کامران خان کی وارننگ


پاکستانی سیاست کی بے لگامی نے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو شدید اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جو لوگ دیکھنے، سننے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں، ان کو رکھیے ایک طرف لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ سب صلاحیتیں کچھ نہ کچھ عطا کر رکھی ہیں، ان کی آنکھوں کی نیند اڑ اڑ جاتی ہے ؎

پھر کہیں منزل پہ جا کر لٹ نہ جائے کارواں
اٹھتے جاتے ہیں قدم، اور بیٹھتا جاتا ہے دل

برادر عزیز کامران خان، جن کے کسی تجزیے یا خیال سے اختلاف کرنے والے بھی ان کی سنیارٹی، اور سوجھ بوجھ کا انکار نہیں کر سکتے، چیخ پڑے ہیں۔ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے وارننگ دے ڈالی ہے کہ پاکستانی جمہوریت شدید خطرے سے دوچار ہو چکی ہے، اسے ابدی نیند بھی سلایا جا سکتا ہے۔ ابدی نہ سہی، گہری نیند کا خطرہ تو بہرحال سروں پر منڈلانے لگا ہے۔ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں بار بار اہل سیاست ایک دوسرے سے الجھے ہیں، اور اس الجھاؤ کے نتیجے میں اپنے ہاتھ خالی کر بیٹھے ہیں۔

پاکستان کے گزشتہ سال بار بار مارشل لا سے دوچار ہو چکے ہیں، سقوط ڈھاکہ کے بعد ہم نے بڑے بڑوں کو آنسو بہاتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے دیکھا ہے۔ جہاں اہل سیاست اور اہل صحافت مل بیٹھتے، توبہ، توبہ کرتے، اور آئندہ وہ کچھ نہ کرنے کا عہد کرتے، جس کا نتیجہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں برپا ہونے والی قیامت کی صورت سامنے آیا۔ اہل سیاست نے باہم مل بیٹھ کر ”نئے پاکستان“ کا دستور بنا لیا۔ اس پر سب چھوٹی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتیں متفق ہو گئیں، تو اطمینان کا سانس لیا گیا کہ اب معاملات مختلف انداز میں چلیں گے۔ دستور کے جس جھگڑے نے ملک کے دو حصوں کو دو ملکوں میں ڈھال دیا تھا، وہ اب سر نہیں اٹھائے گا، اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے، خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔

پاکستان ووٹ کی طاقت سے قائم ہوا تھا، اور یہی طاقت جمہوریت کی روح ہے۔ اول روز ہی سے نئی مملکت کو پارلیمانی جمہوریت کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا کہ برطانوی دور میں اسی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میں جمہوریت، پارلیمانی نظام سے جڑی ہوئی تھی۔ پاکستان جغرافیائی طور پر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا، دونوں کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ تھا۔ درمیان میں بھارت تھا، اس کی فضاؤں میں تیرتے ہوئے ہی کراچی سے ڈھاکہ پہنچنا ممکن تھا۔

بحری جہاز کے ذریعے یہ کئی روز کا سفر تھا۔ جغرافیائی تسلسل کے بغیر کسی ملک کا وجود حیران کن نظر آتا تھا، لیکن دونوں حصوں کو آزادی کی مشترکہ تحریک نے ایک دوسرے سے باندھ دیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے جڑنے ہی میں اپنی بقا سمجھتے تھے، ہر طرف پھیلے ہوئے بھارت کے مقابل کھڑا رہنے کے لئے یہ ضروری تھا۔ اگر دہلی اور چنائے کے درمیان دو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ انہیں ایک ملک کا حصہ بنائے رکھنے میں رکاوٹ نہیں تھا، تو پھر کراچی اور ڈھاکہ بھی دور رہ کر قریب ہو سکتے اور قریب رہ سکتے تھے۔

بھارت سے تعلقات بہتر ہوتے تو مغربی پاکستان سے بذریعہ ٹرین بھی سفر ممکن ہوتا، جب تقسیم ہند پر اتفاق ہوا تو دو دشمن یا متحارب ممالک جنم نہیں لے رہے تھے۔ سمجھا یہی گیا تھا کہ دو بھائیوں میں وراثت کی تقسیم ہو رہی ہے، اپنے اپنے حصوں کے حصول کے بعد دونوں میں معمول کے تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے سفر جاری رکھا جا سکے گا، لیکن جو کچھ ہوا، اور خواب جس طرح چکنا چور ہوئے، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ الزام جسے بھی دیں، پاکستان اور بھارت دشمن کی طرح ایک دوسرے کو گھورتے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے عہد باندھے گئے کہ اب ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دیے جائیں گے جن سے دشمن فائدہ اٹھا سکے۔ اہل سیاست نے ماضی بھلا کر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی روش اپنائی، اور نیا پاکستان فراٹے بھرنے لگا۔ لیکن مصالحانہ اور مفاہمانہ رویہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا۔ اقتدار منہ زور ہوا، تو اختلاف کرنے والوں نے بھی سر پر کفن باندھ لیا۔ وہ دھما چوکڑی مچائی کہ وہ مارشل لا نجات دہندہ بن کر سامنے آیا، جس کا ماضی میں دو بار مزہ چکھا جا چکا تھا، جس نے سیاسی عمل کو کمزور کر کے جذبۂ وحدت کو کمزور کر دکھایا تھا۔

جنرل ضیا الحق ”مرد مومن مرد حق“ کے نعروں میں جلوہ گر ہوئے، اور ان کا اقتدار طول پکڑتا گیا۔ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں اللہ توبہ کر کے جمہوریت بحال ہوئی تو نئے کردار ابھر کر سامنے آئے۔ پرانے کردار قصۂ ماضی بن چکے تھے، لیکن ان کے نئے وارثوں نے بھی کچھ عرصے بعد ایک دوسرے کے لتے لینے شروع کر دیے، نتیجتاً تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا۔ بعد از خرابیٔ بسیار پھر اہل سیاست کے ہاتھ میں باگ ڈور آئی، لیکن اب مزید نئے کردار کھیل میں شریک تھے۔

انہوں نے نعرے تو نئے لگائے، خواب بھی نئے دکھائے، لیکن کچھ نیا کر کے دکھانے میں تا حال کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ اہل اقتدار اور اختلاف ایک دوسرے کے لتے لیتے لیتے اب دفاعی اداروں کو بھی درمیان میں لے آئے ہیں۔ مخالف جماعتیں متحدہ محاذ بنا چکی ہیں، لیکن وہ حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں نہ حکومت ان سے بات کرنے پر آمادہ۔ الزامات کی بوچھاڑ ہے، کرپشن سے بات نکل کر غداری کے الزامات تک جا پہنچی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو اپنے اوپر قابو ہے، نہ حزب اقتدار کو۔

قومی سلامتی کے امور متنازعہ بنائے جا رہے ہیں۔ قومی معیشت کی کمر قرضوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی کے سانپ پھن پھیلائے کھڑے ہیں، لیکن اہل سیاست ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگی مشق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر پاکستانی بصد ادب گزارش کر رہا ہے کہ خدا را، اپنی لڑائی اپنے تک محدود رکھو۔ آپس میں مل بیٹھو، حدود و قیود طے کر لو، ان کے اندر رہو۔ دستور کے تحت طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہے، قانون سازی اسے ہی کرنی ہے اور معاملہ سازی بھی اسی کا کام ہے۔

مسلح افواج ہوں یا عدلیہ، ان میں سے کسی کے پاس کوئی قانون بنانے یا اختیارات کی تقسیم میں رد و بدل کرنے کا اختیار نہیں ہے ’اور تو اور، نیب کو جو اختیارات دیے گئے ہیں‘ وہ بھی پارلیمنٹ ہی کے مرہون منت ہیں۔ پارلیمنٹ اگر اپنے فرائض ادا نہیں کر پا رہی، یا ماضی میں نہیں کر سکی تو پھر ذمہ داری انہی کے سر ہو گی، جو پارلیمنٹ میں بیٹھتے رہے ہیں یا بیٹھے ہوئے ہیں۔ زبان درازیوں سے مسائل حل ہوئے ہیں، نہ ہوں گے، شعلوں کو ہوا نہ دیجیے، یہ دامن جلاتے ہوئے اس کا رنگ اور ماپ نہیں دیکھتے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ”ہمارا“ مکان تھوڑی ہے

مجیب الرحمن شامی
Latest posts by مجیب الرحمن شامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجیب الرحمن شامی

یہ کالم روز نامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے

mujeeb-ur-rehman-shami has 129 posts and counting.See all posts by mujeeb-ur-rehman-shami