”ٹی آر پی“ اور ”کیوں نہ دکھائیں“ کے مابین کی اک کہانی


قدیم یونانی اور لاطینی زبان کے الفاظ ٹیلی اور ویژن (ٹیلی ویژن) اپنے اندر دلچسپ اور گہرائی رکھنے والے مفہوم پنہاں رکھتے ہیں۔ قدیم یونانی زبان کے لفظ ’ٹیلی‘ کا مطلب دور یا دور کا ، اور لاطینی زبان کے لفظ ’ویژن‘ کا مطلب منظر یا نظارہ اور ویژن کے لفظ کا مفہوم تو اپنے تصور کے پیدا کردہ منظر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تو دونوں الفاظ کا ایک مشترکہ مفہوم ہوگا: دور کا منظر یا نظارہ۔ اب ٹیلی ویژن کی ابتدا سے اب تک کی تاریخ میں ٹیکنالوجی کی ترقی اور پھیلاوٰ کی وجہ سے اس مفہوم یا مطلب میں کئی طرح کے اضافے کے پہلو بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو بنیادی مفہوم سے انحراف تو نہیں کرتے مگر بہت دلچسپ انداز میں مفہوم میں اک پہلو کے اضافے یا ایک منفرد سی تشریح کا سبب بنتے ہیں۔

زمانہ قدیم میں جب ابلاغ کی یہ موجودہ سہولیات تو کیا، ان کا اس طرح سے ہو جانے کا کچھ تصور بھی نہ تھا تو اس زمانے میں تجارتی کارواں، قاصد، جاسوس اور مسافر و سیاح وغیرہ ہی خبروں کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ تھے اور خبروں کی ترسیل میں وقت کے مختلف پیمانے اور معیار تھے جن کا تعلق فاصلوں، سفر کی مشکلات، خبر کے ماخذ اور دیگر بہت سی دشواریوں اور معاملات سے تھا۔

ساتھ ساتھ خبر کے ماخذ سے اجرا، پھر خبر کی ترسیل اور اس دوران صرف ہونے والا وقت، خبر لے جانے والے اور سنانے والے کی جانب سے اپنی سمجھ یا مفاد کے تحت اضافہ یا کمی اور بہت سے دیگر عوامل بھی خبر کی صداقت، مفہوم، مضمون اور معیار پر اثرانداز ہوتے تھے۔

زمانہ قدیم میں بہت سی کارواں سرائے اور بازاروں میں داستان گو بھی ایک ادارہ ہوا کرتے تھے جو مختلف واقعات اور تاریخ کے ادغام سے بننے والے قصوں کو ایک خاص دل لبھانے والے اور دلچسپی ابھارنے والے انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔ اب آج کے نئے دور میں اگر ہم غور کریں تو موجودہ صنعت ابلاغ نے اس تاریخ سے کافی استفادہ اور فہم حاصل کی ہے۔

اکثر ناظرین عموماً روزانہ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر چینل بدل بدل کر بہت ساری خبریں اور آج کل کے مقبول عام ٹاک شوز (شام کی گفتگو کے پروگرام) سنتے رہتے ہیں۔ جن میں بیٹھے ہوئے خوش لباس میزبان دنیا بھر کے موضوعات پر اپنی دانش کا خزانہ لٹاتے رہتے ہیں اور ان کے بلائے کچھ مہمان بھی۔

ایک مقبول عام موضوع ہے ملک اور سماج کو درپیش مسائل، جن پر صرف بات اور تلخ بات ہی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے مگر شاید کبھی کوئی مسائل کے حل پر بات کرے یہ بہت ہی کم بلکہ نایاب ہی سا منظر ہے اور اگر پھر بھی کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو پھر ہمارے قابل اینکر گفتگو کے بیچ میں یا تو خود ہی بولنا شروع کر دیتے ہیں یا کوئی ریٹنگ بڑھانے والا سوال داغ دیا جاتا ہے یا پروگرام کا دورانیہ ختم ہونے لگتا ہے۔

ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ پروگرام کا دورانیہ ہے جس سے سب ہی یعنی پروڈیوسر، ایڈیٹر، اینکر اور دیگر متعلقہ لوگ واقف ہیں پھر بھی ایسے موضوعات پر بات شروع کرنا جن پر اس مختصر دورانیہ میں بات ہو ہی نہیں سکتی اور بات کو سوال سے شروع کر کے تلخیوں تک لے جانا اور پھر نامکمل ہی پروگرام ختم کرنا بھی دور حاضر کے نیوز چینلز کے کچھ عجوبوں میں شامل ہے۔

اپنی جتنی بھی میسر ہے اس عقل کے استعمال میں لاتے ہوئے ابتدا میں کبھی اس سوال کا جواب جیسے نہیں ملا کہ یہ سب جانتے ہوئے یہ تمام گوہر نایاب سے لوگ کیوں ایسا کرتے ہیں۔ بعد کے زمانوں میں اس بحر کے کچھ شناوروں اور اشتہار کی دنیا کے آزمودہ کار سے لوگوں سے اکتساب کر کے علم ہوا کہ ریٹنگ جسے ٹی آر پی (ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ) کے ایک معتبر سے لگنے والے نام سے جانا جاتا ہے دراصل ایک معاملہ ہے جس کی کوئی پردہ داری نہیں ہے اور سب کو خبر ہے، سب کو پتا ہے کہ یہ کھیل ٹی آر پی کے لیے رچایا جاتا ہے۔

اور گہرائی میں جاننے کی کچھ کوششوں سے کچھ اور دلچسپ مگر نہ خوش کرنے والے اشاریوں اور اشاروں کی معلومات حاصل ہوئیں۔ ایک عام اندازہ اور سوچ یہ ہی ہو سکتی ہے کہ کوئی پروگرام یا خبر جو صحیح بھی ہو مگر انکشاف کردینے والی، اور اس میں انفرادیت کا پہلو بھی کسی چینل کو مل جائے تو ٹی آر پی کا کاروباری مقصد بھی مل جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اشتہار بازی کی صنعت کی توجہ، ساتھ ساتھ قارئین کی دلچسپی کہ جس کی وجہ سے چینل کا دیکھا جانا ایک اونچی سطح کو چھو لیتا ہے۔ مگر جناب وہ پیاز ہی کیا کہ جس کی ایک تہہ کے نیچے ایک اور تہہ نہ ہو اور پرت در پرت بس سلسلہ شوق اور کھوج جاری نہ رہے۔

کچھ مقامات پر اکتساب فیض کے سلسلے میں جانا رہتا ہے اور کچھ اساتذہ بہت منفرد، مختلف اور متاثر کن ہوتے ہیں۔ جنہوں نے بہت سے معاملات کو ہوتے دیکھا ہے گویا تاریخ کے گواہ ہیں اور کچھ جگہوں پر خود بھی واقعات کا حصہ رہے ہیں تو جب ایسے نابغہ سے کسی فرد سے ملاقات ہو تو ذہن کی تربیت بھی ہوتی ہے اور تاریخ کے بہت سے گوشوں اور ہوچکے بہت سے واقعات کے کچھ نئے زاویوں سے آشنائی ممکن ہوجاتی ہے۔

ایسے ہی ایک اہل دانش اور باخبر شخص سے کہ جس کے بال زمانے کی کئی مدتیں گزار کر اب برف سے ہوچکے ہیں اور اس کی کچھ سرمئی سی شفاف آنکھوں میں بہت سے راز پوشیدہ ہیں کہ جب وہ نہیں بولتے تو لگتا ہے کہ آنکھیں بولتی ہیں۔ ایک فرصت کے لمحے میں اکتساب فیض کے دوران جب وہ بتا رہے تھے تو ایک دلچسپ واقعہ سامنے آیا۔ انتخابات کے ایک دور سے پہلے جب ایک مشہور اور بڑے استاد چینل نے ایک انٹرویو کی سیریز ریکارڈ کی جس کا یہ دانش ور بھی بطور مہمان حصہ رہے، کچھ بہت شاندار سی باتوں اور انکشافات و تفصیلات کے ساتھ اور پھر اس سیریز کے دوسرے حصے کہ جن کے دکھائی دینے سے اس چینل کو بہت سے ناظرین کی زیادہ اور خاص توجہ، اشتہار بازی کی صنعت سے بہت سا کاروبار اشتہار، پھر کاروبار اور ٹی آر پی کے ضمن میں ایک اونچے مقام کا حصول بالکل سامنے کی سی بات نظر آ رہا تھا۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب وہ پروگرام آن ائر نہ ہوسکا تو ازراہ سوال ایک دفعہ جب وہ اس چینل کے مالک سے ملے اور استفسار کیا کہ جناب کیا وجہ ہے کہ اتنی دلچسپی اور ٹی آر پی کے حصول میں انتہائی مددگار پروگرام اب تک دکھایا نہیں جا رہا جبکہ عام انتخابات کے حوالے سے ہی اس کو ریکارڈ کیا گیا تھا تو چینل کے مالک نے کہا جی جی جلد ہی۔

اس ملاقات کے اختتام پر جب کہ اس چینل کے ایک سینئر عہدیدار جو اس ملاقات کے دوران بھی موجود تھے اپنے مہمان کو دفتر سے باہر لفٹ یا مرکزی دروازے تک رخصت کرنے آئے تو ان کچھ لمحوں میں مہمان نے ایک الجھن کے سے انداز میں کہا کہ یہ تو پروگرام دکھانے (آن ائر) کرنے کا صحیح وقت ہے، بہت سے اشتہار، ٹی آر پی اور چینل کو دیکھے جانے والے ناظرین کی بڑی تعداد، مگر کیوں اب تک یہ نہ ہوسکا؟

اس بات کے جواب میں اس چینل کے سینیئر عہدیدار نے مختصر اور تاریخی جواب دیا کہ جناب جب پروگرام کو نہ دکھانے کے پیسے، پروگرام کو دکھانے سے حاصل ہونے والے فائدے (ریونیو) سے زیادہ ہوں تو پھر۔

مضمون میں استعمال ہونے والے کچھ مشکل الفاظ کے متعلقہ معنی:
شناور: کسی بات سے آگاہ یا باخبر۔ ماہر فن یا استاد
اکتساب: سیکھنا، حاصل کرنا، اخذ کرنا۔
نابغہ: بہت ہی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا مالک، غیرمعمولی اختراعی یا تخلیقی قدرت کا حامل۔
آزمودہ کار: جو اپنے کام کا تجربہ رکھتا ہو اور اونچ نیچ سے واقف۔
لاطینی: قدیم روما یا رومن معاشرے کی زبان۔
انحراف: انکار، اپنی بات یا قول سے پھر جانا، مخالفت، نافرمانی۔
مابین: درمیان، بیچ، دوران۔
پنہاں : چھپا ہوا، پوشیدہ۔
ترسیل: بھیجنا، روانگی، ابلاغ۔
مفہوم: مطلب، معنی۔
استفادہ: فائدہ حاصل کرنا۔
انکشاف: کھولنا، ظاہر کرنا، چھپی ہوئی یا خفیہ بات کا بتانا۔
ماخذ: سرچشمہ، وہ جگہ جہاں سے کوئی چیز اخذ کی جائے۔
منبع، مرکز۔
اجرا: جاری کرنا۔
استفسار: سوال کرنا، پوچھنا، دریافت کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).