مختلف عمروں میں کم و بیش سب ایک سے ہوتے ہیں


آپ کے سامنے جو مجھ ایسے بڑی عمر کے لوگ بہت مدبر اورسنجیدہ بنے پھرتے ہیں وہ جب آپ کی عمر کے تھے تو کم و بیش آپ ایسے ہی تھے۔ جیسے آپ کو آج اپنے اعمال و افعال کوئی اتنے معیوب نہیں لگتے، تب انہیں بھی اسی طرح نہیں لگا کرتے تھے۔

کل میں نے بات کی تھی اپنی جوانی کے دنوں میں داڑھی والے ہم جماعت لوگوں کی۔ داڑھی والے تو تب بھی اگر کچھ ایسا ویسا کرتے تھے تو چھپ کے کرتے ہوں گے مگر اب جنہوں نے داڑھیاں بڑھا لی ہیں اور معتبر ہو گئے ہیں وہ اپنے زمانے میں ہم جیسے ہی تھے۔

مجھے پہلی ایڈلٹ فلم جس ہم جماعت نے فوج کے بیچلر آفس کوارٹرز میں دکھائی تھی، مذہبی تو وہ تب بھی بہت ہوتا تھا، ملتان میں تبلیغی جماعت کے مرکز ابدالی مسجد بھی جایا کرتا تھا مگر جوان اور کنوارا بھی تھا، داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی تھی۔ اب وہ داڑھی والا تو ہے مگر اس کی ان باکس پوسٹس اس کے جوان دل ہونے کی گواہی دیتی ہیں۔

اسی طرح میں کیا بتاؤں کہ آج مرکزی پنجاب کے ایک ضلع میں معروف مذہبی سیاسی جماعت کا امیر میرا جی سی کا ہم جماعت دوست مجھ سے میرے گھر کی چابی مانگ کے لے گیا تھا کیونکہ اسے اپنی گرل فرینڈ کو لانا تھا۔ وہ بی بی جاتے ہوئے گھر میں پڑی میری کلائی کی گھڑی اٹھا لے گئی تھی۔ میری اہلیہ چھوٹے بچے کے ساتھ کہپں مہمان گئی ہوئی تھی۔ گھڑی شادی میں دی گئی تھی اور اس دور کے حساب سے مہنگی بھی تھی۔ اس نے میرے اس دوست کو سختی سے کہا تھا کہ گھڑی واپس آنی چاہیے اور دلچسپ بات یہ کہ ایک ہفتے بعد اس نے گھڑی لا کر دے دی تھی۔

اب میری سنیے۔ آئل کمپنی کا طیارہ تہران سے اڑا اور شیراز میں کوئی ایک گھنٹے کے وقفے کے لیے اترا۔ میرے ساتھ میری بیوی اور دو سال کا بچہ بھی تھے۔ لوکل فلائٹ تھی، ایسے ہی باہر نکلے تو آئل کمپنی میں کام کرنے والا میرا دوست مہرداد توکلی زادہ مل گیا۔ وہ شیراز میں مزے لے رہا تھا۔ اب کوشش میں تھا کہ جزیرہ لاوان جائے، جہاں ہمیں جانا تھا، مگر چارٹر طیارے کی لسٹ پر نہیں تھا۔ میرے پاس وقت تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آقائی دکتور چلو شہر چلتے ہیں۔ میں بیوی سے کہہ کر کہ بروقت پہنچ جاؤں گا، اس کے ساتھ چلا گیا۔

ایران میں سگریٹ کو سیگاری کہتے ہیں اور حشیش کو بنگ۔ میں نے راستے میں مہرداد سے پوچھا کہاں اور کیا کرنے جا رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا، ”بنگ می کشیم کیف می کنیم“ ۔ میں نے پوچھا تھا کہ بنگ کہاں سے دستیاب ہوگی۔ اس نے بتایا تھا کہ خیابان فلاں پر شہر کے فرماندہ پاسداران کے لوگ بیچتے ہیں، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایران میں منشیات بیچنے کی سزا موت تھی اور استعمال کرنے کی زندان و شلاک یعنی کوڑے تھے۔

میں گھبرایا تو بہت مگر ایرانیوں کا دستور ہے کہ آپ کو اگر کچھ پیش کر دیا جائے تو پہلی بار آپ کا انکار بہت بری بات سمجھا جائے گا۔ شہر پہنچ کر اس نے ایک سڑک کے کنارے کھڑے ایک نوجوان کو اشارے سے بلایا۔ ہتھیلی میں قائم کیے یعنی چھپائے ہوئے نوٹ دیے اور کہا، ”چیلیم درست کن“ ۔ اس نے شڑاپ شڑاپ تین چار سگریٹ پھاڑ کے اس کا تمباکو ہتھیلی پر جمع کیا۔ حشیش گرم کر کے اس میں مکس کی۔ کوکاکولا کی بوتل کو گردن سے توڑا۔

اس کے منہ میں سگریٹ کی ڈبی کا گتا اڑسا۔ ٹوٹے ہوئے حصے میں حشیش ملا تمباکو بھرا۔ آگ لگائی اور مجھے کہا، بیا یعنی آ جاؤ۔ میں نے یہ کرتب کبھی کیا نہیں تھا بولا کیسے۔ نوجوان نے بوتل کی گردن پر دونوں ہتھیلیوں سے اس طرح مٹھی بنائی ہوئی تھی کہ مٹھی میں ایک دہانہ بن گیا تھا۔ اس نے عمل کر کے بتایا بکش۔ میں نے ایک بڑا سا کش لیا اور کھانستا ہوا دو تین قدم چلا گیا۔ دو دو کشوں میں ہی چیلیم تمام اور ہم بہت کیف میں۔ مہرداد وہاں سے مجھے سیر کرنے کسی گلستان میں لے گیا جہاں اس نے ایک سیگاری بھی درست کی یعنی سگریٹ میں چرس بھری۔

لو جی میں بھول گیا کہ بیوی بچہ ہوائی اڈے پر ہیں۔ اتفاق سے یاد آیا تو بھاگم بھاگ پہنچے۔ بیوی آگ بگولا تھی۔ طیارہ اڑنے میں محض سات منٹ باقی تھی۔ میں نے اسے کہا جلدی چلو بھاگو سوار ہو جاؤ طیارے میں۔ میں پہنچ جاؤں گا۔ وہ ہکا بکا، کھولتی بولتی چلی گئی اور میں مہرداد کے ساتھ دو روز ہوٹل میں مقیم کیف کرتا رہا تھا۔ پھر ہم اکٹھے بندر عباس چلے گئے اور پتہ نہیں چار پانچ روز بعد سڑک کے راستے اور لانچ پر سوار ہو کر جزیرے پر پہنچے تھے۔

تھے نا ہم بھی بہت کریزی؟ متلون مزاجی کے ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں بزرگ بننے کی کوشش ہی نہیں کرتا، چاہے آپ لاکھ مجھے باباجی، بزرگو کہتے رہو کیونکہ آپ یا تو یہ سمجھتے ہوں گے کہ آپ بوڑھے ہوئے بن جوانی میں مرجائیں گے یا پھر بھول رہے ہیں کہ آپ بھی انشاءاللہ داڑھی یا بن داڑھی مدبر اور سنجیدہ بوڑھے باباجی بنیں گے، انشا اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).