پسندیدہ خطیب کی کچھ باتیں: کچھ شکوے


سکول کے زمانے میں ایک طویل فاصلہ کاٹ کر خطبۂ جمعہ سننے ایک مشہور مسجد جایا کرتا تھا۔ جن علماء سے بے حد متاثر تھا، ان میں یہ خطیب بھی تھا۔ خطیب کیا تھا، قدرت نے ہر ادا اور ہر فن سے نوازا تھا۔ اس کے اندر شاعر کی نوا بھی تھی اور مغنی کا نفس بھی۔ وہ خطیب بھی تھا اور ادیب بھی۔ کالج میں پڑھاتا تھا اور اہل مدارس سے بھی رسم و راہ تھی۔ صاحب کتاب تھا اور حلقۂ اہل ذوق میں منفرد مقام بھی رکھتا تھا۔ یعنی شعر و شاعری سے بھی شغف تھا۔

میں ان کی جس ادا پہ فریفتہ تھا، وہ ان کی غیر جذباتی اور فطری انداز میں تقریر تھی۔ ان کی تقریر ان موضوعات کا احاطہ کرتی: صحابہ کا مقام۔ ختم نبوت۔ منکر احادیث پر جرح۔ امام ابو حنیفہ کے مسلک کی خوبیاں۔ اکابر علماء کے معجزے اور خوبیاں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ موضوعات آج اتنے اہم نہ ہوں۔ مگر اس بچپنے میں ان میں کتنا رس ہوا کرتا تھا؟ اور میرا پسندیدہ خطیب کیسا رس گھولتا تھا؟ یہ میں ہی جانتا ہوں۔ کچھ مت پوچھیے۔

سکول کا دور ختم ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ہی شہر بدلنا پڑا۔ کالج کے دور میں کہیں سے مولانا مودودی کی ”خلافت و ملوکیت“ ہاتھ لگی تو پڑھ لی۔ انہی ایام میں جاوید احمد غامدی اور حدیث کے بارے میں ان کی رائے سے بھی واقفیت ہوئی تو کان کھڑے ہونے لگے۔ کچھ کچھ یاد آنے لگا کہ خطیب صاحب امیر معاویہ کی فضیلت پر سب سے زیادہ زور کیوں دیا کرتا تھا؟ ”منکر احادیث“ کی طرف باریک اشارہ کر کے وہ فقرے کیوں کستا تھا؟ یہی وہ وقت تھا جب معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعوی کیا تھا اور اس کے پیروکار اب بھی موجود ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ گتھی بھی سلجھ گئی کہ حنفی مسلک کے علاوہ بھی کچھ مسالک ہیں اور دیوبندی مکتبہ فکر ہی نہیں، فکر و نظر کے رقیب اور بھی بہت ہیں۔

کالج سے یونیورسٹیوں اور یونیورسٹی سے فراغت کے بعد غم روزگار کے تلخ ایام۔ اس دوراں سات سال بیت گئے۔ کبھی وہ دل گداز خطبہ سننے کا اتفاق نہ ہوا۔ دو مہینے پہلے کی بات ہے کہ اس ہمدم دیرینہ کی میعت میں نماز جمعہ ہڑھی اور دو خطبے سنے۔

میں لڑکپن کی دہلیز پہ کھڑا تھا۔ پسندیدہ خطیب کی داڑھی میں چاندی اتر آئی تھی مگر فکری بلوغت کسی نئے سانچے میں نہیں ڈھلی تھی۔ انہی دنوں میں ”خلافت و ملوکیت“ کو جلایا گیا تھا۔ اور فوٹیج بھی وائرل ہوئی تھی۔ خطیب کا خطبہ اسی موضوع پر تھا۔ وہ اختتامیے جملے جو کبھی کانوں میں رس گھولا کرتے تھے، آج زہر گھول رہے تھے۔ آج وہ اپنے اسی فطری اور ٹھہرے انداز میں فرما رہا تھا ”جن کتابوں میں صحابہ کی شان میں گستاخی ہو، ان کتابوں کو جلانا روا ہے۔ وہ اسی کی حقدار ہیں۔“

دوسرا خطبۂ جمعہ کے موقع پر پشاور میں توہین رسالت کے ایک ملزم کو گولی مارنے کا واقعہ پیش آ گیا تھا۔ آج خطبہ بھی اسی موضوع پر تھا۔ ”اگر کوئی آپ کے والدین کو گالی دے تو تمھیں کتنا غصہ آئے گا۔ اگر کوئی آپ کو ماں بہن کی گالی دے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ ایک شخص اگر نبی کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو اس کو کسی کمزور ترین ایمان والا شخص بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ ہر مسلمان تیغ بکف ہو کر نکلے گا اور یہی کچھ کرے گا جو خالد نے کیا۔“ وہ کہے جا رہا تھا۔

جہاں یہ خطبہ دیا جاتا ہے، معلوم بھی ہے کہ وہاں سامعین کون ہوتے ہیں؟ ان کے حلقۂ ارادت میں دکاندار طبقہ بیٹھا ہوتا ہے جو مارکٹ میں ہر وہ ناجائز کام کرتا ہے جس میں چار آنے کا منافع ہو۔ یہاں سود خور تاجر بیٹھے ہیں۔ یہاں کم تولنے والے اور دھوکہ دینے والے بیٹھے سن رہے ہیں۔ یہاں ہر لمحے گالیاں بکنے اور بد خلقی سے پیش آنے والا ڈرائیور طبقہ بیٹھا ہے۔ ان حضرات کو کچھ نہیں معلوم کہ مرزا قادیانی نے کیا کہا تھا۔

اس باب میں ان کا اپنا ایمان پختہ ہے۔ ان صاحبان کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ مودودی نے کیا گل کھلائے تھے۔ یہ غامدی کو بھی نہیں جانتے۔ ان کو جس شے کی ضرورت ہے اور جس جنس کمیاب کا تقاضا وقت کر رہا ہے، وہ کچھ اور ہے۔ انہیں کسی ایسے خطیب کی ضرورت ہے جو اخلاقی پہلوؤں پر طبع آزما ہو۔ اس گم گشتہ کارواں کو دیانت اور امانت کا درس دے۔ ماں باپ پر اولاد اور اولاد کے ماں باپ پر حقوق کی فہرست پیش کرے۔ جو بیٹی کی زبردستی بیاہ جانے اور جائیداد میں حق نہ دینے کی قباحت بیاں کرے۔

اور سب سے بڑھ کر، سامنے بیٹھے اس مجمع کی ذہنی، علمی اور فکری سطح کو سامنے رکھ کر وعظ و نصیحت کرے۔ میرا پسندیدہ خطیب تو اس تربیتی و اخلاقی پہلو پرطبع آزما ہونے سے رہا۔ اسے رومی کے سوز و ساز سے غرض ہے اور وہ رازی کے پیچ و تاب کھاتے باریک نکات میں الجھا ہے۔ اسے اس تاریخی بحث سے پالا پڑا ہے جس کو ہزاروں کتابیں اور لاکھوں بحثیں بھی سلجھا نہ پائیں۔ وہ ان معموں کو حل کر رہا ہے جو نہ سمجھانے کے ہیں نہ سمجھنے کے۔

مگر اس کا سامع کچھ اور چاہتا ہے۔ ایک دکان دار کو جس متاع بے بہا کی ضرورت ہے، وہ پورا تول، سچ بول اور دھوکہ دہی اور مکر و فریب سے منہ موڑ ہے۔ ایک ڈرائیور کی گاڑی جس تقریر کی شاہراہ پر چلنی چاہیے، وہ حسن اخلاق ہے۔ سماج میں رہنے اور لوگوں کے ساتھ ڈیلنگ کرنے کا ڈھنگ ہے۔ جو خاکروب بیٹھا تاریخی مباحثوں کی ڈوریں سلجھا رہا ہے، اسے ذمہ دار شہری اور دیانت دار مسلمان کی حیثیت سے اپنا کام کرنے کی ترغیب ہے۔ جو ناخواندہ یا نیم خواندہ مرد کے روپ میں باپ، بھائی اور شوہر زانوئے تلمذ تہہ کیے بیٹھا ہے، اس پر بطور والد، بھائی اور شوہر ذمہ داریوں اور فرائض سے خبردار کرنا۔

یہ کسی ایک خطیب کا معاملہ نہیں۔ جہاں وعظ و نصیحت سننے جائے، واں عشق و مستی کی باتیں ہوتی ہیں۔ معجزے بیاں ہوتے ہیں۔ علمی بحثوں کے تار چھیڑے جاتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ غازی پیدا ہوتے ہیں۔ جو خود ہی مدعی، وکیل اور منصف کے فرائض انجام دیتے ہوئے آخر میں جلاد کا کام بھی کر جاتے ہیں۔ چار حج کرنے والے اور بیٹی بہن کو وراثت سے محروم کرنے والے معرض وجود میں آتے ہیں۔ پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار پلتے ہیں جو مسجد سے باہر نکل کر ہر وہ برائی کرتے ہیں جس کا انسانی دماغ تصور کر سکتا ہے۔

یاں ساقی کا اچھلتا جام لبالب بھرا ہے۔ مگر پینے والے ایسے کہ تھوڑی سی پی کر بھی بہک جاتے ہیں۔ پہلے ان کو کسی تعلیم و تربیت کی کٹھالی میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بعید نہیں کہ اس سانچے میں ڈھلنے کے بعد مٹی کے یہ ڈھیر، سونے کا ہمالہ بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).