آٹو انڈسٹری کے زندہ ہونے کا امکان


تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ڈالر کو پر لگ گئے یا یوں کہہ لیں کہ وہ آسمان سے بہت اوپر نکل گیا۔ ہر شے مہنگی سے مہنگی تر ہوتی گئی اور ہو رہی ہے۔ ڈھائی سال میں تقریباً ہر صنعت ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کورونا اور کپتان حکومت کا کوئی گٹھ جوڑ ہے۔ ویسے کپتان حکومت کورونا سے کم مہلک ثابت نہیں ہوئی، کورونا سے لوگ بیماری سے مرے اور کپتان حکومت میں بھوک سے۔

ملک کی ترقی اور خوشحالی میں دو صنعتیں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن سے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ وابستہ ہیں وہ کروڑوں لوگ کئی کروڑوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ وہ صنعتیں پراپرٹی و تعمیرات اور آٹو انڈسٹری ہے۔ ڈالر نے ان دونوں صنعتوں کا بھٹہ ہی بٹھا دیا، آٹو انڈسٹری ہمیشہ تین، تین شفٹوں میں کام کرتی تھی پھر بھی وہ آرڈر پورے کرنے میں ناکام رہتی تھی اور لوگوں کو 6، 6 مہینے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کپتان حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ برس سے آٹو انڈسٹری ڈوبنا شروع ہو گئی۔

ستمبر 2019 ءمیں کالم لکھا تھا جس میں کپتان حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ جناب ”آٹو انڈسٹری کا جنازہ“ تیار ہے مگر حکومت کے کان پر کوئی جو رینگ ہی سکتی اس لئے اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تین شفٹوں میں چلنے والی آٹو انڈسٹری ایک شفٹ پر آ گئی اور پھر ایک ہفتہ میں صرف چار سے پانچ دن کام پر آ گئی۔ لاکھوں افراد کے روز گار مارے گئے۔ ان افراد نے تبدیلی کے رج کے مزے لئے۔

آٹو انڈسٹری کی تباہی کی وجہ حکومت کی پالیسیاں ہیں جو کہ میں ”ہم سب“ پر 23 ستمبر 2019 ءکے کالم میں لکھ چکا ہوں، مختصر دوبارہ بتا دیتا ہوں کہ ڈالر کی انتہائی اونچی پرواز اور ٹیکسز کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں میں 1300 سی سی گاڑیوں کی قیمت میں 8 سے 10 لاکھ روپے اضافہ ہوا، کپتان حکومت اور کورونا وائرس کی وجہ سے کوئی کاروبار تو چل نہیں رہا تھا کہ لوگ اتنا بڑا اضافہ بآسانی برداشت کرلیتے، نتیجہ جو گاڑیاں 6 ماہ بعد بھی نہیں ملتی تھیں وہ گاہکوں کی راہ تک رہی تھیں۔

حکومت کو ہر شے ڈوبنے کے بعد خیال آتا ہے کہ او ہو یہ تو ڈوب گئی پھر اسے باہر نکالنے کا سوچتے ہیں مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی، اب تو کپتان حکومت یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہم نئے ہیں۔ اب ان کو ڈھائی سال سے زیادہ ہو گیا ہے حکومت چلاتے اگر وہ اب بھی معاملات نہیں سنبھال سکتی تو پھر انا للہ وانا لیہ راجعون پڑھ لینا چاہیے اور دل کو تسلی دے لیں کہ اگلے ڈھائی سال بھی رنڈی رونے میں ہی گزریں گے۔

اب کچھ حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ مارکیٹ میں چائنہ کی کمپنی بھی آ گئی ہے جس کا نام چنگان ہے۔ اس کی ہزار سی سی گاڑی کاروان نے مارکیٹ میں جگہ بنالی ہے کیونکہ اس کے مقابلے کی کمپنی نے اپنی روش نہیں بدلی لوگ مجبور ہو کر چنگان کی طرف آرہے ہیں۔ اس طرح ہنڈائی نے بھی اپنی گاڑیاں مارکیٹ میں لانچ کردی ہے جبکہ کیا کی سپورٹیج نے ٹویوٹا فارچونر کو ٹف ٹائم دیا، اب مارکیٹ میں مقابلے کی فضا بن گئی ہے۔ پہلے سے موجود آٹو کمپنیوں نے عوام کو بے دریغ لوٹا، عوام مجبور تھے ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔

ڈالر گزشتہ دو ماہ میں تقریباً 8 روپے نیچے آ گیا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور سال کے اختتام تک 154۔ 55 تک آ جاتا ہے تو آٹو انڈسٹری کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ جائے گی۔ خبر ہے کہ آٹو پالیسی کی مدت جون 2021 ءمیں ختم ہو جائے گی۔ نئی آٹو پالیسی میں مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر حکومتی ٹیکسز میں کمی کا امکان ہے جس سے گاڑیوں کی قیمت میں کمی ہوگی، حکومت نے آٹو انڈسٹری کو گاڑیوں کی قیمتیں کم کرنے کے لئے ٹیکسز میں کمی کا عندیہ دیا ہے جس سے صارفین کو ریلیف ملے گا۔ وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے سٹیک ہولڈرز سے جلد مشاورت شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی کے بعد کپتان حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے آٹو انڈسٹری کو سہولیات دینے کے لئے ٹیکسز میں کمی کرنا ہوگی، ڈالر سستا ہونے سے بیرون ملک سے گاڑیوں کا سامان سستا ملے گا جس سے قیمت کم ہوگی اور ٹیکسز کم کرنے سے گاڑیوں کی قیمت چار سے پانچ لاکھ روپے کم ہو سکتی ہے جس سے آٹو انڈسٹری کے دوبارہ زندہ ہونے کا امکان ہے اور ایک بار پھر آٹو انڈسٹری بھرپور انداز میں چلے گی اور عوام کو کچھ سکون کا سانس ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).