یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا


سیاست، انسانی شعور کا پیچیدہ ترین سماجی علم ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ ایک ایسا سماجی ادارہ بن گیا جو انسانی جذبات، مذہب، عائلی زندگی، ثقافت، زبان، غرض انسانی تہذیب کے ہر پہلو پہ حاوی ہو کر انسانوں کے درمیان نفرت کے بیج بو رہا ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟

مذہب، ایک ایسا تصور ہے، جس میں آج بھی بہت سے لوگ پناہ تلاش کرتے ہیں۔ مذہبی عقائد مقدس ہوتے ہیں خواہ کسی شخص کے بھی ہوں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ اس مقدس جذبے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بہت آسان ہے۔ اب یہ استعمال کرنے والے پہ منحصر ہے کہ وہ کس رخ سے حملہ کرتا ہے۔ مذہبی جذبات بھڑکا کے یا لوگوں کو مذہب کے خلاف بھڑکا کے۔

بین الاقوامی سیاست میں مذہب کو استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ صلیبی جنگوں کے چھوٹے ہوئے تیر آج بھی تاریخ کے صفحوں میں پیوست ہیں۔ تینوں ابراہیمی ادیان کے درمیان نفرت پھیلانے والے سیاست دان ہی تھے۔

اسی انڈیا میں جہاں آج مسلمان سہمے ہوئے رہتے ہیں اور اسی پاکستان میں جہاں آرزو راجہ کو مبینہ طور پہ بالجبر مسلمان کیا گیا، وہیں ہندو، مسلم ،سکھ، عیسائی ،پارسی صدیوں امن سے بھی ساتھ رہے۔ ساتھ رہنے کے لیے مذہبی عقائد کا ایک ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

آزادی اظہار بھی ایک مقدس لفظ ہے لیکن جس طرح کسی شخص کو مذہب کی تقدیس کی آڑ لے کر فساد کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اسی طرح کسی کو آزادی اظہار کی ڈھال کے پیچھے چھپ کر اپنی سیاست چمکانے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہیے۔

صحافیوں نے آزادی اظہار کے لیے جانیں دیں۔ جمال خاشقجی کا سانحہ تو ابھی بالکل تازہ ہے۔

لیکن ہمیں یہ علم نہ تھا کہ ایک روز یہ چراغ لے کے اس سے ایک ایسی آگ بھڑکائی جائے گی جس کا دھواں انسان اور انسان کے درمیان نفرت کی دیوار اٹھا دے گا۔ نفرت کی دیوار کو تو یاجوج ماجوج بھی نہیں چاٹ سکتے۔ یہ ایک بار اٹھ گئی تو اٹھ گئی۔

دنیا بھر کے لیڈر یہ جان چکے ہیں کہ شدت پسند ووٹ ہی کامیابی کا ضامن ہے تو پھر وہ مودی ہوں، ٹرمپ ہوں، اردوعان ہوں، میکخواں ہوں، رویہ ایک سا ہوتا ہے۔

معصوم انسانوں کے قتل، مزید معصوم انسانوں کے درمیان نفرت اور خوف کی یہ فضا کس نے بنائی؟ کیا اس کے ذمہ دار مذاہب ہیں؟ کیا آزادی اظہار ایک ایسا آسیب ہے جو لوگوں کی دل آزاری کا سبب بن رہا ہے؟ دنیا کی جو شکل آج ہے، اس میں ایسے لوگ کہاں جائیں جنھیں اپنے عقائد بھی عزیز ہیں اور آزادی اظہار پہ بھی یقین رکھتے ہیں؟

شدت پسندوں کی اس دنیا میں معتدل مزاج لوگ فقط فٹ بال کی طرح ایک سوچ کے لوگوں کی ٹھوکر کھا کے دوسرے کیمپ سے ٹھڈے کھانے کا انتظار کرتے ہیں۔

کیا میکخواں کے پاس اس مسئلے کا یہ ہی حل تھا؟ اور کیا یہ کوئی حل ہے بھی یا نفرتوں کے نئے پٹارے کھولنے کی کوشش ہے؟

ڈنمارک کے ایک سفر کے دوران مجھے وہاں آباد مسلمانوں کے ایک اجتماع میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ان دنوں وہاں، راس موس کا چرچا تھا۔ میں نے ان مٹھی بھر لوگوں کے چہرے پہ جو دکھ اور بے بسی دیکھی بیان سے باہر ہے۔ مزدور، تارکین وطن اگر اپنے عقیدے سے لپٹے جی رہے ہیں تو ان کی دل آزاری کیوں کی جائے؟ اس میں کس کا فائدہ ہے؟

فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ میکخواں کی سیاست کو کیا نقصان پہنچائے گا؟ فرانس میں آباد مسلمان کس خوف میں جیئں گے؟ فرانس کا عام شہری ،اپنے ہی جیسے دوسرے شہری سے صرف اس لیے ڈرے گا کہ وہ مسلمان ہے؟ چرچ پہ ہونے والے حملے اور دیگر واقعات میں کیا واقعی عام فرانسیسی مسلمان ملوث ہے، کیا چارلی ہیبڈو واقعی آزادی اظہار کی راہ پہ گامزن ہے اور کیا آزادی اظہار کا راستہ یہی ہے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟

مذہب اور آزادی اظہار کا یہ ٹکراؤ کہاں جا کے رکے گا؟ کیا آہستہ آہستہ دنیا دو دھڑوں میں بٹتی جائے گی اور معتدل لوگ کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جائیں گے؟ ہم نے جس دنیا کے خواب دیکھے اس میں امن، محبت اور بھائی چارہ تھا، ہمیں جو دنیا ملی اس میں نفرت اور شدت پسندی تھی، ہم جو دنیا چھوڑ کر جائیں گے کیا اس میں بھی نفرت راج کرتی ہو گی اور انسان انسان کے در پے ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).