پاکستانی سائنس


یہ ساٹھ اور ستر کی دہائی کی باتیں ہیں۔ خانیوال سولہ بلاکوں پر مشتمل تھا۔ جس کے پہلے آٹھ بلاک ہی آباد تھے۔ شہر سے باہر ایک کچی کالونی جو نشیبی علاقے پر مشتمل تھی، غریب آباد کہلاتی تھی۔ ایک باقاعدہ کالونی نمبر ایک زیر تعمیر تھی۔ غریب آباد کے ایک طرف فصلیں تھیں جنہیں ایک نالہ سیراب کرتا تھا۔ یہ نالہ کالونی اور غریب آباد کی حد بندی کرتا ہوا موجودہ سٹیڈیم تک آتا تھا اور ریلوے لائن تک زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔

محکمہ انہار سے ریکارڈ نکلوایا جائے تو آج بھی فائلوں میں شاید وہ نالہ چل رہا ہو۔ واللہ عالم بلصواب۔ موجودہ سٹیڈیم کے دائیں جانب اس نالے کے ساتھ دھوبی گھاٹ تھا۔ بلاکوں میں اوپن سیوریج سسٹم تھا۔ زیادہ تر گھروں میں فلش سسٹم نہیں تھا اور چھتوں پر لیٹرین بنی ہوتی تھی۔ صبح بھنگی آتا اور لیٹرین کا کوڑا ایک چھابے میں ڈال کر لے جاتا جسے بلدیہ کی مقرر کردہ روڑیوں پر پھینک دیا جاتا۔

میرے والد صاحب کی صابن بنانے کی فیکٹری غریب آباد میں اسی نالے کے کنارے واقع تھی۔ والد صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن قلم اور کتاب سے محبت کرتے تھے۔ ہماری فیکٹری میں بننے والا سفید صابن ”پین مارکہ صابن“ پنجاب کے بیشتر حصوں میں سپلائی کیا جاتا۔ میرے ساتھ والد صاحب کی محبت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری فیکٹری کا نام میرے نام پر ”یوسف سوپ فیکٹری“ تھا۔ اسی فیکٹری کے ساتھ ہمارا گھر واقع تھا۔

ہمارا گھر محلے کا واحد پکا گھر تھا۔ باقی گھر تقریباً کچے تھے، بعد میں بشیر نمبردار نے ہم سے بڑا اور پکا گھر بنا لیا۔ ان دنوں خانیوال کی بیشتر اطراف میں ریت کے ٹیلے واقع تھے۔ گرمیوں میں روزانہ شام کو ریت کی آندھی چلا کرتی۔ بارش بہت کم ہوتی۔ ہر سال ساون کے مہینے دعائیں کرائی جاتیں۔ ایک عجیب رسم تھی، بارش لانے کی۔ بچے ہاتھوں میں گندگی لے کر بڑوں اور بوڑھوں پر پھینکتے۔ گندگی پھینک کر بزرگوں کو غصہ دلایا جاتا۔

غصے میں جتنی گالم گلوچ ہوتی، وہ بچوں اور بڑوں کی تفریح کا باعث ہوتی۔ بڑے یہ کہتے، اس طرح بارش ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ایک سال اتنے زور کی بارش ہوئی کہ آدھے محلے کے گھر بارش کی نظر ہو گئے۔ گلیوں میں کئی فٹ پانی جمع ہو گیا۔ ہمارا گھر اور اس کے باہر کا صحن، اسے ہم صحن ہی کہتے تھے کہ گھر کے باہر خاصی کھلی جگہ تھی اور ہمارا گھر اور وہ صحن تقریباً گلی سے سات فٹ اونچا تھا۔ جن لوگوں کے گھر گرے، والد صاحب نے انہیں ریسکیو کیا اور اپنے گھر کے صحن میں ان کو جگہ دی۔

مجھے پرائمری سکول نمبر پانچ میں داخل کروا دیا گیا۔ میں شاید دوسری جماعت میں تھا جب ہوم ورک نہ کرنے پر ہم تین لڑکے سٹینڈ اپ کر دیے گئے۔ ابھی پہلے کی ٹھکائی ہوئی تھی کہ میں نے دڑکی لگا دی۔ دو بچے جو مجھ سے بڑے تھے مجھے پکڑنے کے لیے پیچھے بھاگے۔ پتہ نہیں وہ کہاں تھک ہار کر بیٹھ گئے، میں نے البتہ گھر جا کر سانس لی۔ دو دن کی چھٹی کے بعد والد صاحب کے ٹیچر سے مذاکرات کامیاب ہوئے تو میں دوبارہ سکول جانے لگا۔

ہمارے سکول میں کوئی واش روم نہیں تھا۔ ایک دن ہیڈ ماسٹر صاحب ہماری کلاس میں آئے اور حکم دیا ”کل ہر طالبعلم گھر سے ایک اینٹ لے کر آئے، اینٹ پکی ہونی چاہیے۔ جو کچی اینٹ لے کر آئے گا اس کا سکول سے نام کٹ جائے گا۔“ محلے کی مسجد زیر تعمیر تھی۔ صبح میں نے وہاں سے ایک اینٹ اٹھائی اور سکول لے آیا۔ زیادہ تر بچوں نے مسجد کی اینٹ دے کر سکول سے اپنا نام کٹنے سے بچایا۔

میں اس وقت پانچویں جماعت میں تھا جب ہمیں سائنس پڑھانی شروع کی گئی۔ پہلی بار ہمیں علم ہوا کہ زمین گول ہے اور گھومتی ہے۔ جب زمین گھومتی ہے تو اس کے جو حصے سورج کے سامنے آتے ہیں وہاں دن ہوتا ہے اور باقی زمین پر رات۔ ماسٹر جی خود بہت بڑے سائنسدان تھے۔ یہ بات سمجھانے کے لیے ایک دن کہنے لگے ”کل آپ کو سائنسی تجربہ کرایا جائے گا“ ۔ ساری کلاس کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک مالٹا اور ایک سیب لے کر آئیں۔ ہم بہت متجسس تھے۔

اگلے دن ہم سب گھر سے ایک مالٹا اور سیب لے کر سکول پہنچے۔ ماسٹر جی نے سارے سیب اور مالٹے لے کر ایک گٹھڑی میں باندھ کر الماری میں رکھ دیے۔ کلاس روم کا دروازہ بند کروا دیا۔ کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔ ماسٹر جی نے میز پر ایک موم بتی جلائی اور کہنے لگے، دیکھو اس موم بتی کو سورج سمجھو۔ ہم نے سمجھ لیا۔ آپ نے ایک مالٹا نکالا اور کہنے لگے زمین اس مالٹے کی طرح گول ہے۔ پھر مالٹے کو موم بتی کے اوپر کر کے دکھایا۔ مالٹے کے ایک طرف روشنی اور دوسری طرف اندھیرا تھا۔

ماسٹر جی نے مالٹا گھمایا اور بتایا کہ جو حصہ پہلے اندھیرے میں تھا اب روشن ہے۔ یونہی زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور زمین کا جو حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہاں دن اور باقی حصے پر رات ہوتی ہے۔ میری نظر باقی مالٹوں اور سیبوں پر تھی جن پر مکمل اندھیرا تھا۔ اسی دن ہمیں پاکستانی سائنس کی سمجھ آ گئی تھی۔ یہ بات بھی بطور خاص سمجھ آ گئی تھی کہ دنیا مکمل گول ہے اور پاکستان کچھ زیادہ ہی گول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).