معدومیت کا شکار بلائنڈ انڈس ڈولفن کو شکار کرنے والا ماہی گیر گرفتار


سندھ وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ 30 اکتوبر کو راستہ بھٹک کر نواب شاہ کی کینال میں پہنچنے والی انڈس ڈولفن کو ہلاک کرنے والے ماہی گیر کو سندھ پولیس کی مدد سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

سندھ وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر جاوید احمد مہر نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار ملزم پر وائلڈ لائف کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس کے تحت ملزم کو جرم ثابت ہونے ہر ڈھائی سال قید اور پانچ لاکھ روپیہ جرمانہ یا کوئی ایک سزا ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس مقدمے کا سمری ٹرائل ہو گا جس میں جلد از جلد فیصلہ ہو جائے گا۔‘

اس واقعے میں ایک مقامی ماہی گیر نے راستہ بھٹک کر آنے والی انڈس ڈولفن کو نہر سے نکال کر اس کو پکڑنے کا باقاعدہ جشن منایا تھا جس کے باعث انڈس ڈولفن ہلاک ہو گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

دریائے سندھ میں انڈس ڈولفن کی تعداد میں کمی

دریائے سندھ میں ’بلائنڈ انڈس ڈولفن‘ کی تعداد میں اضافہ

مارخور، انڈس ڈولفن بدستور معدومیت کے خطرے سے دوچار

انڈس ڈولفن کا واقعہ کیسے پیش آیا؟

سندھ وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر جاوید احمد مہر نے بتایا کہ ’ہلاک ہونے والی انڈس ڈولفن نر تھی۔ اس کی عمر دو سال سے زائد نہیں تھی۔ وہ مکمل طور پر بالغ نہیں ہوئی تھی۔ یہ سفر کرتے کرتے نواب شاہ کی رابطہ گجر کینال میں پہنچ گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عموماً جب کوئی بھی انڈس ڈولفن اس طرح راستے سے بھٹکتی ہے تو عموما مقامی آبادیاں، اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار وائلڈ لائف کو اطلاع کرتے ہیں۔ جس کے بعد انڈس ڈولفن کی مدد کے لیے ہماری سپیشل ٹیم مدد کو پہنچتی ہے۔ مگر اس انڈس ڈولفن کے معاملے میں ہمیں اطلاع کچھ تاخیر سے ملی تھی۔‘

’اطلاع ملنے پر ہماری سپیشل ٹیم سکھر سے چلی تھی۔ سکھر سے نواب شاہ کی گجر کینال تک کوئی دو سو کلو میٹر کا سفر تھا۔ اس دوران مقامی لوگوں اور ماہی گیروں نے اس کو کینال میں دیکھا تو گرفتار ملزم نے نہر میں چھلانگ لگا دی اور اس کو پانی میں سے نکال لیا تھا۔‘

جاوید احمد مہر کا کہنا تھا کہ ’جب ہماری ٹیم موقع پر پہنچی تو اس وقت تک ماہی گیر انڈس ڈولفن کو لے کر چلتا بنا تھا۔ اس موقع پر ہمارے لوگوں نے اس کا فون نمبر حاصل کر کے اس سے گزارش کی کہ اس کو حوالے کر دیا جائے۔ وہ زندگی کی بازی ہار جائے گئی اور نا قابل تلافی نقصاں ہوگا۔ مگر اس نے کوئی بھی توجہ نہیں دی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ اس وقت بھی انڈس ڈولفن کو ہمارے حوالے کر دیتا تو ممکنہ طور پر اس کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ گذشتہ سال ہماری اس سپیشل ٹیم نے اٹھارہ انڈس ڈولفن کو مدد فراہم کی تھی۔ جس میں ہمیں مقامی آبادیوں اور ماہی گیروں کا تعاون حاصل رہتا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں نواب شاہ کے اس علاقے میں ہمیں تعاون فراہم نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ماہی گیر نے انڈس ڈولفن کو نہر سے نکالا تو وہ ایک انتہائی افسوسناک صورتحال تھی۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انڈس ڈولفن کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا گیا۔ اس کو منھ سے پکڑا جا رہا تھا۔ لوگ اس پر ہاتھ مار رہے تھے۔ پکڑنے والے کو شاباش دے رہے تھے حالانکہ اس نے کوئی کارنامہ نہیں کیا تھا بلکہ ایک قیمتی جاندار کو ہلاک کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔‘

جاوید احمد مہر کا کہنا تھا کہ موقع پر پہچنے والی ہماری ٹیم نے اس کے بعد نواب شاہ پولیس کی مدد حاصل کر کے پہلے انڈس ڈولفن کو مردہ حالت میں بر آمد کیا اور پھر اس کے بعد اس واقعہ کے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پاکستان میں موجود انڈس ڈولفن

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق اس وقت ملک بھر میں انڈس ڈولفن کی تعداد تقریباً 1800 ہے۔

جاوید احمد مہر کے مطابق سندھ میں ایک سروے کے مطابق انڈس ڈولفن کی تعداد 1419 تھی جبکہ سنہ 2009 میں کیے جانے والے سروے میں یہ تعداد 900 کے لگ بھگ تھی۔

سندھ وائلڈ لائف کو راستہ بھٹکتی ہوئی انڈس وولفن کے بارے میں محکمہ اریگیشن کے اہلکار، مقامی آبادی اور ماہی گیر اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔

ماہی گیروں اور مقامی آبادی نے ڈولفن کو مارنے کی وڈیوز بنائی تھیں۔ ان کو مختلف سوشل میڈیا پر ڈالا گیا تھا۔ ملزم کی شناخت ویڈیوز اور تصاویر کی مدد سی کی گئی۔ ملزم مقامی نواب شاہ گجر کےنال کے قریب بستی کا رہائشی ہے۔

انڈس ڈولفن کو ریسکیو کرنے کے لیے ایک ہی ٹیم ہے جو کہ سکھر میں تعینات رہتی ہے ۔ اس کی وجہ سکھر بیراج کا علاقہ ہے جہاں پر ڈولفن بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔

جاوید مہر کے مطابق ’سروے میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اور ہم یقین کہہ سکتے ہیں کہ ڈولفن کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کم نہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ستر اور ساٹھ کی دہائی میں انڈس ڈولفن کی آماجگاہیں اٹک پر دریائے سندھ کے مقام سے شروع ہو جاتی تھیں۔ تاریخی طور پر انڈس ڈولفن دریائے ستلج، جہلم، راوی اور چناب میں بھی پائی جاتی تھیں۔

خیال رہے کہ چند ماہ قبل ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر مسعود اشرف نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انڈس ڈولفن اس وقت بھی خطرے کا شکار ہے کیونکہ دریائے سندھ میں موجود اس کی ستر سے اسی فیصد آماجگاہیں تباہ ہو چکی ہیں، جس کی بڑی وجوہات میں بیراجوں کی تعمیر، آلودگی اور غیر قانونی شکار ہے۔

تاہم چشمہ، تونسہ، گڈو اور سکھر میں اس کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

جاوید احمد مہر کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج تک دریائے سندھ کا علاقہ انڈس ڈولفن کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان وہیل اینڈ ڈولفن سوسائٹی کے چیرمئین معظم خان کے مطابق حالیہ برسوں میں لیے گے کچھ اقدامات کی بدولت انڈس ڈولفن کی تعداد پاکستان میں بڑھی ہے۔ عموماً جب کوئی انڈس ڈولفن راستہ بھٹکتی ہے یا اس کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو مقامی آبادیاں تعاون کرتی ہیں۔

مگر اس واقعہ کے بعد اب محسوس ہو رہا ہے کہ مقامی آبادیوں میں مزید شعور بیدار کرنے اور ان کے ساتھ قریبی رابطہ قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp