فرانس پہ، سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا



ولیم میور نے 1866 میں چار جلدوں پر مشتمل ”لائف آف محمد“ تحریر کی۔ اس کتاب کے ماخذ تاریخ طبری، کتب احادیث اور سیرت کے اولین نسخہ جات تھے۔ کتاب تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی گئی تھی اور اس میں موجود تجزیے عقیدت اور مدح کی قید سے آزاد تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نبی ﷺ کی ذات کے ایسے زاویے مآخذ کی روشنی میں سامنے آئے جو مسلمانوں کو قابل قبول نہ تھے۔ مسلم دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص ایک شور سا اٹھ گیا۔ کتاب پر تنقید شروع ہو گئی جو جلد ہی ایک سماجی غم اور غصے کی لہر میں بدل گئی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سرسید احمد خان علی گڑھ کالج کا بیج بونے میں مصروف تھے اور اسی سلسلے میں سائنٹیفک سوسائٹی آف علی گڑھ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔

ولیم میور کی کتاب بزبان انگریزی تھی۔ سرسید اس کے خلاف مظاہروں میں بھی شریک ہو سکتے تھے، تقریر کرنا تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور کتاب پر پابندی لگوانے کی مہم بھی سامنے تھی۔ سرسید نے البتہ ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے خود ولیم میور کی کتاب کا اردو ترجمہ کروایا تاکہ اس پر ایسے لوگوں سے بھی رائے لی جا سکے جو کتاب کو انگریزی میں پڑھنے سے قاصر ہونے کے باوجود اس پر تنقید میں پیش پیش تھے۔ اس کے بعد سرسید احمد خاں خود لندن جا پہنچے۔ گرچہ ان کا یہ سفر کثیر المقاصد تھا جس میں بنیادی توجہ برطانوی تعلیم نظام کا مطالعہ تھا لیکن انہوں نے ساتھ ساتھ سینکڑوں گھنٹے لندن کے کتب خانوں میں گزارے تاکہ ”لائف آف محمد“ کے حوالے سے اپنی تحقیق مکمل کر سکیں۔

قریبا تین سال کی تحقیق کے بعد سرسید احمد خان نے الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرت المحمدیہ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی جس میں ”لائف آف محمد“ میں اٹھائے گئے اعتراضات اور سوالوں کا علمی محاکمہ کیا گیا تھا۔ اس کتاب کو آج ہم خطبات احمدیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ 1870 میں ہی اس کا انگریزی ترجمہ بھی سرسید نے لندن سے شائع کروایا تاکہ انگریزی دان طبقہ دونوں کتابیں پڑھ کر اپنا فیصلہ خود کر سکے۔ سرسید نے نہ صرف ”لائف آف محمد“ کے تجزیے پر اپنا تبصرہ کیا بلکہ اسلامی مآخذ کو بھی بڑی بے رحمی سے تنقید کا نشانہ بنایا جن کی بنیاد پر یہ کتاب تشکیل دی گئی تھی۔ اس کا ایک ضمنی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سرسید کے خلاف منکر حدیث، منکر اجماع، منکر تفسیر اور منکر فقہ کے الزام اور مستحکم ہو گئے پر سرسید اس کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں لگے رہے اور مسلمانان ہند کے لیے ایک تعلیمی انقلاب کی راہ بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے عشق رسول ﷺ کی شہادت بھی علمی میدان میں رکھ دی جو آج بھی تاباں ہے۔

کچھ سال آگے چلتے ہیں۔ 1923 میں راج پال نامی ایک پبلشر ایک کتابچہ شائع کرتا ہے جس کا عنوان ”رنگیلا رسول“ ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کتابچے کا مصنف کون ہے اس لیے سارا نزلہ راج پال پر گرتا ہے۔ ”لائف آف محمد“ کی طرح اس کتابچے کا مواد بھی بخاری، محمد ابن اسحاق کی سیرۃ الرسول اللہ، تاریخ طبری اور حدیث کی دیگر مستند کتب سے اٹھایا گیا ہے اور انہی سے اخذ و استنباط کر کے رسول اللہ کی شخصیت اور زندگی پر ایک دفعہ پھر اعتراضات کھڑے کیے گئے ہیں۔

1924 میں مولانا ثنا اللہ امرتسری ”مقدس رسول“ کے نام سے ایک جوابی کتاب تحریر کرتے ہیں لیکن اب عطا اللہ شاہ بخاری جیسے شعلہ بیان مقررین کا دور ہے جو علمی میدان سے زیادہ جذبات کے میدان میں شہ سواری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ”مقدس رسول“ اس شہ سواری سے اٹھی گرد میں گم ہو جاتی ہے اور مظاہروں، گھیراؤ جلاؤ اور احتجاج کی نیو پر ایک نئی طرح کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے۔ انتقام اور قتال کی صدا در صدا بلند ہوتے ہوتے 1929 میں اس مقام پر پہنچتی ہے جب علم الدین نامی نوجوان لاہور میں راج پال کو قتل کر کے اپنی دانست میں عشق رسول ﷺ کا ثبوت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ عدالتی کارروائی میں وہ اس قتل کی واردات سے مکمل بے خبری کا دعوی کرتے ہوئے مکر جاتا ہے کہ قتل اس نے کیا تھا۔ گواہ مضبوط ہیں اور شہادتیں بھی قوی ہیں اس لیے اسے موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔

سرسید احمد خان کی تحریک علی گڑھ یونیورسٹی کی صورت میں، اور کسی حد تک مسلمانان ہند کے ایک الگ ملک پاکستان کی صورت میں آج دیکھی جا سکتی ہے۔ عطا اللہ شاہ بخاری اور غازی علم الدین کی ڈالی گئی روایت بھی ممتاز قادری، اکرم ماچھی، عامر چیمہ اور فیصل خالد کی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ اس موازنے میں خطے کے باسیوں کے لیے کیا سبق پوشیدہ ہیں وہ سمجھنے کے لیے تھوڑی بہت عقل بھی کافی ہے۔ اس لیے میں بات یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں۔ برصغیر سے نکلتے ہیں اور فرانس کی ساحل پر اترتے ہیں۔

1789 میں فرانسیسی انقلاب شروع ہوتا ہے اور دس سال کی خونی جدوجہد کے بعد فرانسیسی ری پبلک وجود میں آتی ہے۔ اس انقلاب کی بنیاد ”انسان اور شہری کے حقوق کا اعلامیہ“ ہے۔ یہ اعلامیہ لاک، جیفرسن، لافییاٹ، آبے سیا اور والٹیئر جیسے نابغوں کی دین ہے جو انسان کے فطری حقوق کی پاسداری کا اعلان ہے۔ یہ اعلامیہ نشاۃ ثانیہ کی انتہا اور تاریکی سے نور کی جانب مراجعت کا اہم سنگ میل ہے۔ فرانسیسی آئین اسی اعلامیے کی ترویج کرتا ہے جہاں انسان کی آزادی، آزادی اظہار سے عبارت ہے۔ مذہب یا عقیدہ کار حکومت سے الگ ہے، سماج کی تشکیل میں مذہبی کردار کی نفی ہے اور قوانین کی بنت شعور اجتماعی پر منحصر ہے۔

1789 کے بعد فرانس کی ثقافتی، سماجی اور ریاستی شناخت کا دوسرا اہم پڑاؤ 1905 ہے جب کلیسا کو مکمل طور پر کار ریاست سے بے دخل کر دیا گیا اور فرانس ایک مکمل سیکولر ریاست کے طور پر سامنے آیا جہاں مذہب فرد تک محدود کر دیا گیا۔ 1905 کے قوانین مذہب کی نفی نہیں کرتے بلکہ انفرادی سطح پر اس حق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنے مذہب کو فرد کے طور پر ماننے اور اس پر عمل کرنے میں آزاد ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی لیکن ریاست اس معاملے میں مکمل غیر جانبدار رہے گی۔

فرانس نے سیکولر ازم کے فلسفے کو حرز جاں بنانے تک کے سفر میں ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہے اس لیے یہ سوال تو اٹھتا ہی نہیں کہ وہ کسی بھی صورت اس سے روگردانی کر سکتا ہے۔ ہم فرانس کو اپنی عینک کے شیشوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لیے کبھی بھی درست نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔

فرانس کے خاکوں سے جڑی دہشت گردی کے خلاف ردعمل کو سمجھنے کے لیے شاید فرانس کے حالیہ سیاسی منظر نامے کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون ایک معتدل رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کا جھکاؤ نہ بائیں بازو کی طرف ہے نہ دائیں بازو کی طرف۔ وہ سوشل لبرل ازم اور ہمہ گیر ثقافت پر یقین رکھتے ہیں جس میں فرانسیسی اقلیتوں کے تحفظ کی مکمل ضمانت موجود ہے۔ اینگلا مرکل ہی کی طرح انہوں نے مسلمان پناہ گزینوں کے لیے انتہائی نرم امیگریشن پالیسی کا انتخاب کیا اور فرانس کی ثقافت میں مسلمانوں کے کردار کا مسلسل دفاع کرتے رہے۔

ان کے مقابلے میں نیشنل ریلی پولیٹیکل پارٹی کی راہ نما میرین لی پین ہیں جو سخت گیر دائیں بازو کی نمائندہ ہیں۔ لی پین کے خیال میں ہمہ گیر ثقافت کا نظریہ ناکام ہو چکا ہے۔ وہ میکرون کے بالکل برعکس فرانسیسی معاشرے کو اسلامی اثرات سے پاک کرنے کی مہم پر زور دیتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امیگریشن قوانین میں مسلم ممالک سے کسی ہجرت کی گنجائش نہیں رکھنی چاہیے۔ غیر قانونی تارکین وطن کی فوری بے دخلی ان کے ایجنڈا پر ہے۔ ان کی سخت گیری اس حد تک ہے کہ عرب بہار کے بعد انہوں نے فرانسیسی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ شینجن سے فرانس کو الگ ہو جانا چاہیے تاکہ باقی یورپ سے کوئی عرب تارک وطن فرانسیسی سرحدوں میں داخل نہ ہو سکے۔

اسلام پسندوں کی حالیہ تشدد پسندی کی لہر کے بعد لی پین کے بیانیے کو تقویت ملی ہے اور میکرون کے پاس اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا کہ وہ اس معاملے پر سخت ترین موقف اختیار کریں۔ خاکوں کے معاملے پر ان کا رویہ فرانسیسی آزادی اظہار کے حقوق کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی پس منظر بھی رکھتا ہے۔ اس سب کے باوجود میکرون نے یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ خاکے کوئی حکومتی پروجیکٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق حکومتی بیانیے سے ہے۔ حکومت لیکن اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت کو سب سے مقدم جانتی ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔

یاد رکھیے کہ مسلم شدت پسندی کی لہر اور بڑھتی ہے تو یہ فرانس کے لاکھوں مسلمان شہریوں کے لیے ایک بہت بڑا امتحان کھڑا کر دے گی۔ لی پین کی مزید سیاسی قوت کا مطلب مسلمانوں کے لیے مشکلات میں کمی نہیں، بلکہ اضافہ کرے گا۔ لیکن امت مرحوم کے نمائندے اس منظر نامے سے بالکل لاتعلق نظر آتے ہوئے عطا اللہ شاہ بخاری اور علم الدین کی پیروی میں مصروف ہیں۔

اگلا سوال خاکوں سے متعلق ہے؟ کیا خاکے محض اس لیے بنائے گئے کہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔ کیا ان کا مقصد اسلامی حمیت کو پرکھنا تھا۔ کیا ان کے پیچھے کوئی گہری سازش موجود تھی۔ یہ سارے جواز مسلم معاشروں میں 2011 سے دیے جا رہے ہیں جب پہلی دفعہ ان خاکوں کے ردعمل کے طور پر چارلی ہیبڈو پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

چارلی ہیبڈو بنیادی طور پر ایک بائیں بازو کا نمائندہ رسالہ ہے جو 1970 سے کام کر رہا ہے۔ رسالے میں طنزیہ مضامین، کیری کیچرز اور کارٹون تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ تاریخی، ثقافتی اور سماجی تناظر میں چارلی ہیبڈو کے نزدیک عقائد یا تاریخی شخصیات کسی تقدس کی حامل نہیں ہیں اس لیے ان کا مذاق اسی طرح اڑایا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی سیاسی راہنما کا یا کسی سیاسی فکر کا۔ مثال کے طور پر پچھلے پچاس سال میں چارلی ہیبڈو نے سینکڑوں دفعہ کیتھولک چرچ کا مذاق اڑایا، حضرت عیسی کے حوالے سے بھی ایسے ہی خاکے بنے۔ عیسائی مذہب پر تنقید کے دفتر کھولے گئے لیکن تمام عیسائی دنیا سے اس پر کوئی سخت ردعمل نہیں آیا۔ چارلی ہیبڈو نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی ایسے ہی خاکے بنائے لیکن اس پر بھی یورپ یا امریکا کے سرمایہ دارانہ معاشروں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ یہ متمدن معاشرے اس بات کے قائل ہیں کہ عقائد، فلسفے، فکر اور شخصیات علمی یا طنزیہ تنقید سے بالاتر نہیں ہوتے اور وہ اسے اہانت یا تضحیک جیسے لفظوں سے نہیں جوڑتے بلکہ اسے معاشرتی اور سماجی تطہیر کا ایک جزو سمجھتے ہیں۔

2001 کے بعد مسلم شدت پسندی کی لہر کو دنیا بھر نے محسوس کیا۔ ہزاروں لوگ اس شدت پسندی کی بھینٹ چڑھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی وجوہات میں امریکا بہادر کی استعماری پالیسی ایک بہت اہم وجہ تھی لیکن اس پر سارا الزام رکھ کر مسلم شدت پسندی کا دفاع ممکن نہیں۔ دہشت گردی کی اس لہر کے جواز اس کے علمبرداروں نے مذہب سے برآمد کیے اور یہ وہی مذہب تھا جس کا پیغام محمد عربی ﷺ کے ذریعے نوع انسانی تک پہنچا۔ چونکہ ہم اس شدت پسندی والے بیانیے پر بضد رہے اس لیے مغرب اس پر کسی معذرت خواہانہ جواز کا قائل نہ ہو سکا اور شدت پسندی مذہب اسلام اور مذہب اسلام کا پیغام لانے والے نبی سے براہ راست جڑ گئی۔ غلط یا صحیح، یہ بحث اب غیر متعلق ہے۔ پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے اور گھڑی کی سوئیاں ایک ہی سمت سفر کرتی ہیں۔

2006 میں چارلی ہیبڈو نے اسی موضوع پر کچھ خاکے شائع کیے جس میں ہدف تنقید مسلم بنیاد پرست تھے اور محمد ﷺ کو اس بنیاد پرستی سے عاجز دکھایا گیا۔ اس پر دو حوالوں سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ پہلا ردعمل اس حوالے سے تھا کہ مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے میں مقدس شخصیات کی کسی بھی طرح تصویر کشی غلط سمجھی جاتی ہے چہ جائیکہ اسے کیری کیچرز کی صورت میں سامنے لایا جائے اور دوسرا یہ کہ شدت پسندی یا بنیاد پرستی کو نبی ﷺ کی ذات سے جوڑا گیا۔ فرانسیسی صدر شیراک نے بھی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن ان کے بعد آنے والے صدر سرکوزی نے طنز کی قدیم فرانسیسی روایت کا دفاع کرنا مناسب جانا۔

اس سلسلے میں فرانسیسی عدالت میں رسالے پر مقدمہ بھی قائم ہوا جس سے 2007 میں اگزیکٹیو ایڈیٹر کو بریت مل گئی۔ اس دوران اس موضوع پر بے شمار مضمون لکھے گئے۔ دونوں اطراف کے نقطہ ہائے نظر سامنے آئے اور ایک ایسی بحث کا در کھلا جس سے خیر کے بہت سے راستے متوقع تھے کہ مسلم علما کو موقع ملا کہ وہ دین اسلام کے خلاف کسی بھی غلط فہمی پر اپنی رائے دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔ اسی طرح مسلم سماج کے پاس بھی یہ موقع تھا کہ وہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے دور ہٹنے کا واضح موقف اختیار کر سکتا۔

اس واقعے کے پانچ سال بعد 2011 میں اسی موضوع پر دوبارہ ایک خاکہ شائع ہوا جو بنیادی طور پر تیونس کی اسلام پسند پارٹی کی انتخابات میں جیت اور امتیازی شریعہ قوانین کے نفاذ پر ایک طنز تھا۔ لیکن 2006 کے برعکس اس دفعہ چارلی ہیبڈو کے دعوے کو مزید تقویت دینے کے لیے مسلم شدت پسندوں نے رسالے کے دفتر پر بم حملہ کر ڈالا۔ جوابی ردعمل میں 2012 میں چارلی ہیبڈو نے پہلے سے بھی زیادہ تضحیک آمیز خاکے شائع کر ڈالے۔ یہ سلسلہ اسی طرح دراز ہوتا گیا۔ 2015 میں چارلی ہیبڈو کے بارہ ملازم قتل کر دیے گئے۔ قتل اپنی جگہ، لیکن ترجمان امت نے اس دہشت گردی کی تحسین کر کے ایک بار پھر اس سوچ کو مستحکم کیا کہ مسلمان دلیل اور علم کے بجائے تلوار اور بندوق سے اپنی رائے کے نفاذ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اب 2020 میں یہ قضیہ پھر کھڑا ہو گیا ہے جہاں ہم نے اپنے ردعمل کا اظہار فرانسیسیوں کے سر کاٹ کر اور پھر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ”سر تن سے جدا“ کے جواز درجواز دے کر کیا ہے۔ ردعمل کی نفسیات، فرانسیسی سیکولر ازم اور آزادی اظہار کے تحفظ اور اپنی سیاسی ساکھ کی حفاظت کے طور پر اس کے بعد میکرون نے وہی کیا جس کے سوا شاید ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

اب آئیے، دیکھتے ہیں اس سب سے حاصل کیا ہوا۔ چارلی ہیبڈو ایک اوسط اشاعت رکھنے والا جریدہ تھا جسے ہم نے بین الاقوامی شہرت عطا کر دی۔ وہ خاکے جنہیں شاید صرف ایک ڈیڑھ لاکھ لوگ دیکھتے اب انہیں کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ تضحیک اور اہانت کا دائرہ ہم نے خود لامحدود کر دیا ہے۔ اسی حوالے سے ”انوسینس آف مسلمز“ نامی شارٹ فلم یاد کر لیجیے جس پر شاید چند ہزار ڈالر لاگت آئی تھی۔ ایک بیہودہ اور گھٹیا ترین پروڈکشن جسے شاید یو ٹیوب پر پانچ سو ویوز بھی نہ ملتے لیکن ہم نے آسمان سر پر ایسا اٹھایا کہ یہ ویڈیو تاریخ کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز میں سے ایک بن گئی۔ پرتشدد مظاہروں میں مسلمانوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں میں سے پچاس کی زندگیاں قربان کیں اور اربوں کا نقصان کیا۔

سلمان رشدی کی شاید سب سے کمزور کتاب ”سٹینک ورسز“ پر بھی ہمارے ایسے ہی رویوں نے اسے بیسٹ سیلر بنا دیا۔ وہ پیغام جو ہم روکنے کے لیے متحرک ہوئے تھے وہ لاکھوں لوگوں تک ہماری اسی کوشش کے صدقے پہنچ گیا۔ باقی مالی اور جانی نقصان جو مسلم ممالک نے اپنے ہی مظاہرین کے ہاتھوں سہے، وہ الگ۔ ایسی اور بھی کتنی ہی مثالیں ہیں جن سے ہم نے دنیا کی مسلم شدت پسندی اور اسلاموفوبیا سے جڑی سوچ کو اور راسخ کر ڈالا۔

