کیا سپریم کورٹ انسانی جان کے بنیادی حق کو تحفظ دے گی؟


دستور پاکستان کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کہ ”کسی شخص کو زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔“ گزشتہ دو برسوں میں ادویات کی قیمت میں کئی سو فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے جبکہ عوام کی آمدنی میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات، بلڈ پریشر، شوگر، امراض قلب، وغیرہ جیسے تا عمر چلنے والے امراض اور اینٹی بائیوٹکس، سردرد، پیٹ درد، آنکھ، کان، دانت، منہ، اور بلڈ انفیکشن، بخار، ملیریا وغیرہ کی ادویات میں بھی یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس صورت میں کیا لاکھوں شہریوں کو زندگی کے حق سے محروم نہیں کیا جا رہا ہے؟ کیا سپریم کورٹ کو اس بنیادی انسانی حق کے سلب کیے جانے پر پر سوموٹو نوٹس نہیں لینا چاہیے؟

عالمی ذیابیطس فاؤنڈیشن کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندازاً سترہ فیصد بالغ شہری، جو تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ بنتے ہیں، شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ انسولین لینے والے شوگر کے مریض جس انسولین پر سب سے زیادہ انحصار کرتے ہیں، اس کی قیمت دو برس پہلے 390 روپے تھی اور مہینے میں عموماً دو مرتبہ یہ انسولین خریدنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس انسولین کی تازہ ترین قیمت اس وقت 953 روپے ہو چکی ہے جو آمدنی میں کمی کا شکار شہریوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہے جبکہ قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔ انسولین نہ لینے کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اذیت ناک موت۔

آئین کا مشہور اور حالیہ سیاسی تناظر میں بدنام آرٹیکل 184/3 کہتا ہے کہ عدالت عظمیٰ اگر یہ سمجھے کہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلے میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے، تو اسے مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو گا۔ یعنی وہ از خود نوٹس لے سکتی ہے۔

افتخار چوہدری کے زمانے سے اب تک اس سو موٹو کے اختیار کو عموماً منتخب وزرا اعظم کو نا اہل کرنے کے لیے 258 ٹو بی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کیا عدالت عالیہ کو سیاسی معاملات کی بجائے بنیادی ترین انسانی حق، یعنی جان کے تحفظ کے لیے یہ سو موٹو نہیں لینا چاہیے؟ کیا اسے نہیں پوچھنا چاہیے کہ قیمتیں کس وجہ سے گزشتہ دو برس میں مسلسل اور بے انتہا بڑھائی جا رہی ہیں؟ کیا حکومت کا یہ جواز واقعی مناسب ہے کہ قیمت نہ بڑھائی جائے تو وہ ادویات کے مارکیٹ سے غائب ہونے کو کنٹرول نہیں کر سکتی؟

چلیں مان لیا کہ موجودہ سپریم کورٹ سو موٹو لینے سے احتراز کرتی ہے، حتیٰ کہ اگر بے شمار شہریوں کی جان کے تحفظ کا معاملہ بھی ہو تو وہ احتیاط کرتی ہے اور معاملہ حکومت پر چھوڑ دیتی ہے۔ کیا اس معاملے میں ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان اور شہری حقوق کے لیے سرگرم دیگر تنظیموں اور وکلا کو سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر نہیں کرنی چاہیے؟ کیا عوام کی جان بچانے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے؟

زیادہ سنگین معاملہ یہ ہے کہ فرض کیا کہ یہ حکومت آج یا تین برس بعد چلی بھی جاتی ہے، تو نئی حکومت کے پاس ادویات کی قیمت کو کم کرنے کی طاقت نہیں ہو گی۔ نتیجے میں ہونے والی علانیہ یا غیر علانیہ ہڑتال سے نمٹنا اس کے لیے مشکل ہو گا۔ اس کے پاس صرف دو آپشن ہوں گی، پہلی یہ کہ ادویات سازی کی صنعت کو قومیا لیا جائے۔ قومیانے کے نتائج ہم ستر کی دہائی میں دیکھ چکے ہیں کہ یہ عمل صنعت کو ختم کر دیتا ہے۔

دوسرا حربہ پھر یہی بچتا ہے کہ ادویات کے برانڈ نیم سے فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے اور ادویات ساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کو از روئے قانون اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ادویات کو برانڈ نیم کی بجائے سالٹ نیم سے فروخت اور تجویز کریں۔ عالمی اور مقامی ادویات ساز کمپنیاں اس حد تک طاقتور ہیں کہ ان کے مفاد کے خلاف یہ فیصلہ ایک بااختیار سیاسی حکومت ہی کر سکتی ہے جسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشیں نہ کی جا رہی ہوں۔ یعنی نا ہی سمجھیں۔
اس صورت حال میں بہتر اور غالباً واحد راستہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج یا انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اس معاملے میں دخل اندازی کریں اور عوام کو جان کا تحفظ دیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar