ساتھ Salt 11 کا معاہدہ کر کے کمیونزم کی کمر توڑ دی تھی بالکل اسی طرح مسٹر ٹرمپ نے عربوں سے اسرائیل کو قبول کروا کر مسلم دنیا کی کمر توڑ دی۔

مسٹر ریگن کو دوسری ٹرم مل گئی حالانکہ پری الیکشن نمبرز کچھ اور کہتے تھے اور صورتحال اب بھی یہی ہے کہ دیکھیں gods of dooms day کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کی پولٹیکل فلاسفی کی ابتدا چھ سال پہلے شروع ہو گئی تھی اور اس ہو نہار بروا نے امریکی عوام کو اپنے نادر ارادوں سے چونکا دیا تھا، ان کے خیال میں تمام بین الاقوامی معاہدے اگر ملک کی بہتری کے تناظر میں دیکھے جائیں تو گھاٹے کا سودا ہیں اسی طرح امیگریشن کے قوانین امریکیوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں سو ان کے اس بیانیے کو بھی شہرت ملی اور برسر اقتدار آ کر انھوں نے سب سے پہلے چائنہ کے ساتھ تجارتی پابندیاں لگانی شروع کیں مگر نقصان پھر بھی یہاں پر دیہی ریاستوں کا ہوا جن میں نیبراسکا، اوکلاہوما، کینسس اور آئیووا شامل ہیں بلکہ آئیووا کے کسانوں نے بے تحاشا نقصان اٹھایا مگر ٹرمپ ان کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ”مادر وطن“ کے لئے یہ قربانی معمولی ہے اور جب وہ کسان نا ہی ڈیری مصنوعات اور نا ہی فصلیں اگا رہے ہیں کیونکہ چین نے بھی ان سیکٹرز میں جوابی پابندیاں لگا دی ہیں مگر یہ لوگ ووٹ پھر بھی ٹرمپ ہی کو دیں گے۔ ٹرمپ کا سب سے مضبوط پوائنٹ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ہے اور آگے ان کے ہو نہار داماد جیرڈ کشنر (جو اصل نسل یہودی ہیں ) کے امریکی اسرائیل رابطے رنگ لائے اور یروشلم ہی اسرائیل کا نیا دارالحکومت ٹھہرا۔

صدر صاحب کے کیمپ میں موجود ماہرین شماریات کا کہنا ہے کہ ان کا غیر متزلزل ووٹ کیمپ ہمیشہ پینتیس فیصد رہے گا اور ان کو دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لئے دس سے بارہ فیصد ووٹرز کی حمایت چاہیے جو مشکل ہدف نہیں ہے مگر ہمارے ذاتی خیال میں یہ ایک شاطرانہ چال سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور اس کا ثبوت 2016 میں مشی گن کا رزلٹ ہے۔ اپنے ووٹرز پر ان کے اعتبار کا لیول آپ ذرا چیک کریں کہ کہتے ہیں اگر میں ففتھ ایونیو کے چوک میں کسی انسان کو گولی بھی مار دوں تو بھی عوام میں مقبول رہوں گا میرا ووٹر ضائع نہیں ہوگا وہ مجھے ہی ووٹ دیں گے۔

سیاست کی نصابی کتاب کے مطابق مسٹر ٹرمپ کے پاس کھیل میں رہنے کے لئے تاش کے بڑے پتے ہیں اور وہ ان کو شو کرنے میں کسی بھی وقت نہیں گھبرائیں گے، ویسے بھی انھوں نے پاکستانی سیاست دانوں کا بیانیہ پکڑ لیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میرے الیکشن میں گند ضرور کرے گی کہ میں عوامی نمائندہ ہوں۔

مسٹر ٹرمپ کے خلاف اگرچہ کچھ چیزیں جاتی ہیں جیسے امیگریشن کی سختی میں میکسیکن پاپولیشن سے انتہائی ظالمانہ سلوک، معصوم بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کر جانوروں کے پنجروں میں بند رکھا یہاں تک کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ اٹھیں۔ شمالی کوریا سے بے مقصد مذاکرات اور روس میں ذاتی مفادات کی حفاظت اور سب سے بڑھ کر کووڈ 19 کو بھونڈے انداز میں ڈیل کرنا، تقریروں میں میں دنیا کو محظوظ کرنا بلکہ ان کے سابق چیف آف سٹاف سٹیو بینن کہتے ہیں کہ پریزیڈنٹ کو خاص کسی موقع پر خاموش رکھنا بہت بڑا چیلنج تھا اس سے نپٹنے سے ہم ہمیشہ ناکام رہے تھے، اور یہ سچ ہے کیونکہ پہلے مباحثے میں ٹرمپ نے جو زبان استعمال کی اس کی مثال پچھلے ستر سال میں نہیں ملتی۔

چلئے اب مسٹر بائییڈن کی بات کر لیتے ہیں تو ان کے حق میں سب سے بڑی بات جو جاتی ہے تو ان کو ڈیموکریٹ پارٹی کے کلنٹن کیمپ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور پچھلی بار بھی ڈیمو کریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن اصل میں ہاری تھیں نا کہ ٹرمپ جیتے تھے، اس کے باوجود کہ بائیڈن الیکشن سیزن کے کلائمیکس کے کمحات میں اپنے آپ کو ٹرمپ سے زیادہ پرو اسرائیل ثابت کر رہے ہیں اور اسرائیلی لابی کو ان کے مفادات کے تحفظ کا یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور اس وقت جب کہ وہ صیہونی حمایت کے طلبگار ہیں اپنے پہلے مباحثے میں انھوں نے کمال مہارت سے انشا اللہ کا لفظ استعمال کر کے کچھ کچھ مسلمانوں کے دل بھی جیتنے کی کوشش کی۔

بائیڈن ڈیمو کریٹ امیدوار ہونے کے ناتے اعتدال پسند لیڈر ہیں اور وہ کسی بہت بڑی بین الاقوامی سازش کا حصہ بھی نہیں سمجھے جاتے، اپنے بیانات میں اقلیتوں کے تحفظ کی بھی بات کرتے ہیں تو وہاں بھی اپنے بیانیہ کے باعث مقبول ہو رہے ہیں اور عام ووٹر کی نگاہ میں جو بائیڈن کی ذات بہت چکا چاند والی نہیں ہے مگر بڑے بڑے سکینڈل بھی ان کا پیچھا نہیں کر رہے ہیں چنانچہ تمام تر مجبوریوں کے باوجود عام ووٹر ان کو بہتر آپشن کے طور پر لے رہے ہیں۔

جو بائیڈن کے لئے ایک منفی چیز ان کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن کا یوکرائن گورنمنٹ کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ پچاس ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ ہے۔ ویسے ہمارے خیال میں ان کا اقامہ چیک ہونا چاہیے۔

سٹیٹکس کے مطابق ٹرمپ کے 163 الیکٹورل ووٹ کے مقابلے میں بائیڈن کو 290 سے سبقت حاصل ہے جب کہ 120 فیصلے کے منتظر ہیں لیکن بعض لوگوں کی ”چھٹی حس“ کہتی ہے کہ کچھ فیصلے عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل بھی ہو سکتے ہیں۔

اس کالم کو تحریر کرنے سے پہلے چھ کروڑ کے لگ بھگ لوگ ووٹ ڈال چکے ہیں اور ان میں ہم بھی شامل ہیں اور ووٹوں کو بدلا نہی جا سکتا اور سٹیٹسکل نمبرز کے مطابق صدر کا فیصلہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ آپ بھی دیکھئے ہم بھی دیکھیں گے کہ
ٹرمپ یا بائیڈن

کوئی بھی ہو، ہم یہ امید کرتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں وہ عالمی امن کو تباہ کرنے سے گریز اور فوجی مہم جوئی کو کنٹرول کریں سو باتوں کی ایک بات کہ پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).