ٹھنڈا پراٹھا اور شلجم کا اچار


” کچا وسیع صحن ہو۔ چارپائی پر نیلی سفید دری پر سفید چادر بچھی ہو۔ پورا چاند ہو، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو۔ ایسا ہو تو کیا بات“ کی تھی۔

اختصار مدعا تو کسی حد تک بیان کر دیتا ہے مگر معاملے کا لطف بحال نہیں رہتا۔ اس میں میں پدی بھوری کتیا ”لیچی“ کا ذکر نہیں کر سکا۔ کیکر کے دو درختوں سے جھڑتے سنہرے سوندھی خوشبو والے گول اور نرم پھولوں کا ذکر نہ کر سکا۔ موری کے نزدیک گڑھل کے بھرپور پودے پر بند ہو چکے پھولوں کے چاند کی روشنی میں رنگ بدلنے کو بیان نہیں کر سکا۔ والدہ کی آنکھ کھلتے میں عادتا ”ان کے منہ سے قرآنی لفظوں کا ٹوٹا پھوٹا ورد اور پھر نیند میں جانے کی گہری سانسوں کا بیان نہیں کر سکا۔

یہ میری وہ یاد تھی جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ نہ ماں ہے، نہ گڑھل کا پودا نہ کیکر کے درخت اور نہ بیچاری لیچی۔ دوستوں نے کہا اب بھی ایسا ہے بس صحن کی جگہ چھت نے لے لی ہے۔

اب ہمارا گھر ایک حویلی بن چکا ہے جس میں سیمنٹ اور اینٹیں ہیں، بارہ دریاں ہیں۔ درخت اور کچا صحن ندارد۔ اس کی چھت پر وہ لطف ہے ہی نہیں۔ چاند ہوتا ہے مگر ساتھ پیڈسٹل کا شور بھی۔ دیواریں بلند ہو چکی ہیں اور لوگ کم۔

ناستلجیا ایسی ہی یادوں کو کہا جاتا ہے جو پوری نہ ہو پائیں۔ میں جب بھی گھر جاتا ہوں، بڑی بہن سے کہتا ہوں، ”ننھی، شلغم کا اچار نہیں ہے؟“ ۔ وہ ہنس دیتی ہے اور کہتی ہے ہر بار پوچھتے ہو اور ہر بار بتاتی ہوں کہ اچار اماں بنایا کرتی تھیں۔ ہم کہاں بناتے ہیں اب۔

ایسے تھا کہ میں علی پور کے پرائمری سکول نمبر ایک میں پڑھتا تھا۔ ٹاٹ بوریوں والا سکول تھا۔ ہر طرف کمرے تھے، صحن میں پیپل کا بڑا سا سایہ دار درخت تھا جس میں سے موٹے موٹے مکوڑے نکل کر بھاگتے دوڑتے تھے۔ سردیوں میں اس صحن میں دھوپ نہیں پڑتی تھی۔ کمرے ٹھنڈے ہوتے تھے۔

دعا کے بعد ہمیں استاد پیدل چلاتے ہوئے کمیٹی پارک میں لے جا کر پڑھایا کرتے تھے جہاں ہم بچے کھلی دھوپ میں گھاس پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ گھر سے مجھے اور چھوٹے بھائی کو ایک ایک پراٹھا اور شلجم کا اچار ملتا تھا۔ شاید چند بار ہی دیا گیا ہو لیکن مجھے لگتا ہے جیسے ہمیشہ ملتا تھا۔ تفریح میں ہم دونوں بھائی ٹھنڈے ہوئے پراٹھے اور اچار کھاتے تھے۔ وہ مزہ مجھے بھول نہیں پاتا۔

پانی پینے کی خاطر دور اڈے پر لگے نلکے سے پینے جانا پڑتا تھا۔ ایک بار میں پانی پینے جا رہا تھا کہ جھت ( کھجور کے درخت یا درختوں کے گرد اگی بن تنے کے کھجوریں، جن پر پھل نہیں لگتا) سے کوئی جانور نکل کر بھاگا۔ میں بہت ڈر گیا اور بھاگ کر سامنے سے آتے اسی پاوندہ پٹھان کی ٹانگوں سے لپٹ گیا جن کے بارے میں ہمیں یہ کہہ کر ڈرایا جاتا تھا کہ یہ بچوں کو بوری میں ڈال کر اٹھا لے جاتے ہیں۔ اس پٹھان نے بڑی شفقت سے مجھے اپنی ٹانگوں سے علیحدہ کیا اور کہا، ”بچہ مت ڈرو، یہ نولوں ہے، کچھ نہیں کہتا“ ۔ میں پانی پیے بغیر لوٹ آیا تھا اور آ کے اپنے پیارے استاد ماسٹر مشکور حسین صاحب کو اس بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا تھا کہ نولوں ریاستی ( تب ہمارا قصبہ ریاست بہاولپور کا حصہ ہوا کرتا تھا ) زبان میں کہتے ہیں، اردو میں اس جانور کو نیولا بولتے ہیں جو سانپ کا دشمن ہے۔

ٹھنڈا پراٹھا اور شلجم کا اچار مل سکتا ہے پر ویسا اچار کہاں ہوگا جو اماں ڈالتی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).