جب ہم فرانس جیسے ممالک سے بلاسفیمی کے لیے قوانین کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہالو کاسٹ سے جڑے قوانین کو مثال بناتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں یا اس سے واقف نہیں ہیں کہ ہالوکاسٹ ہر کسی تنقیدی تحقیق پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ رد ہالو کاسٹ پر البتہ یہ قوانین حرکت میں آتے ہیں اور اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ ہالو کاسٹ کوئی مذہبی تاریخی مظہر نہیں ہے بلکہ پچھلی صدی میں گزرا ایک واقعہ ہے۔ اس خون ریز نسل کشی کا شکار ہونے والوں کے خاندان بھی زندہ ہیں اور اس سے بچ نکلنے والے خوش قسمت بھی۔ فرانس جیسے ممالک نے اسی جنگ میں ہزاروں جانیں گنوائی ہیں۔ نسل پرستی اور مذہبی منافرت کے نام پر ہالو کاسٹ کا انکار ایک بدترین انسانی سانحے کی اہانت ہے۔

نسل پرستی کے ارتداد کے لیے بنائے گئے قوانین ان معاشروں کی صرف یہودی اقلیت ہی نہیں، مسلمان اقلیت کے تحفظ کے بھی ضامن ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس سب کے باوجود یہ قوانین کسی کا سر تن سے جدا کرنے کی بات نہیں کرتے۔ ان کے تحت مقدمہ چلانا اور ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے اور پچھلے پچاس سالوں میں سزا کی کل مثالیں شاید پچیس سے بھی کم ہیں۔ ان میں سے بھی ایک آدھ مقدمے کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ سزا جرمانے یا چند ماہ قید کی رہی ہے۔ ان قوانین کا موازنہ پاکستان کے بلاسفیمی کے قوانین سے کسی بھی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ رد ہالو کاسٹ پر کسی مغربی معاشرے میں کبھی کسی نے کسی کو قتل تو دور، تھپڑ بھی رسید نہیں کیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم توہین کے حوالے سے اپنے پرتشدد رویوں کی دلیل ان سے برآمد کرنے پر مصر رہتے ہیں۔

کچھ باتیں اور سمجھ لیجیے۔ یہ جنگ صلیب اور ہلال کی نہیں ہے۔ فرانس ایک سیکولر ریپبلک ہے جو ریاستی سطح پر کسی مذہب کا علمبردار نہیں ہے۔ وہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ کلونینزم کے بعد کا فرانس اب ہمہ گیر ثقافت کا حامل ہے۔ فرانس میں بسنے والے لاکھوں مسلمان اتنی ہی مذہبی آزادی رکھتے ہیں جتنا کوئی عیسائی۔ یقین رکھیے کہ اس سارے ہنگام میں کسی ایک فرانسیسی مسلمان نے بھی اپنی شہریت ترک نہیں کی ہے۔ اس وقت بھی دو لاکھ سے زیادہ مسلمان تارکین وطن فرانس میں پناہ کی درخواست لیے بیٹھے ہیں۔

فرانس میں اگر عوامی مقامات پر اسلام کے مظاہر پر پابندی ہے تو یہی پابندی عیسائی مذاہب کے مظاہر پر بھی ہے۔ چارلی ہیبڈو جیسے جریدے بھی بلا تفریق ہر مذہب پر طنز کرتے ہیں۔ یہ سوال پوچھنا برمحل ہے کہ سارے عقائد میں صرف ہمارا عقیدہ ہی نازک ترین کیوں ٹھہرتا ہے؟ رہا بائیکاٹ اور بین تو عرض یہ ہے کہ فرانس کی برآمدات 570 ارب ڈالر ہیں جن میں سے پاکستان کا حصہ ایک فی صد کے دسویں حصے سے بھی کم ہے۔ تو ہم ساری فرانسیسی مصنوعات بھی مسترد کر دیں تو اس سے ان کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا، ہاں، ہماری بہت سی صنعتیں مشکل کا شکار ہو جائیں گی۔ دفاعی امداد اور انسانی امداد کے اربوں کا تو ذکر ہی کیا۔ باقی رہے میراج طیارے، اوگستا آبدوزیں اور سویلین ایرکرافٹ تو ان کے پرزے اور مستقبل کی خرید کے بغیر ہم کہاں کھڑے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

سو باتوں کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارا اپنا کردار اس امر کا تعین کرے گا کہ ہم باقی دنیا سے کس قسم کے رویے کے متمنی ہیں۔ مغرب میں اب یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں کہ چرچ کے مقدس ہونے پر حرف زنی ممکن ہے یا نہیں۔ بلاسفیمی کے موجودہ قوانین محض قدیم دور کی یادگار ہیں۔ آزادی اظہار مقدم ہے لیکن رنگ، نسل اور ذات کی بنیاد پر استحصال کی ہر ممکن حوصلہ شکنی ہے۔ مغرب ”جیسس کرائسٹ سپر اسٹار“ یا ”لاسٹ ٹیمپٹشن آف کرائسٹ“ جیسی فلموں پر لٹھ اٹھائے باہر نہیں نکلتا۔ اور تو اور ہمارے پڑوس میں ”پی کے“ اور ”او مائی گاڈ“ جیسی فلمیں بنتی ہیں اور بے پناہ بزنس کرتی ہیں۔ اکا دکا آوازیں اٹھتی ہیں لیکن کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا۔ مغرب کے لیے حضرت عیسی مقدس ہیں لیکن چارلی ہیبڈو جیسے رسائل اور جریدے ان کے خاکے شائع کرتے ہیں۔ کوئی اس پر معترض نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس اعتراض کو اہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی حضرت عیسی سے محبت کا ثبوت دینے کے لیے وہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے کو درست خیال کرتے ہیں۔

جب ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے مقدسات کا احترام کیا جائے تو ہم یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ہماری نصابی کتب تک میں ہندو مذہب کے ماننے والوں کو کس پیرائے میں یاد کیا جاتا ہے۔ دن رات خطیب یہود، ہنود اور نصرانیوں کو مغلظات سناتے ہیں۔ ہم غیر مسلموں کو ہمہ وقت جہنم کی خوش خبری دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار جیسے علما آن ریکارڈ اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری ٹھہراتے ہیں۔ ہم مندروں کو بزور بازو منہدم کرتے ہیں۔ احمدیوں کی ہر حوالے سے تضحیک اور اہانت کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی پیشواؤں کو بدترین گالیاں دیتے ہیں۔ بالا دست گروہ دوسرے فرقوں کو علی الاعلان کافر کافر کہتے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہم واجب القتل کے فتووں سے کہیں آگے بڑھ کر گروہ در گروہ قتال کرتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی مذہب کی نشانیوں کا سر عام تمسخر اڑاتے ہیں۔

لیکن ان سب باتوں پر پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ اسمبلیوں تک میں اہانت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارا منصف اعلی اپنے سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کا نام تک لینے کا روادار نہیں ہوتا۔ اس پر ہمارے یہاں کوئی مظاہرے نہیں ہوتے۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی، کسی کو اشتعال میں آنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اور یہ سارا سلسلہ ریاستی سطح پر جاری رہتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اس کی ترویج ہوتی ہے۔ روزگار کی شرائط تک میں عقیدے کے تفریق در آتی ہے ہمارے اپنے گھر میں یہ کسی جریدے کا معاملہ نہیں ہے، یہ پورے معاشرے کا حال ہے۔ ہم کس منہ سے چارلی ہیبڈو سے جواب مانگتے ہیں، یہ میرے فہم سے پرے کا معاملہ ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ جو صورت گری اب ہے، اس میں کریں کیا؟ یہ جذباتی ہتھکنڈے اور مظاہرے اور بائیکاٹ تو تماشے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اس ضمن میں بھی کچھ گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور کر لیجیے۔ دنیا اسلام کا مذاق نہیں اڑاتی، اسلام کے پیروکار شدت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے اعمال اور فکر کا مذاق اڑاتی ہے۔ جب ہم شریعت کے نام پر خواتین کو گھروں میں بند کرتے ہیں، لڑکیوں کو سنگسار کرتے ہیں، ہم جنس پرستوں کو دس منزلہ عمارت سے نیچے پھینکتے ہیں، کم عمری کی شادی کے بل کے خلاف اسمبلیوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جبری مذہب کی تبدیلی کے بل کو منظور نہیں ہونے دیتے۔ عورتوں کی تعلیم اور روزگار پر قدغن لگاتے ہیں، گھریلو تشدد کے خلاف قانون کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں، ریپ میں ڈی این اے کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں۔ آدھی وراثت اور آدھی گواہی پر مصر رہتے ہیں۔ غیر مسلموں کو بلاتفریق جہنمی قرار دیتے ہیں، اسمبلیوں میں ایک گروہ کو کافر قرار دینے کا بل بیسیوں صدی میں پاس کراتے ہیں اور اکیسویں صدی میں عقائد کے نام پر مقدمے قائم کرتے ہیں، لوگوں کو عقیدے کے فرق کے نام پر قتل کر کے اجتماعی طور پر اس کی تحسین کرتے ہیں تو مذاق تو اڑے گا۔ اور جب ہم ان سارے اعمال کے جواز نبی ﷺ کی تعلیمات سے برآمد کرنے پر مصر رہیں گے تو پھر نبی ﷺ کی شخصیت کا دفاع کیونکر کریں گے۔ اپنے دین کو سلامتی کا دین کہنا کافی نہیں ہے، اسے ثابت بھی کرنا پڑتا ہے۔

قدیم مذہبی اور تاریخی شخصیات پر ایک رائے قائم کرنا مشکل تر ہو جاتا ہے کہ اکثر اوقات تاریخ مشکوک ہوتی ہے، راوی ناقابل اعتبار ٹھہرتے ہیں اور تقدس کی دھند میں حقائق غائب کر دیے جاتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے ہم اگر اس زاویے کو مقدم جانیں جو حضرت خدیجہؓ سے ان کے تعلق، شعب ابی طالب، سفر طائف، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کی عام معافی سے سامنے آتا ہے تو اسلام، امن، درگزر، صنفی مساوات اور امن پسندی لازم و ملزوم ٹھہریں گے تاہم اگر ہم بنو قریظہ، ابن خطل، کعب بن اشرف، رجم کی سزا، لونڈیوں سے تعلق اور حضرت عائشہؓ کی چھ برس کی عمر کی شادی جیسی روایات پر اصرار اور اس کی تاویل پر مصر رہیں گے تو ہم بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے لیبل سے شاید کبھی بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اب یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم آج کے دن اپنی زندگی کو دور جدید اور مہذب دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کون سی راہ چنتے ہیں۔

طنز اور تضحیک کے سب تیر اس کمان سے چلتے ہیں جو ہمارے اعمال بناتے ہیں۔ اپنا راستہ، اپنا قبلہ، اپنے اعمال ٹھیک کر لیجیے تو طنز کی دھار خود ہی کند ہو جائے گی۔ مذاق کے راستے خود ہی بند ہو جائیں گے اور اہانت کا کوئی وار ممکن ہی نہیں رہے گا۔ آپ کے عقیدے کی حرمت کا تعین آپ کا رویہ اور آپ کا عمل کرتا ہے۔ توجہ دینے کے میدان کہیں اور ہیں اور ہم کہیں اور ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔
باقی یہ ہے کہ جب کچھ اور یاد رکھنے کو نہ ہو تو یہ یاد رکھیے گا کہ عشق میں سر دینے کی رسم تو ہے، سر اتارنے کی کوئی ریت نہیں ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad